ایک سچی خواہش سےدہشت گردی کا خاتمہ

خوشی محمد میرئے بہت اچھے دوست ہیں۔ میاں چنوں کے رہنے والے ہیں۔کافی عرصہ سے وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں، جدہ میں اُنکی سائیکل کی دوکان ہے ، وہ نئی سائیکل بیچتے ہیں اور پرانی کی مرمت کرتے ہیں۔ عام طور پر بچے اُن کے پاس آتے ہیں۔ جدہ میں رہتے ہوئے اکثر رات کو میں ان کے پاس جاکر بیٹھ جاتا اور ہم اپنے ملک کے حالات کا ذکر کرتے رہتے اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق اسکا حل ایک دوسرئے کو بتاتے۔ ایک دن میں اُن کے پاس جاکر بیٹھا ہی تھا کہ ایک بچہ اپنےبڑئے بھائی کے ساتھ اپنی سائیکل لیکر آیا ، پتہ لگا کہ گھر میں بچے کے بڑئے بھائی نے دیکھا نہیں اور جب اپنی کار کو پیچھے کیا تو وہ کار کے پیچھے رکھی سائیکل پر چڑھ گی اور سائیکل کافی ٹوٹ پھوٹ گی جس کا ٹھیک ہونا بظاہر مشکل نظر آرہا تھا۔ بچے کا بڑا بھائی نئی سائیکل لینا چاہتا تھا مگر بچہ رو رو کر اپنے بڑئے بھائی سے ضدکررہا تھا کہ اُسکو اپنی پرانی سائیکل ہی چاہیے کیونکہ کچھ عرصے قبل اُسکے والد کا انتقال ہوگیا تھا اور سائیکل اُسکے والدنے اُسکو دلائی تھی۔ آخر بچے کی ضد سے مجبور ہوکر اسکے بڑئے بھائی نے پوچھا کیا یہ سائیکل ٹھیک ہوسکتی ہے، خوشی محمد کا جواب تھا، جی یہ ٹھیک ہوسکتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ خوشی محمد نے مرمت کے دوران مختلف قسم کے اوزار استمال کیے جن میں چھوٹے سے اسکرو ڈرائیور سے لیکر بھاری ہتوڑے تک تھے۔ ایک گھنٹے کی لگاتار محنت کے بعد وہ سائیکل ٹھیک ہوچکی تھی اور وہ بچہ خوشی خوشی سائیکل چلارہا تھا اور اپنے بڑئے بھائی سے کہہ رہا تھا یہ میرئے مرحوم والدکا تحفہ ہے اور مجھے اس سے بہت پیار ہے۔ بچے کے بڑئے بھائی نے طے شدہ معاوضہ سے زیادہ معاوضہ دینا چاہا تو خوشی محمد نے انکار کردیا اور کہا شیخ اس بچے کی ضد نے آج مجھے کچھ سکھایا ہے تب ہی یہ سائیکل ٹھیک ہوئی ہے۔ بچے کے جانے کے بعدمیں نے خوشی محمد سے پوچھا کہ آپکو بچے کی ضد نے ایسا کیا سیکھا دیا کہ آپ نے اس سائیکل کو ایک گھنٹے کی قلیل مدت میں ٹھیک کردیا۔ پہلے خوشی محمد مسکرائے اور پھر اُن کی آنکھیں نم ہوگیں اور کہا جب وہ بچہ اپنی بگڑی ہوئی سائیکل کےلیے روکر بتارہا کہ وہ اُسکے والد مرحوم کا تحفہ ہے تو بچے کی اپنی سائیکل اور والد سے محبت دیکھ کرمیرئے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں یہ سائیکل ٹھیک کروں اور میں نے اپنی خواہش کے مطابق محنت سے سائیکل ٹھیک کردی۔ میں خوش اس بات پر ہوں کہ بچے کی محبت کی وجہ سے اُسکو سائیکل ٹھیک حالت میں واپس مل گی اور میری آنکھیں اس لیے نم ہوگیں کہ میرا وطن پاکستان بھی تو بگڑا ہوا ہے اور مرحوم بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا دیا ہوا تحفہ ہے ۔ پاکستان کے عوام تو اپنے بابا ئے قوم کے تحفے پاکستان کے بگڑنے پر رورہے ہیں مگر ہمارئے ایک بھی رہنما کے دل میں یہ خواہش پیدا ہی نہیں ہوتی کہ اسکو ٹھیک کریں۔

نواز شریف حکومت آنے کے بعد دہشت گرد کارروائیوں میں جو تیزی آئی ہے اُس سے پورا ملک پریشان ہے ۔ شاید دہشت گرد وں کا مقصد نئی حکومت پر اپنا زیادہ سے سے زیادہ دباوُ ڈالنا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دہشت گرد بابائے قوم قائد اعظم کی زیارت کی تاریخی عمارت کوبم دھماکوں سے برباد کرنے، نوشہرہ، کراچی، پشاور، مردان اورکوئٹہ میں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ اب ضلع ديامر غیر ملکی سیاحوں کا خون بھی بہاچکے ہیں ۔ 23 جون کو گلگت بلتستان کے ضلع ديامر ميں نانگا پربت بيس کيمپ پر دہشتگردی کے واقعے ميں 10 غير ملکی سياحوں اور ايک پاکستانی سميت 11 افراد دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ ضلع ديامر کی دہشت گردی کے لیےتحريک طالبان پاکستان کے دو گروپوں نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔طالبان ترجمان نے اپنے بيان ميں کہا کہ حملے کا مقصد ڈرون حملوں پر دنیا کی توجہ مبذول کروانا اور ولی الرحمن کي ہلاکت کا بدلہ لينا ہے۔ ذرا غور کریں ڈرون حملوں کا ذمیدار امریکہ ہے مگرہلاک ہونے والوں ميں صرف ایک امریکی تھا وہ بھی چينی نژاد باقی يوکرائن کے پانچ، چين کے دو، ايک روسی، ايک نيپالی اور ايک پاکستانی شامل ہيں۔ طالبان کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں پر دنیا کی توجہ دلانے کے لیے انہوں نے یہ مقدس کام کیا ہے، مگر اس دہشت گردی سےپوری دنیا میں یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ ملک دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اس واقعہ کا جو بدترین اثر فوری طور پر آیا ہے وہ چين کا شديد احتجاج ہے، چین نے پاکستان سے مطالبہ کيا ہے کہ چينی باشندوں کا تحفظ یقینی بنايا جائے اور حملہ آوروں کو سخت سزا دی جائے۔ باقی تمام ممالک سے بھی ہمارئے تعلقات دوستانہ ہیں وہ بھی اگر احتجاج کریں تو بیجا نہ ہوگا۔

اس دہشت گردی کا مقصد نہ صرف سياحت کے ادارے کا خاتمہ ، قومی آمدنی کے ایک زریعے کو مفلوج کرنا اور ہزاروں لوگوں کے روزگار کا خاتمہ ہے تو دوسری طرف پاکستان کی بين الاقوامی ساکھ خراب کرکے اسے ايسے دوست ملکوں سے محروم کرنا ہے جو ابھی تک اچھے برے وقتوں ميں پاکستان کے ساتھ رہے ہيں۔ یہ دہشت گردی کے علاوہ پاکستان کی سالمیت پر بھی حملہ ہے۔ ویسے تو ایک عرصے سے دنیا بھر کے باشندوں نے پاکستان آنا ہی چھوڑ دیا ہے، کرکٹ تو کیا باقی دوسرئے کھیلوں کا کوئی کھلاڑی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاری نہ صرف رک گی ہے بلکہ واپس جارہی ہے۔ ملک کا اپنا سرمایہ داربھاگ رہا ہے۔ کون رہنا چاہے گا یہاں اسلیے ماہرین کا اس ملک میں آہستہ آہستہ کال پڑرہا ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہورہی ہے۔ جرائم کا گراف بڑھ رہا ہے۔ لوگ ذہنی مریض ہورہے ہیں ، لوگوں کی قوت برداشت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔

ایک خبر کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان پر واضح کیا ہے کہ اگر وہ دونوں ملک میں قیام امن کیلئے حقیقی معنوں میں بامقصد اور سنجیدہ مذاکرات کا عمل شروع کرنا چاہتے ہیں تو طالبان بھی مثبت جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔ طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی شوریٰ کے فیصلے کے مطابق طالبان رہنما ولی الرحمن محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد حکومت کو مذاکرات کی پیشکش واپس لی تھی کیونکہ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنے فیصلوںمیں آزاد نہیں تاہم انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف اور خیبر پی کے میں عمران خان کی حکومت آزاد حیثیت میں ملک میں قیام امن کی خاطر آگے بڑھتی ہے تو طالبان بھی مثبت جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ اگر حکومت انکے تحفظات دور کر دے تو طالبان پولیو ویکسین کی اجازت دے سکتے ہیں۔

اس خبر کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی وفاقی حکومت اور عمران خان کی صوبائی حکومت اسقدر بےبس ہیں کہ بچوں کو پولیو ویکسین دینے کے لیے انکو دہشت گردوں کی اجازت چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف حکومت کو قائم ہوئے ایک ماہ بھی نہیں ہوا ہے اور یہ ہی عمران خان کی خیبر پختون خواہ کی حکومت کا عرصہ ہے مگر عوام اُن سےجلد از جلد دہشت گردی کے خاتمے کی امید کررہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسطرح اس مسلہ کا حل نکالا جائے ۔ اپنی دہشت گردی کو جائز قرار دینے کے لیے طالبان دہشت گرد امریکہ کے ڈرون حملوں کا ذکر کرتے ہیں اسلیے امریکہ کو کہا جائے کہ وہ ڈرون حملوں کو بند کرئے ، جبکہ اس معاملے کو لازمی سفارتی سطح پر حل کیا جائے۔ طالبان سے کہا جائے کہ وہ اپنی ہر قسم کی دہشت گردی بند کریں تو حکومت اُن سے مذکرات کرئے گی۔ لیکن اگر دہشت گرد اپنی اپنی دہشت گردی سے باز نہیں آتےتو پھر نواز شریف کو خاصکر اپنے اندرایک خواہش پیدا کرنی ہوگی کہ بابائے قوم کے اس بگڑئے ہوئے وطن کو ٹھیک کرنا ہے۔ کیونکہ عوام اس وطن کو ایک خوشحال پاکستان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ خوشی محمد نے بچے کی سائیکل ٹھیک کرنے کے لیے اپنے سارئے اوزار استمال کرڈالے مگر اس خواہش کے ساتھ کہ سائیکل کو ٹھیک کرنا ہے۔ نواز شریف بھی خواہش کریں تو پھر وہ سفارت کاری اور مذکرات سے لیکر فوج کے استمال تک سب کچھ استمال کرسکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کےلیے پوری قوم اُن کا ساتھ دئے گی ، بس صرف اُن کی ایک سچی خواہش کی ضرورت ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ کیونکہ کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کےلیے ایک سچی خواہش کا ہونا لازمی ہے۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485168 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More