زکوٰۃ: اسلام کا بنیادی رکن اوراہم ترین عبادت

قرآن مجید میں تقریبا 32 مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ توحید و رسالت کی شہادت ،نماز اورروزہ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا چوتھا بنیادی رکن اور تیسرااہم ترین فریضہ ہے۔

زکوٰۃ کا معنیٰ ومفہوم
لغت میں ’’زکوٰۃ‘‘ کے معنی ’’پاکیزگی، پاک کرنے، اضافہ اور برکت‘‘ کے لیے آتے ہیں۔ زکوٰۃایک مالی عبادت ہے،جوہرصاحب نصاب مسلمان مردوعورت پر فرض ہے۔ مالکِ نصاب ہونے سے مراداتنا مال ہے جوحاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولے چاندی (612.36گرام)یا ساڑھے سات تولے (یعنی 87.48 گرام) سونے کی رائج الوقت بازاری قیمت کے برابرہواورنصاب پرپورا ایک قمری سال گزرگیا ہو۔

آج کل چاندی اور سونے کے نصاب کی مالیت میں تقریباً ایک اور سات کی نسبت ہے۔ فقہائے کرام نے کہا ہے کہ اگر اموال متفرق ہوں (یعنی کچھ سونا اور کچھ چاندی اور دیگر اموال) یا صرف چاندی، تو چاندی ہی کے نصاب کا اعتبار ہوگا تاکہ ناداروں کو فائدہ ہو۔

مالدار پر زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط یہ ہیں:
مسلمان ہونا، عاقل ہونا، بالغ ہونا، نصاب شرعی کا مالک ہونا (یعنی صاحبِ نصاب ہونا) اور نصاب پر پورا ایک قمری سال گزر جانا۔

گھر کے ہرصاحب نصاب پرزکوٰۃ
اسلام میں جتنی بھی عبادات (خواہ وہ بدنی ہوں یامالی)فرض ہیں (جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ قربانی،فطرہ وغیرہ)وہ ہر عاقل و بالغ مسلمان پر فرداً فرداً عائد ہوتی ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ بھی گھرکے ہرصاحب نصاب پرالگ الگ فرض ہے،لہٰذا والدین اور اولاد، شوہر اور بیوی میں سے جس کے پاس بھی نصاب کے مطابق مال ہوگا، اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی اور اسے اپنے مال میں سے ادا کرنی ہوگی۔ ہاں ا لبتہ اگر شوہر بیوی کی طرف سے یا اولاد والدین کی طرف سے ان کی مرضی اور اجازت سے زکوٰۃ ادا کریں تو ادا ہوجائے گی۔

حولانِ حول (سال گزرنے)کا مفہوم
وجوبِ زکوٰۃ کے لئے ضروری ہے کہ مال پر سال گزر جائے، اسے فقہی اصطلاح میں ’’حولانِ حول‘‘ کہتے ہیں۔ شریعت کی رو سے جس دن کوئی بالغ مسلمان مرد یا عورت زندگی میں پہلی بار مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق کم از کم نصاب کا مالک ہوجائے تو اسلامی کیلنڈر کی اسی تاریخ سے وہ ’’صاحبِ نصاب‘‘ قرار پاتا ہے۔ لیکن اس پر اسی دن سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس نصاب پر اس کی ملکیت میں پورا ایک قمری سال گزر نہ جائے، تاہم یہ امر پیش نظر رہے کہ سال بھر کے دوران ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں کم از کم نصاب کا رہنا ضروری ہے، ہر مال پر (خواہ وہ نقد رقم ہو یا سونا چاندی کی صورت میں ہو یا صنعت و تجارت کا مال ہو) سال گزرنا زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے لازمی نہیں ہے، اگر مال کے ہر جز پر سال گزرنے کی شرط کو لازمی قرار دیا جائے تو تاجر حضرات کے لئے زکوٰۃ کا حساب نکالنا (Assessment) تقریباً ناممکن العمل ہوجائے، کیونکہ مال کی آمد و خرچ کا سلسلہ روز جاری رہتا ہے، بلکہ تنخواہ دار آدمی بھی ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ پس انداز کرتا ہے لہٰذا مال کے ہر حصے کی مدت الگ ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا تشریح کی روشنی میں زکوٰۃ کی تشخیص کی مقررہ تاریخ سے چند دن قبل بھی اگر مال، ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں آجائے تو اسے پہلے سے موجودہ مال میں شامل کرکے کل مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔(بحوالہ تفہیم المسائل:جلد۲،صفحہ۱۶۸،مفتی منیب الرحمٰن)

زکوٰۃ ایک خالص مالی عبادت ہے جو تمام انبیائے کرام اور رسلِ عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شریعتوں کا لازمی جز رہی ہے۔ زکوٰہ کی ادائیگی سے انسان میں صفات رذیلہ کا خاتمہ ہو تا ہے اورصفاتِ حسنہ پیدا ہوتی ہیں۔زکوٰۃ ادا کرنے والے کو اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان کے قلب وذہن کا تزکیہ (طہارت)ہوتا ہے۔

زکوٰۃکی فرضیت، وجوب اور اہمیت کے حوالے سے قرآنِ مجیدمیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقُۃٌ تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا۔ ﴾
ترجمہ:’’(اے رسولﷺ) آپ مومنوں کے مال سے صدقہ (زکوٰۃ) لیجئے تاکہ اس کے ذریعے آپ ان کے ظاہر و باطن کو پاک و صاف کریں‘‘۔ (توبہ:۱۰۳)

اسی طرح زکوٰۃ ادا کرنے والااپنے مال سے کسی نادار ومستحق اور حاجت مندپر احسان نہیں کرتا بلکہ وہ حقدار کو اس کا حق لوٹاتا ہے، جو مال و دولت عطا کرنے والے رب ِکریم نے اس کے مال میں شامل کر رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَفِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّـآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo ﴾
ترجمہ: ’’اور ان (مالداروں) کے مال میں سائل اور مال سے محروم لوگوں کا حق ہے‘‘۔
(سورۃالذاریات:۱۹)

گویا قرآن مجید کا پیغام یہ ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ حق تلفی کرنے والا، ظالم اور غاصب ہے، کیونکہ وہ نادار کے حق کو لوٹانے سے عملاً منکر ہے۔ اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مال ودولت صرف امراء کے ہاتھوں میں نہ رہے بلکہ معاشرہ کے افراد میں گردش کرتی رہے ،تا کہ معاشرہ ترقی واستحکام پائے اور تمام لوگ اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت سے فیض یاب ہوں۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ کَیْ لَا ےَکُوْنَ دُوْلَۃً بَےْنَ الْاَغْنِےَآء مِنْکُمْ۔﴾
ترجمہـ:’’تاکہ دولت تمھارے امیروں کے درمیان ہی نہ رہے‘‘۔(سورۃ الحشر: آیت۷)

اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال ودولت کی محبت مٹ جاتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کا جذبہ غالب آ جاتا ہے اور اس کے ذریعے غریبوں سے ہمدردی ہوجاتی ہے، اور دولت کے گردش میں آ نے سے معاشرے کے غریب اور نادارافراد کی مالی حالت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔

زکوٰۃکی اہمیت وفضیلت
زکوٰۃ اس لئے مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے کہ اس سے غریب و نادار مسلمانوں کی امداد ہوجاتی ہے اور زکوٰۃ و صدقات! سماجی فلاح و بہبود کا بہترین ذریعہ ہیں اور اس کے ذریعہ معاشرے کے مفلس و نادار لوگوں کی کفالت ہوجاتی ہے اور اس طرح معاشرے میں ہمدردی، قربانی و ایثار اور احترام و محبت کے پاکیزہ جذبات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کیلئے وعیدیں
زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کیلئے قرآن پاک نے بڑی سخت و عید سنائی ہے۔ جس کا اندازہ قرآن مجید کی ان آیات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَـبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْٰوٰی بِھَا جِبَاھُہُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُہُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَo
ترجمہ: ’’اور جو لوگ سونے اور چاندی کاذخیرہ رکھتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، تو (اے نبی ﷺ!) انہیں اس دن کے دردناک عذاب کی وعیدسنادیجئے، جب ان کے اپنے جمع کئے ہوئے مال کو دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھر اس سے ان کی پیشانیاں، ان کے پہلو اور ان کی پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گاکہ) یہ ہے اس مال کا انجام، جسے تم نے (بے پناہ چاہت)کے ساتھ جمع کیا تھا تو اب اس کا مزہ چکھو، جسے تم جمع کرتے تھے‘‘۔(سورۃ التوبہ: آیت نمبر34-35)
اس کے علاوہ سورۂ آل عمران میں ارشادِ ربانی ہے:
﴿ وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَیْرًالَّھُمْ
بَلْ ھُوْ شَرُّلَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔﴾
ترجمہ:’’اور جو لوگ اس مال میں، جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں عطا فرمایا ہے، بخل کرتے ہیں (اور اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے)، وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ ایسا مال ان کے حق میں خیر ہے بلکہ یہ ان کے لئے شر ہے اور عنقریب (قیامت کے دن) ان کے گلے میں بخل سے جمع کئے ہوئے مال کا طوق پہنایا جائے گا‘‘۔
(سورۃ آل عمران: آیت180)

علماء کرام فرماتے ہیں کہ واجب کا ادانہ کرنا بخل ہے اور یہاں بخل سے مراد زکوٰۃ ادا نہ کرنا ہے۔زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرناانسان کیلئے روزِ قیامت وبال جان بن جائے گا۔چنانچہ ایک حدیث میں رسو ل اﷲ ﷺنے ارشادفرمایاکہ:
ترجمہ: جس شخص کو اﷲ تعالیٰ نے مال دیااوراس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی تو وہ مال روزِ قیامت سانپ بن کراس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تمھارا مال ہوں،میں تمھارا خزانہ ہوں‘‘۔(صحیح بخاری)

اسی طرح زکوٰۃ کی عدم ادائیگی انسان کے مال ودولت کو برباد کردیتی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے:
﴿ عن عائشۃ قالت سمعت رسول اﷲ ﷺ: یقول،
ما خالطت الزکٰوۃ مالا قط الا اھلکتہ۔ ﴾
ترجمہ: ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ جس مال میں سے زکوٰہ نہ نکالی جائے اوراسی میں ملی جُلی رہے تو وہ اس مال کو تباہ کر دیتی ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الزکوٰۃ)

اﷲ کے انعام یافتہ بندے
اﷲتعالیٰ کی راہ میں ہمیں اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز خرچ کرنی چاہئے کہ اس سے اﷲ کی رضا اور خیرو بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ:
﴿ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّاتُحِبُّوْنَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَےْیٍٔ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌo ﴾
ترجمہ: ’’ جب تک تم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز خرچ نہیں کروگے تو خیروبھلائی (تقویٰ و پرہیز گاری) تم کو ہر گز نہیں پہنچ سکتے اور تم جو کچھ بھی (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو گے، اﷲ اس کوجاننے والا ہے‘‘۔(سورۃ آل عمران: آیت ۹۲)

حضور نبی کریمﷺ نے فرما یا کہ: ’’اﷲ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تا کہ وہ اﷲ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ اﷲ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے، اﷲ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوں سے نواز تا رہے گا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محرو م کر دیں گے تو اﷲ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فرما لیتا ہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطاء فر ما دیتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ )

قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کو تقویٰ وپرہیز گاری کا سبب بتا یا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰیo﴾
ترجمہ: ’’پھر جس نے (راہِ خدامیں اپنا)مال دیا اور(اس سے)ڈرتا رہا اور(جس نے) اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم آسان کر دیں گے اس کیلئے آسان راہ‘‘۔(سورۃ اللیل: آیت ۷۔۵)

ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے’’اتقٰی‘‘ سے پہلے ’’اعطٰی‘‘ ذکر فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں مال خرچ کرناجہاں تقویٰ وپرہیزگاری کا سبب ہے وہاں اس سے خیر و بھلائی اورنیکیوں کے مزیدراستے کھل جاتے ہیں اورہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سخاوت کے بغیر تمام اعمال ادھورے رہ جاتے ہیں، گویاسخاوت تمام اعمال خیرکو درجہ کمال تک پہنچانے کا سبب بھی ہے۔

Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 180859 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.