کیا دورہ تفسیر آیات الجہاد صرف عام مسلمانوں کے لیے ہے؟
کیا یہ دورات اُن مجاہدین کے لئے ہیں جو اپنی زندگی جہادی خدمات کے لیے وقف
کر چکے ہیں؟
کیا یہ دروات مسلمانوں کے اجتماعی فائدے کیلئے ہیں یا محض انفرادیت دکھانے
کے لئے ان کا سلسلہ شروع کیا گیا؟
صرف آیات جہاد ہی کی تفسیر کو پڑھانے اور ترجیح دینے کی وجہ ؟
یہ چند سوالات ہیں جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں آتے ہیں، اور انہی کی شکوک کی
وجہ سے وہ ان دورات میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کشمکش میں مبتلا
ہو کر اس عظیم علمی و جہادی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے حضرت امیر محترم مولانا محمد مسعود ازہر
حفظہ اﷲ تعالیٰ کو جنہوں نے ان سوالات کے بارے میں بھی نہایت تسلی بخش
وضاحت کردی ہے، یہ علمی خزانہ حضرت امیرمحترم حفظہ اﷲ کی تصنیف ’’تعلیم
الجہاد‘‘ کے آخر میں ضمیمہ کے طور پر شامل ہے جو اکثر لوگوں کی نظروں سے
اوجھل رہتا ہے اس لیے اس وقت جب کہ ان دورات کا ایک عظیم سلسلہ ملک بھر میں
اپنا نور بکھیر رہا ہے مناسب معلوم ہوا کہ یہ اہم سوالات وجواب قارئین کے
سامنے پیش کردیئے جائیں تاکہ ان دورات کے شرکاء کو ، شرکت کا ارادہ رکھنے
والوں کو اور ان دورات کی دعوت دینے اور ان کا انتظام کرنے والوں کو اس
حوالے سے شرح صدر حاصل ہوجائے۔
جہاد فی سبیل اﷲ کے موضوع پر سینکڑوں آیات کو پڑھ کر ایک مسلمان کو کیا
کرنا چاہئے؟
ان تمام آیات کو پڑھ کر ایک سچے مسلمان کو تین کام کرنے چاہئیں۔
(۱) اگر خدانخواستہ دل میں جہاد کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات ہوں تو ان سے
فوراً توبہ کرنی چاہئے کیونکہ یہ آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ جہاد ایک قطعی
فریضہ ہے اور فرض کا انکار کرنا کفرہے اسی طرح اگرکسی اور کام کو ابھی تک
جہاد فی سبیل اﷲ سمجھتے رہے اور اصل جہاد فی سبیل اﷲ یعنی قتال وغیرہ کو
دین کا حصہ نہیں سمجھتے تھے تو ان آیات کو پڑھ کر اپنی سابقہ گمراہی والی
سوچ پر استغفارکرنا چاہئے اور جہاد فی سبیل اﷲ اور قتال فی سبیل اﷲ کو دین
کا ایک فریضہ سمجھنا چاہئے اور اس سلسلے میں جو فضول شکوک دل میں ہوں ان کو
نکال دینا چاہئے اور انشاء اﷲ ان آیات کو پڑھ کر دل سے وہ تمام شکوک وشبہات
خود ہی دُھل جائیں گے جو کفار نے مسلمانوں کو جہاد سے دور رکھنے اور انہیں
اپنا غلام بنائے رکھنے کے لئے پھیلادیئے ہیں۔
(۲) ایک سچے مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ جب ان آیات کو پڑھے یاسنے تو پھر
حضرات صحابہ کرامؓ کی طرح اپنی جان ومال ہتھیلی پر رکھ کر میدان جہاد کی
طرف یوں دیوانہ وار نکلے جس طرح ایک بچہ ماں کی گود کی طرف لپکتاہے ۔ وہ ان
میدانوں کی طرف دوڑ پڑے جہاں اﷲ کی رضا اِس کااستقبال کرتی ہے اس کی جان
ومال کا خریدار خود اﷲتعالیٰ ہے اوروہ اس کی جان ومال کو جنت کے بدلے
خریدتا ہے اور جنت کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ جو اس سے محروم رہا وہ تباہ
وبرباد ہوگیا۔قرآن مجید کی یہ آیات پکار پکار کر مسلمانوں کو کہہ رہی ہیں
کہ اے اپنی اولاد اور مال کی خاطر جہاد سے منہ موڑنے والو! اے موت کے ڈر سے
گھروں میں چپک جانے والو! تم بڑی غلطی پر ہو یہ چیزیں جن کی خاطر تم جہاد
سے دور ہو تم سے عنقریب چھین لی جائیں گی اور جن چیزوں کی تمہیں حقیقت میں
ضرورت ہے وہ جہاد میں تمہیں مل سکتی ہیں اٹھواور دیر نہ کرواﷲ کی رضا سے
بڑی کوئی دولت نہیں شہادت سے بڑی کوئی لذت نہیں، جہاد سے بڑی کوئی عزت نہیں
اور جنت سے بڑی کوئی نعمت نہیں۔ جہاد میں تمہارا فائدہ ہی فائدہ ہے اور
جہاد چھوڑنے سے تمہیں سوائے ذلت اور بربادی کے اور کچھ نہیں ملے گا۔آج جب
مسلمانوں کے جہاد چھوڑنے کی وجہ سے پوری دنیا پر کافر اپنی حکومت کااعلان
کررہے ہیں اور جو بھی اﷲکی اس زمین پر اسلام کے نفاذ کا نام لیتاہے اسے
دنیا کا سب سے بڑا مجرم سمجھا جاتاہے آج جب کہ ہماری لاکھوں مربع میل زمین
کافروں کے قبضے میں ہے آج جب کہ ہزاروں مسلمان کافروں کی جیلوں میں سسک رہے
ہیں قرآن مجید کی یہ آیات ہم سب مسلمانوں کی زندگیوں پر ایک سوالیہ نشان
ہیں کاش !مسلمان انہیں سمجھیں اور کفر کی طاقت سے مرعوب ہونے کی بجائے اﷲ
کی عظمت وقوت پر نظر رکھ کر جہاد کے فریضے کو زندہ کریں تو انہیں معلوم
ہوجائے کہ خودکو دنیا کی سپرپاور کہنے والے مکڑی کے جالے جتنا مضبوط گھر
بھی نہیں رکھتے ۔
(۳) وہ مسلمان جنہیں جہاد میں جانا نصیب نہیں ہوا وہ ان آیات کو پڑھ کر
اپنی محرومی ، کم نصیبی، کم ہمتی پر خوب روئیں اور اس قدر روئیں کہ
اﷲتعالیٰ کی رحمت متوجہ ہو جائے اور وہ بھی جہاد کے کسی شعبے میں قبول
کرلئے جائیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مجاہدین کی خوب عزت واکرام
کریں اور ان کے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ سمجھیں اور انہیں رشک
کی نگاہوں سے دیکھیں اور اﷲتعالیٰ سے مسلسل دعاء کریں کہ وہ انہیں بھی جہاد
کے لئے قبول فرمائے لیکن اگرکوئی مسلمان نہ تو خود جہاد کرتاہے اورنہ جہاد
کی تیاری کرتاہے اور نہ اس کے دل میں جہاد کا شوق اورنہ اس کی نیت ہے اور
نہ وہ اپنی محرومی پر اﷲکے حضور روتا اور گڑگڑاتا ہے تو ایسے لوگوں کے لئے
دعاء ہی کی جاسکتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی حالت پر رحم فرمائے اور انہیں بھی
اس عظیم فریضے کی سمجھ عطاء فرمائے۔
جو مسلمان اﷲ کے فضل وکرم سے جہاد میں مشغول ہیں انہیں ان آیات کو پڑھ کر
کیاکرنا چاہئے؟
جو مسلمان جہاد کے عظیم عمل میں مشغول ہیں انہیں تو خاص طور پر ان آیات کو
بار بار پڑھتے رہنا چاہئے اور انہیں تین کام کرنے چاہئیں۔
(۱) وہ اﷲتعالیٰ کا شکر اداء کریں کہ اس نے محض اپنے فضل وکرم سے انہیں
اتنے عظیم عمل کی توفیق عطاء فرمائی اور دعا ء کریں کہ رب ذوالجلال انہیں
اس پر استقامت عطاء فرمائے۔ اور انہیں ہرگز تکبر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ
آیات بتلاتی ہیں کہ ان کا جہاد میں نکلنا اور دشمن کے سامنے بہادری سے لڑنا
خود ان کا کمال نہیں ہے بلکہ یہ اﷲتعالیٰ کا فضل اور اس کی نصرت ہے اس لئے
مجاہد کو پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنی ذات اور اپنے نفس پر نظر نہیں کرنی
چاہئے کیونکہ وہ دنیا بھر کے کفر کا تو درکنار اپنے نفس کی شرارتوں اور
شیطان کا بھی خود مقابلہ نہیں کرسکتا بلکہ اس کی نظر صرف اور صرف اﷲتعالیٰ
پر ہونی چاہئے کیونکہ اﷲ کی نصرت سے ہی وہ دنیا بھر کے کفر کا مقابلہ
کرسکتاہے اور جہاد کے مشکل عمل میں ڈٹا رہ سکتاہے جب مجاہد کی نظر اﷲ پر
ہوگی تو وہ کسی بھی مسلمان کو حقیر نہیں سمجھے گا۔
(۲) مجاہدین کو چاہئے کہ قرآن مجید کی ان آیات کو پڑھ کر اپنے آپ کو اور
اپنے جہاد کو قرآنی احکامات کے مطابق بنائیں۔ کیونکہ جہاد اﷲکاحکم ہے اور
اسے ادا بھی اﷲ کے احکامات کی روشنی میں کیا جاسکتاہے۔
(۳) اگر قرآن مجید کی یہ آیات پڑھ کر مجاہدین کو احساس ہو کہ انہوں نے بعض
قرآنی احکامات پر ابھی تک دانستہ یا غیر دانستہ طور پر عمل نہیں کیا تو
فوراً استغفار کریں اور آئندہ ان احکامات پر پوری پابندی سے عمل کریں ۔
اپنی ماضی کی غلطیوں سے دل برداشتہ ہوکر جہاد کو نہ چھوڑبیٹھیں بلکہ ایک
نئے عزم اور نئے ولولے کے ساتھ قرآن مجید کے احکامات کی روشنی میں جہاد کے
مبارک عمل کو جاری رکھیں۔
٭……٭……٭ |