طالبان سے مذاکرات

بل آخر طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھول لیا ،یہ ایک خوش آئند بات ہے جس سے طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا اور یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں اس خطے میں امن قائم ہو جائے گا ،لیکن پاکستانی قوم عجیب وسوسوں کا شکار نظر آرہی ہے کہ ایک طرف امریکہ ،پاکستان کی مدد سے طالبان کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف خود طالبان سے مذاکرات کی ٹیبل پر جا بیٹھا ہے یہ کیا تضاد ہے؟

قارئین ! سب سے پہلے تو آپ کو طالبان کے بارے بتا دوں یہ طالبان ہیں کون؟ اور کہاں سے آئے ہیں؟ طالبان کب اسٹیبلیش ہوئے؟طالبان کے معنی کیا ہیں؟ یہ چاہتے کیا ہیں؟ان کی بنیاد کب رکھی گئی؟ اس طرح کے کئی دیگر سوالات ہیں جو کہ ہر کسی کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں ،طالبان کے بارے کافی لکھا جا چکا ہے لیکن میری کوشش ہے کہ جو صحیح حقائق ہیں وہ آپ کو بتاؤں۔

طالبان عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہے تلاش کرنے والے لوگ،اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ یہ کس کی تلاش میں ہیں جب اس بارے ان سے پوچھا جائے تو ان کا جواب ہوتا ہے ہم حق کی تلاش میں ہیں ،یہ طالبان کون ہیں ،کہاں سے آئے اور کب اسٹیبلیش ہوئے ،رہا ان سوالات کہ جواب تو میں آپ کو بتاتا ہوں جب روس اتحادی افواج کی مدد سے افغانستان پر قبضہ جمارہا تھا اور کمیونسٹ نظام رائج کرنے کی کوششیں جاری تھیں اس وقت امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور اس وقت کے پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر جناب ضیا ء الحق نے جہاد کا نعرہ بلند کیا، ڈالر اور اسلحہ امریکہ نے فراہم کیا تعاون پاکستان نے کیا اور آخر کار افغانیوں نے اس وقت کی سپر پاور روس کو شکست دی اور سوویت یونین کو پارہ پارہ کر دیا ،سوویت یونین کی شکست کے بعد ایک افغان حکومت کا قیام عمل میں آیا جسے ہم طالبان حکومت کہتے ہیں اس وقت کے افغانی حکومت نے زبر دستی شریعت کو نافذ کر دیا ان کا یہ تجربہ کافی حد تک کامیاب رہا ،اور افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار امن و امان کی فضا دیکھنے میں آئی اس وقت افغانی حکومت (طالبان )اسلامی دنیا میں کافی مقبولیت حاصل کر چکے تھے طالبان نے افغانستان کی حکومت سنبھالنے کے بعد پوست اور دیگر غیر قانونی کاموں کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا اس وقت باہر کی غیر اسلامی ممالک ان کے دشمن ہو گئے جب طالبان نے وہاں پر کئی یادگار بتوں کو گرا دیا اور اسلامی دنیا میں ایک بار پھر بُت شکن کے نام سے پہنچانے جانے لگے ، اس وقت اسلامی ممالک کی فضا میں یہ نعرہ گونجنے لگا۔
آ چکے ہیں طالبان چھا چکے ہیں طالبان

اب سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا اور نئی سپر پاور امریکہ بن چکا تھا ،افغانستان میں طالبان کی حکومت امریکہ کی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی ایٹم بم کا تجربہ کر کے دنیا پر ثابت کر دیا تھا کہ پاکستان دفاعی اعتبار سے کمزور نہیں ہے اس وقت سے افغانستان میں طالبان کی حکومت اور ایٹمی پاکستان امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکنے لگ گئے اب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت سے غیر مسلح کرنے کے لئے ایک منصوبہ بنایا اور ایک نئی چال چلی جسے دنیا 9/11کے نام سے جانتی ہے ۔

امریکہ نے 9/11کے بعد پاکستان کو ڈرا ،دھمکا اور لالچ کے ذریعے دہشت گردی کی جنگ میں اپنا اتحادی بنا لیا ،پاکستان نے افغانستان پر حملوں کے لیے امریکہ کو اپنے فضائی اڈّے استعمال کرنے دئیے اسی بہانے وہ پاکستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا جنگ کے بعد امریکہ نے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی لیکن ابھی تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکا۔

دوسری طرف امریکہ نے ہی پاکستان میں ایک اور دہشت گرد ٹولے کی بنیاد رکھی جسے لوگ پاکستانی تحریک طالبان کہتے ہیں ،اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں زیادہ تراسی تنظیم کا ہاتھ ہوتا ہے ،لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی طالبان اور افغانی طالبان دو علیحدہ تنظیمیں ہیں ،دونوں کا منشور بھی ایک دوسرے کے متضاد ہے ،تحریک طالبان افغانستان کے منشور میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عوامی جگہوں پر حملے نہیں کرنے چاہئے ،خواتین اور بچوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے جبکہ تحریک طالبان پاکستان اس کے متضاد ہے یہ کہنا غلط ثابت نہیں ہوگا کہ پاکستانی طالبان دہشت گردوں کا ٹولہ ہیں جبکہ افغانی طالبان انتہا پسند مسلمانوں کا گروہ ہے اور یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی طالبانی تیس سے زائد گروہوں میں تقسیم ہے جن کا منشور ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔

کچھ دن قبل افغانی طالبان اور پاکستانی طالبان نے ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھا لئے تھے جس میں تحریک طالبان افغانستان نے دوپاکستانی گروپوں کی معاونت بھی حاصل تھی جس میں ایک کانام انصار الاسلام تھا۔
قارئین!مندرجہ بالا تفصیل سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کون سے طالبان پاکستان کے اور خطے کے امن کے خلاف ہیں اب جن طالبان سے مذاکرات شروع ہونے لگے ہیں وہ تحریک طالبان افغانستان ہیں جس کے امیر ملا عمر ہیں،مذاکرات کے نتیجے میں یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگلی افغان حکومت طالبان کی ہوگی جس سے خطے میں امن و امان قائم ہو جائے گا۔
 
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201624 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.