امت مسلمہ ان دنوں جن حالات سے دوچار ہے وہ کسی
سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔عالم اسلام کے زخموں سے خون رستا ہر کھلی آنکھ کو
دکھائی دے رہا ہے۔ہر طرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔عالم اسلام کاہر ملک
امن و آشتی کے نام تک کو بھول چکا ہے۔دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک
گھوم جائیں، آپ کو دنیا کے چپے چپے پر خون مسلم ہی ارزاں ملے گا۔کہیں آپس
میں دست و گریباں اور کہیں اسلام دشمن قوتیں اپنا کھیل کھیل رہی
ہیں۔پاکستان ایک عرصے سے بدامنی اور خوف و ہراس کا گڑھ بن چکا ہے۔ایک طرف
امریکی طیارے آئے روز ڈرون حملے کرکے پاکستانی عوام کو خون میں نہلا دیتے
ہیں، اب تک امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ مرنے والے پاکستانیوں کی تعداد
ہزاروں میں ہے، امریکی جارحیت کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔دوسری طرف ملک
دہشت گردی، خودکش دھماکوں اور قتل وغارت گری کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔گزشتہ
چند سالوں میں چالیس ہزار سے زائد پاکستان شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو
بیٹھے ہیں۔
شام بھی گزشتہ پونے دو سال سے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہے۔اقوام متحدہ
کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ تک شام میں کشیدگی کے آغاز سے اب تک کم
از کم ترانوے ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے
ادارے کا کہنا ہے کہ گزشتہ جولائی سے اب تک شام میں ہر ماہ اوسطً کم از کم
پانچ ہزار افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایک محتاط اندازہ ہے
کیونکہ بہت سی ہلاکتوں کی اطلاع نہیں دی جاتی۔ ہلاک ہونے والوں میں اسّی
فیصد مرد ہیں اور دس سال سے کم عمر کے سترہ سو بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ کئی
موقعوں پر بچوں پر تشدد اور ا ±ن کے مارے جانے کی اطلاعات ملی ہیں، پورے
پورے گھرانوں کو قتل کردیا گیا جن میں شیرخوار بچے بھی شامل ہیں۔ ہلاکتوں
کی اتنی زیادہ شرح اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ تنازع کس قدر وحشیانہ ہو
چکا ہے۔ شام میں گزشتہ دو برسوں سے جاری جارحیت میں اب تک ہزاروں بچے بھی
مارے گئے ہیں۔ بچوں کو ’خودکش بمبار یا انسانی حصار‘ کے طور پر استعمال کیا
جاتا ہے۔گزشتہ دنوں معروف عالم دین شیخ یوسف القرضاوی نے شام میں ظلم کا
نشانہ بننے والے شہریوں کے لیے تعاون کی اپیل بھی کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ
دنیا بھر کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ شام میں ظلم کانشانہ بننے والے اپنے
مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کریں۔انہیں ہر طرح سے تعاون فراہم کریں۔ان کا
کہنا تھا کہ شام میں حزب اللہ بشارالاسد کی حمایت میں لڑرہی ہے،اسے ہر
تعاون فراہم کررہی ہے، مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ وہ مظلوموں کا ساتھ
دیں۔اسی حوالے سے عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے اس خدشے کا اظہار کیاتھا
کہ پڑوسی ملک شام میں جاری خانہ جنگی قریبی ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے۔وہی
ہوا کہ گزشتہ دنوں شام کی لڑائی لبنان میں بھی جاپہنچی ہے۔وہاں گزشتہ چند
روز سے مسلح جھڑپیں جاری ہیں جن میں اب تک کئی شہری مارے جاچکے ہیں۔لڑائی
ایک سنی عالم دین کے خلاف حزب اللہ کی کارروائی سے شروع ہوئی تھی۔لبنان کے
سابق وزیراعظم فواد سنیورہ نے جنوبی شہر صیدا میں پیش آنے والے پ ±رتشدد
واقعات کی ذمہ داری حزب اللہ پرعائد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صیدا میں فرقہ
وارانہ لڑائی کے دوران اگر لبنان کے کسی مسلح گروپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا
ہے تو وہ حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کی اس لڑائی کا مقصد راسخ العقیدہ س ±نی
عالم دین شیخ احمد الاسیر اور ان کے گروپ کو کاری ضرب لگانا تھا۔پچھلے چند
روز کے اخبارات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ صیدا میں
کشیدگی کا منصوبہ حزب اللہ نے تیار کیا تھا تا کہ شیخ احمد الاسیر کو جوابی
لڑائی کے لیے مجبور کیا جائے۔خیال رہے کہ ساحلی شہر صیدا اور اس کے نواحی
علاقوں میں پچھلے کئی روز سے حزب اللہ اور سنی عالم دین شیخ احمد الاسیر کے
حامیوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ لڑائی کے دوران فوج پر بھی حملے کیے گئے
ہیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی اور دوطرفہ حملوں میں اب تک درجنوں افراد ہلاک اور
زخمی ہو چکے ہیں۔حزب اللہ شامی صدر بشارالاسد کی حامی ہے جب کہ شیخ احمد
الاسیر شامی انقلابیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ لبنان کے ایک تجزیہ نگار جارج
علم نے کہا ہے کہ جب تک تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طورپر فوج کو مسلح عناصر
کوغیر مسلح کرنے کا اختیار نہیں دیتیں تنہا فوج کے لیے ایسا کرنا ناممکن
ہے۔ جارج نے خدشہ ظاہر کیا کہ صیدا میں کشیدگی کا فوری خاتمہ نہ کیا گیا تو
فرقہ وارانہ فسادات کی آگ ملک کے دیگر شہروں تک پھیل سکتی ہے۔
افغانستان میں بھی گزشتہ دس سالوں سے امریکا بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند
سلا رہا ہے۔ ان دس سالوں میں بلامبالغہ اب تک مرنے والوں کی تعداد لاکھوں
میں ہے۔افغانستان میں امریکی جارحیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ چند
مہینوں میں افغانستان میں 7559 افراد مارے جاچکے ہیںجن میں سے خواتین اور
بچوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ان تمام سخت ترین حالات کے باوجود باہمت افغانوں
نے کبھی ہار نہیں مانی بلکہ ظالم و جابر امریکا کو ہی ہر سطح پر جھکایا
ہے۔اسی لیے امریکا ایک عرصے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو
ترس رہا ہے اور امریکا کے زور پر ہی قطر کو طالبان کا دفتر کھولنا پڑا ہے
تاکہ امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے جلدی یہاں سے نکل سکے۔طالبان آئے
روز زوردار حملوں سے امریکا سے اپنا بدلہ لیتے رہتے ہیں۔گزشتہ روز طالبان
نے افغان صدارتی محل کو نشانہ بنایا۔ذرائع کے مطابق یہ معلوم نہیں کہ صدر
حامد کرزئی محل میں موجود تھے یا نہیں تاہم مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے
کے بعد انہیں صدارتی محل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنا تھا۔ برطانوی
خبر رساں ادارے کے مطابق مجاہد نے پیغام میں کہا، ”آج صبح ساڑھے چھ بجے خود
کش حملہ آوروں نے صدارتی محل، وزارت دفاع اور آریانا ہوٹل پر حملہ کیا۔“
آریانا ہوٹل کو امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کا کابل میں ہیڈ کوارٹر
خیال کیا جاتا ہے۔ عینی شاہدین نے ہوٹل کی عمارت کے پاس سے دھواں اٹھتا
دیکھا ہے۔اسی طرح کے حملے طالبان آئے روز کرتے رہتے ہیں جس سے امریکا کو یہ
بتانا مقصود ہے کہ وہ امریکا سے ہر حال میں اپنا بدلہ لیتے رہیں گے۔
فلسطین میں بھی اسرائیلی ظلم کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینیوں کی زمینیں کو
ہتھیا کر ظالم صیہونوں کو دے دی گئیں۔ اور پوری دنیا کے اسلام دشمن ممالک
اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہےں۔امریکا و برطانیہ سمیت کئی دوسرے ممالک بھی
اسرائیل کو ہر سطح پر تھپکی دیتے ہیں۔آئے روز کئی بے گناہ فلسطینی شہید
کردیے جاتے ہیں، بے گناہ فلسطینوں کی پکڑ دکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چند
روز قبل صرف ایک دن میں فلسطین کے مرکز مقبوضہ بیت المقدس میںایک سو پندرہ
فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت کے
فوجیوں نے زیادہ تر فلسطینیوں کو گھروں میں گھس کر گرفتار کیا اور گرفتاری
کے بعد انہیں نامعلوم مقامات پر منتقل کردیا گیا ۔ اسی طرح گزشتہ
دنوںفلسطین کے علاقے غرب اردن میں فلسطینی عوام کے احتجاجی مظاہرے پر
اسرائیلی فوجیوں کے حملے کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی زخمی ہوگئے
ہیں۔فلسطینی القدس میں اسرائیل کی تسلط پسندانہ پالیسیوں اور بیت المقدس کی
حمایت میں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے۔ اس موقع پر صہیونی
حکومت کے فوجیوں نے مظاہرین پر حملہ کرکے درجنوں فلسطینی مظاہرین کو ز خمی
کردیا۔ اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے
داغے اور ہوائی فائرینگ کی ، جس کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی زخمی
ہوگئے۔فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں پر ظالمانہ قبضہ
کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے،آئے روز یہودی بستیوں کی تعمیر کی جاتی ہے۔
عراق بھی ان مظلوم ممالک میں شامل ہے جہاں موت کا رقص جاری ہے۔روز مختلف
کارروائیوں میں سینکڑوں افراد مارے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے
والی تنظیم ’عراق باڈی کاو ¿نٹ‘ کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق
عراق میں ظالمانہ مختلف واقعات میں سویلین ہلاکتوں کی تعداد 3,976 رہی ہے۔
تاہم کم ترین تعداد کے باوجود اوسطاً یہ تعداد قریب 11 ہلاکتیں روزانہ بنتی
ہے۔۔میانمار (برما) میں گزشتہ سال سے مسلمانوں پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری
ہے، 2012 سے اب تک دو لاکھ سے مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں۔مسلمانوں کو زندہ
جلایا جاتا ہے،برما میں مسلمانوں کی سینکروں مساجد جلادی گئی ہیں یا ڈھادی
گئی ہیں۔مدارس ملیامیٹ کردیے گئے ہیں۔مسلمانوں کو برما سے نکلنے پر مجبور
کیا جارہا ہے۔کشمیر میں بھی بھارتی ظلم و ستم جاری ہے، آزادی کے مطالبے کی
پاداش میں روز کئی بے گناہ مسلمانوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔اب
تک ایک لاکھ سے بھی زائد کشمیری بھارتی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں،جیلوں
میں پڑے سڑتے کشمیریوں کی تعداد کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ |