بدلتا ہوا سیاسی منظرنامہ اور مسلمان

ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامہ میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کا کیا مقام و مرتبہ اور کردار ہوگا؟ یہ سوال ہر پارلیمانی انتخاب سے پہلے بڑی اہمیت رکھتا ہے لیکن اس بار اڈوانی اور مودی کے تنازع اور نتیش کمار کی این ڈی اے سے علاحدگی کے تناظر میں سارا منظر نامہ بدلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ این ڈی اے میں کبھی چند سیکولر (مشتبہ و مشکوک سہی) جماعتیں بھی ہوا کرتی تھیں لیکن جنتادل (یو) کی این ڈی اے سے علاحدگی کے بعد این ڈی اے میں بی جے پی کے علاوہ دو اہم علاقائی جماعتیں شیوسینا اور اکالی دل رہ گئیں ہیں جو فرقہ پرست ہیں اور اگر پروگرام کے مطابق نریندر مودی این ڈی اے کی انتخابی مہم کی قیادت کرتے ہیں تو 2014ء میں (یا اس سے قبل) ہونے والے انتخابات نہ صرف حقیقت میں بلکہ علی الاعلان فرقہ واریت اور سیکولرازم کے درمیان ہوں گے اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ فرقہ پرست انتخابات میں کامیاب رہتے ہیں تو وہ مک کو ہندوراشٹر نہ سہی ہندوراشٹرا جیسا ضرور بنادیں گے (کیونکہ دستور میں ترمیم ممکن نہ ہوگی کہ فرقہ پرست دستور میں ترمیم کے لئے درکار اکثریت حاصل نہ کرسکیں گے۔ جس طرح خود کو سیکولر کہنے والی نتیش کمار کی حکومت نے بہار کے اسکولوں میں ’’سوریہ نمسکار‘‘ کا نفاذ کیا اور بھی کچھ دستور میں ترمیم کے بغیر بھی ممکن ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی میں نریندر مودی کا اثر و رسوخ جس قدر بڑھے گا فرقہ پرستی اسی قدر بڑھے گی تاہم خود کو سیکولر کہنے والے (یو پی اے) کی کامیابی کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ کامیابی یا فتح تو سیکولر عناصر و جماعتوں کی ہوگی لیکن سیکولرازم کے نام پر کامیاب ہونے والی جماعتیں مسلمانوں کو کیا دیں گی؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ سیکولر جماعتوں سے ہماری مراد صرف یو پی اے میں شامل جماعتیں نہیں ہیں بلکہ ہم نے غیر بی جے پی و غیر کانگریسی جماعتوں پر مشتمل تیسرے مورچہ کے قیام کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور اگر تیسر ا مورچہ قائم نہ بھی ہوسکے تو مغربی بنگال، بہار اڑیسہ، اترپردیش، آندھراپردیش ، کرناٹک اور ٹاملناڈو میں بھی سیکولر جماعتیں ہیں جن کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے کئی سیکولر جماعتیں اور قائدین اقتدار کی خاطر کسی کے بھی ساتھ ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹس سے کامیابی حاصل کرنے والی جماعتیں اقتدار کی خاطر بی جے پی کے این ڈی اے کا ساتھ دینے سے گریز نہیں کریں گی۔ ماضی میں ممتابنرجی، مایاوتی، چندرابابو نائیڈو، جیہ للیتا، چدمبرم جنہوں نے ان دنوں کانگریس سے الگ ہوکر ٹامل منیلا کانگریس بنارکھی تھی اور رام ولاس پاسوان وغیرہ این ڈے اے میں رہ چکے ہیں۔ پاسوان واحد قائد ہیں جو گجرات کے قتل عام 2002ء کے بعد این ڈی اے سے الگ ہوئے تھے تمام ووٹرس خاص طور پر مسلمانوں کو علاقائی جماعتوں سے اس تعلق سے واضح تیقن حاصل کرنا ضروری ہے۔

مودی اڈوانی اور نتیش کمار سے وابستہ واقعات سے قبل کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے کو اندازہ ہوگیا تھا بی جے پی سے دور رہنے والے مسلمان کانگریس سے بے حد مایوس اور دلبرداشتہ ہیں۔ حدتک تو یہ ہے کہ آندھراپردیش، مہاراشٹرا اور آسام کی ریاستوں میں (جہاں کانگریس برسراقتدار ہے) بھی مسلمانوں کو کانگریس سے شکایات ہیں۔ آسام میں تو بھیانک فسادات ہوئے۔ آندھراپردیش کے صڈر مقام حیدرآباد کی تاریخی عمارت چارمینار سے متصل غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے مندر کی توسیع کے سلسلے میں کانگریس کے وزیر اعلیٰ کرن کمارریڈی نے وہی طریقہ اختیار کیا جو کلیان سنگھ نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد اسی جگہ رام مندر بنانے کے لئے اختیار کیا تھا۔ آندھرا اور مہاراشٹرا میں دہشت گردی کے بہانے مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف شرم ناک بلکہ غیر انسانی سلوک کیا بلکہ یہ اب بھی جاری ہے۔ مسلمانوں کو اور بھی کئی سنگین مسائل سے دوچار کیا گیا۔ ریزرویشن، سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کے چرچے تو بہت ہوئے لیکن ہوا کچھ نہیں۔ لیکن اب جب کہ انتخابات قریب آرہے ہیں مرکزی وریاستی حکومتیں مسلمانوں کے دل جیت کر ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے مختلف پرکشش منصوبوں و اسکیموں کا اعلان کرنے کے ساتھ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ان کی منظوری بھی حاصل کی جارہی ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہماری حکومتوں کے اعلانات میں ہمیشہ مستقبل کی باتیں ہوتی ہیں۔ ماضی کے تعلق سے کوئی بات نہیں ہوتی مثلا تحفظات کے سلسلے میں عدلات عظمیٰ کو راضی کرلیا جائے گا۔ اس قسم کی باتیں کہ اقلیتوں کے لئے 4میڈیکل کالج قائم کئے گئے تھے۔ شاذ و نادر ہی سننے میں آٹی ہیں۔ حکومتوں اور سیاستی جماعتوں و قائدین کے وعدے تو اردو شاعروں کے محبوب کے وعدوں سے بھی ناقابل بھروسہ ہوتے ہیں اور اگر بات مسلمانوں کی ہوتو کیا مرکزی کیا ریاستی یا کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو وہ مسلمانوں سے کئے گئے وعدے کو پورا کرنے میں قطعی سنجیدہ یا مستعد نہیں ہوتی ہے ۔

بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ کی عاجلانہ سماعت کے لئے مرکزی حکومت عدالت عظمیٰ سے کم از کم درخواست تو کرسکتی ہے۔ اسی طرح بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار مجرموں کو سزا دلانے اور ممبئی کے 1993ء کے فسادات اور سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عمل کرکے حکومت مسلمانوں کے دل جیت سکتی ہے۔ اب جبکہ ممبئی میں ہوئی 1993ء کے سلسلہ وار دھماکوں کے مجرموں کو دی گئی سزا کی سپریم کورٹ نے توثیق بھی کردی ہے۔ اس سے قبل ہوئے جرائم کے مقدمات کا زیر دوران رہان عدل و انصاف کا خون کرنا ہے۔ اسی بٹلہ ہاوس اور عقیل صدیقی اور مولانا خالد مجاہد کی شہادت کی تحقیقات فوری ضروری ہے۔

مسلمانوں کے قلب میں گھونپا گیا ایک خنجر یہ بھی ہے کہ ملک بھر کی نہ صرف جیلوں بلکہ پولیس اور ایجنسیوں کے عقوبت خانوں میں بغیر مقدمہ چلائے یا ان کے خلاف چلائے جانے والے مقدمات کو تاخیری چرلوں سے طول دے کر اور بعض صورتوں میں بغیر ایف آئی آر کے قید میں رکھا جارہا ہے ایسے مظلوم و بے قصور قیدیوں کی تعداد صحیح صحیح پیش کرنا ممکن نہیں تاہم ہزاروں میں نہ سہی سینکڑوں میں ضرور ہوگی ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے اس مسئلہ کا واحد حل نمیش کمیشن کی سفارشات پر فوری عمل درآمد ہے گوکہ یہ رپورٹ اترپردیش سے متعلق ہے۔ تاہم ا س کی سفارشات کا نفاذ سارے ملک میں کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا سفارشات اور تجاویز پر عمل تو بہر حال ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس قسم کی غیر ذمہ دار حرکتوں کا روکا جانا ضروری ہے۔ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ اور بی جے پی کا حامی میڈیا یہ کہتا ہے کہ اس قسم کی باتیں صرف گجرات میں ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان میں ہورہی ہیں۔

مسلمانوں کی کوئی ایسی سیاسی یا مذہبی تنظیم نہیں ہے جس کو کل ہند کہا جاسکے اور جو ملک بھر کے مسلمانوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرکے حکومت یا سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرسکے اگر جمعیۃ العلماء ہند متحد ہوتی تو وہ اور جماعت اسلامی مل کر یہ فرض ادا کرسکتی تھیں لیکن جمعیۃ دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے ۔ جماعت اسلام ایک سیاسی جماعت ویلفیر پارٹی بناکر اس احترام و اعتبار سے محروم ہوگئی ہے جو اس کو ایک خالص مذہبی جماعت کی حیثیت سے حاصل ہے وہ لاکھ کہے کہ ویلفیر پارٹی جماعت اسلامی کا سیاسی بازو نہیں ہے لیکن وہ حقیقت نہیں بدل سکتی ہے ملک بھر کے مسلمانوں کی نمائندگی کا مسئلہ خاصہ اہم اور سنگین ہے اس تعلق سے راقم الحروف حال ہی میں تفصیلات رقم کرچکا ہے تاہم صرف یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہی ہمارے کام آسکتا ہے۔

این ڈی اے سے نتیش کی علاحدگی کی وجہ سے بہار کے علاوہ مسلمان ووٹرس پر کوئی اثرکہیں نہیں پڑے گا۔ بہار میں نتیش کمار اور ان کے ہم نوا اور زر خرید میڈیا ضرور اس بات کی تشہیر کرے گا کہ مودی کی مخالفت میں یا الفاظ دیگر مسلمانوں کی ہمدر دی میں وہ این ڈی اے سے الگ ہوئے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ این ڈی اے میں رہتے ہوئے یا مودی کی وجہ سے ان کا وزیر اعظم بننا ناممکن تھا۔ اس لئے وہ کہیں اور اپنی قسمت آزمانے اور مسلمانوں کے ووٹس جو ایک بار پھر لالوپرساد یا دو کے حق میں جاتے دیکھ کر اس کا توڑ کرنے کے لئے یہ داؤ چلاہے۔

مودی کو بی جے پی نے آگے بڑھاکر اپنی کامیابی کے امکانات بہت کم کرلئے ہیں اور کانگریس کو زبردست فائدہ پہنچایا ہے کیونکہ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم ووٹرس کی بھاری تعداد بی بی جے پی سے دور ہوجائے گی بلکہ وہ ووٹروں جو کانگریس کی ناکامی، نااہلی اور کرپشن سے عاجز آکر بی جے پی کو بہ حیثیت متبادل قبول کرسکتے تھے لیکن وہ محض مودی کی وجہ سے بی جے پی کو نظر انداز کریں گے اور مجبوراً کانگریس کو قبول کریں گے کیونکہ دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے لیکن متبادل تیسرے مورچہ کی صورت میں مل سکتا ہے لیکن تیسرے مورچہ کا قیام بھی آسان نہیں ہے۔ بعض ریاستوں میں ایسی علاقائی جماعتیں ہیں جن میں اتحاد تقریباً ناممکن ہے۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور کمیونسٹ محاذ، بہار میں نتیش کمار اور لالوپرساد یادو، ٹاملناڈو میں حریف ڈی ایم کے جماعتوں اور یو پی میں مایاوتی اور ملائم سنگھ کی پارٹیوں کے درمیان اتحاد ممکن نہیں اب اگر ان میں سے کوئی ایک تیسرے مورچہ میں شریک ہوتا ہے تو دوسرا کانگریس یا بی جے پی کا ساتھ دے سکتا ہے۔ نتیش کمار دوبارہ بی جے پی کے ساتھ ہوسکتے ہیں جیہ للیتا اور مایاوتی کا این ڈی اے میں شامل ہونا ممکن ہے تاہم ممتابنرجی اور چندرا بابو نائیڈو وغیرہ کا این ڈی اے کا رخ کرنا ناممکن ہے۔ ان حالات میں تیسرا مورچہ نہ بھی قاہم ہوتو مرکز میں بادشاہ گری علاقائی جماعتوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس لئے مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی مضبوط سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیں جو کسی حال میں این ڈی اے میں شامل نہ ہوں ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس یو پی میں مایاوتی اور بہار میں نتیش کمار کبھی بھی اپنا موقف بدل سکتے ہیں۔ خود ہمار، ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت اور صحافت کا فرض ہے کہ وہ کانگریس کی یہ غلط فہمی دور کردیں کہ مسلمانوں کو کانگریس کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی باتیں آزادی کے بعد سے آج تک بھی کانگریسی مسلمان قائدین کرتے رہے ہیں۔ ان کے ایسے قول و فعل محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر رہے ہیں اس قسم کے کانگریسی مسلمان جو کانگریس کی کاسہ لیسی کرتے ہوں مسلمانوں کے ووٹس کے ہر گز مستحق نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے ہی کانگریس مسلمانوں کے لئے بی جے پی جیسی یا اس سے بھی بدتر رہی ہے۔ سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ کر فرقہ پرستی کرنے والوں اور مفاد پرست مسلم قائدین کو شکست دینے کے لئے مسلمانوں کو ہرقدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا جو مودی جیسی بڑی عفریت یا کئی چھوٹی عفریتوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.