وزیراعظم میاں نوازشریف نے پیر کے روز قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے
ہوئے فوجی آمر پرویزمشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے
کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کے خطاب کے بعد حسب توقع اپوزیشن جماعتوں نے
آئین وقانون کی بالادستی کے لیے حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی،
گویا پورا ایوان مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے پر متفق تھا، ایوان بالا یعنی
سینیٹ پہلے ہی سابق صدر پر مقدمہ چلانے کی قرارداد منظور کرچکی ہے۔
وزیراعظم کے اعلان سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، کیونکہ لوگ ایک
عرصہ سے احتساب، احتساب کے نعرے لگارہے ہیں لیکن نادیدہ قوتیں مشرف کے
احتساب کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہیں۔ حکومتی اعلان سامنے آنے کے بعد اب
عوام کو امید ہوچلی ہے کہ آئین شکن، طلبہ وطالبات کے خون سے ہاتھ رنگنے
والا، بگٹی کے قتل کا نامزد ملزم اور ملک کو امریکا کی چراگاہ بنانے والا
اپنے قانونی انجام کو پہنچنے والا ہے۔ امیدیں اور خواہشات اپنی جگہ، ہمیں
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مشرف کے احتساب کا معاملہ اتنا سادہ
نہیں جتنا اسے سمجھا یا ظاہر کیا جارہا ہے۔
پرویزمشرف پر دو بار آئین توڑنے کا الزام ہے، 12اکتوبر 1999ء کو انہوں نے
نوازشریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا، اس مقصد کے لیے انہوں نے آئین
کی کئی دفعات کو معطل کردیا تھا۔ دوسری بار 3نومبر 2007ء کو آئین سے
چھیڑخانی کی، اس بار انہوں نے آئین کو معطل کرکے ملک میں ایمرجنسی نما
مارشل لاء لگادیا اور ججوں کو معزول کردیا، جن ججوں نے فیصلہ تسلیم کرنے سے
انکار کرتے ہوئے مزاحمت کی انہیں گھروں میں بند کردیا گیا تھا۔ میاں صاحب
نے بھی اپنے خطاب میں مشرف پر 2بار آئین توڑنے کا الزام دہراتے ہوئے اسے
غداری قرار دیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے، مشرف کی 12اکتوبر کی آئین شکنی کو اس
وقت کی عدلیہ قانونی قرار دے چکی ہے جبکہ پارلیمنٹ نے بھی مشرف کے اس اقدام
کی توثیق کی تھی۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ کی جانب سے قانونی سند ملنے کے بعد
مشرف کے ٹیک اوور کو کس طرح غیرقانونی قرار دیا جاسکتا ہے؟ البتہ 3نومبر کا
معاملہ بالکل مختلف ہے، مشرف کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی کی عدلیہ نے
تایید کی اور نہ ہی پارلیمنٹ نے اس اقدام کی توثیق کی، حالانکہ ان دونوں
اداروں پر شدید دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اس لیے مشرف کی یہ آئین شکنی آج تک
قانونی سند سے محروم ہے۔ ماہرین کے مطابق فوجی آمر کے خلاف غداری کا مقدمہ
3نومبر کے اقدام کی بنیاد پر ہی قائم کیا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے
ایک بار پھر ماضی کے ڈکٹیٹروں کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کا مطالبہ سامنے آیا
ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی پیچیدگی ہے، ضیاء الحق ہوں یا ان کے پہلے کے
فوجی آمر، ان کے اقدامات کی عدلیہ اور پارلیمنٹ توثیق کرتی رہی ہے۔ اس لیے
ان آمروں پر علامتی مقدمہ چلانا بھی خاصا مشکل کام ہوگا۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ صرف مشرف نہیں، ان کے
تمام ساتھیوں پر بھی مقدمہ چلنا چاہیے، یہ مطالبہ دیکھنے میں جتنا خوبصورت
نظر آرہا ہے اندر سے اتنا ہی گھناؤنا ہے۔ دراصل یہ مطالبہ مشرف کو بچانے کے
منصوبے کا حصہ ہے۔ اگر ساتھیوں کی بنیاد پر مقدمہ چلایا گیا تو یہ شیطان کی
آنت کی طرح لمبا ہوتا جائے گا۔ ایک، دو نہیں، سینکڑوں لوگوں پر مقدمہ چلانا
پڑے گا، جو کسی صورت ممکن نہیں ہے، نتیجتاً مرکزی ملزم کی بھی جان چھوٹ
جائے گی۔ آپ ذرا تصور کریں3نومبر کے مقدمے میں کس کس کو شامل کیا جاسکتا ہے،
مشرف تو مرکزی ملزم ہوئے، مشورہ دینے واے جن کی تعداد درجنوں میں ہوسکتی ہے،
وزیراعظم، وزراء، فوجی افسران، مشرف کے حکم کو تحریر کرنے اور ٹائپ کرنے
والے، ججوں کو نظر بند کرنے کا حکم دینے والے مجسٹریٹ، عملدرآمد کرنے والے
پولیس افسران اور اہلکار، یہ سب لوگ ملزمان کی فہرست میں شامل ہوں گے۔ یہ
سارے لوگ مل ملاکر چار، پانچ سو بن جاتے ہیں۔ اتنے لوگوں کو غداری کی سزا
دینا ناممکن ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی اس معاملے کو دیکھتے ہیں، پی پی کہتی
ہے چلو ضیا ء الحق تو نہیں رہے ان کے وہ ساتھی جو زندہ ہیں ان پر ہی مقدمہ
چلاؤ، ضیاء کے ساتھیوں میں سب سے بڑا نام نوازشریف کا لیا جاتا ہے، سب
جانتے ہیں ضیاء الحق انہیں لوہے کے کارخانے سے اٹھاکر پنجاب کی وزارت اعلیٰ
تک لے آئے تھے۔ بعد میں میاں صاحب جس طرح وزیراعظم بنے، اصغرخان کیس میں وہ
راز بھی کھل چکا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ کے جتنے دھڑے ہیں، ان سب پر ضیاء
آمریت کی پیداوار کاالزام ہے۔ پی پی کے کئی نامی گرامی رہنماؤں نے جیسے
یوسف رضاگیلانی ہیں، ضیاء دور میں ہی آنکھ کھولی تھی۔ موجودہ پارلیمنٹ بھی
ضیاء کے ساتھیوں سے بھری ہوئی ہے، تو کیا اب ان سب کو پی پی کے مطالبے پر
ہتھکڑیاں پہنادی جائیں۔
کل کو کوئی یہ بھی مطالبہ کرسکتا ہے کہ ایوب خان کے ساتھیوں کو کٹہرے میں
لایا جائے، سیاسی کارکنوں کو علم ہے کہ ایوب خان کی سب سے بڑی سیاسی دریافت
ذوالفقارعلی بھٹو تھے۔ یہ بات مشہور ہے کہ بھٹو، ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر
مخاطب کیا کرتے تھے۔ دوسری بات، یہ بھٹو ہی تھے جو ملک کے پہلے سول مارشل
لاء ایڈمنسٹریٹر بنے، کیا جیالے بھٹو کی قبر کا ٹرائل کرانا چاہیں گے؟ ہمیں
معاملات کو گھن چکر بنانے کی بجائے سیدھی سیدھی بات کرنی چاہیے، ہمیں یہ طے
کرنا ہوگا کہ فوجی آمروں کا احتساب کہاں سے شروع کیا جائے۔ اس حوالے سے
شجاعت فارمولا بہترین ثابت ہوسکتا ہے۔ ماضی کے آمروں پر مٹی پاکر جو آمر
دستیاب ہے اسے ہی کٹہرے میں کھڑاکردیا جائے، ساتھیوں کے جھمیلے میں نہیں
پڑنا چاہیے، مرکزی ملزم پر آئینی سزا نافذ کردی جائے تو آیندہ کے لیے سب
لوگ توبہ کرلیں گے۔
یہ بات لکھتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے لیکن کیا کریں، ہمارے سیاسی کلچر میں
سب کچھ چلتا ہے۔ کہیں حکومت کی جانب سے مشرف کے ٹرائل کا اعلان عوام کی
توجہ اِدھر اُدھر کرنے کی کوئی کوشش تو نہیں ہے۔ عوام نے بڑی امیدوں سے
میاں صاحب کو ووٹ دیے تھے، مگر پہلا ہی بجٹ ان پر بم بن کر گرا، مہنگائی تو
پہلے ہی کیا کم تھی، بجٹ نے تو عام استعمال کی اشیاء کو گویا پر ہی لگادیے۔
پورے ملک میں ہائے ہائے مچی ہوئی ہے، لوگ حکومت کو کوس رہے ہیں۔ پی پی
حکومت اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پانچ سال میں جہاں پہنچی تھی، لیگی
حکومت ایک ماہ میں ہی وہاں تک پہنچ گئی ہے۔ شاید ہی کسی حکومت کی مقبولیت
کا گراف اتنی تیزی سے گرا ہو جتنا میاں صاحب کا گرا ہے۔ اب دو دن سے میڈیا
مہنگائی اور بجٹ کو چھوڑچھاڑکر مشرف کو لے بیٹھا ہے، ہر ٹاک شو کا یہی
موضوع ہے۔ عوامی تھڑوں کا بھی ہاٹ ایشواب مہنگائی کی بجائے مشرف کا احتساب
ہے۔ کیا حکومت صرف یہی چاہتی تھی؟ یا وہ واقعتا مشرف کے احتساب میں سنجیدہ
ہے، بس چند دن انتظار…… |