امریکہ کے واحد سپر پاور بننے کے بعد
بالعموم اور 9/11 کے بعد بالخصوص پوری دنیا میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ
کیا جا رہا ہے۔ دن بدن ان کی کمبختی میں اضافہ ہورہا ہے اور آنے والا ہر
لمحہ ان کی بربادی کا پیغام لا رہا ہے۔ مسلم امہ کے خلاف یہود وہنود اور
یہود کے بغل بچے امریکہ کی شکل میں اکٹھے ہوچکے ہیں جبکہ دوسری طرف مسلمان
نہ صرف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں بلکہ ایک فرقے میں بھی آپس میں اتحاد و
یگانگت کی فضاء باقی نہیں بچی، ایک مکتبہ فکر کی بھی بیسیوں جماعتیں ہیں جو
آپس میں ہی برسر پیکار ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت امریکہ کے ہاتھوں میں
کھیل رہی ہے اور اپنے ہی ہم مذہب اور ہم وطن لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح
ذبح کر کے امریکی بھوک مٹائی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا
از سر نو آغاز تو یہودیوں کے ایجنٹ بش دوم نے 9/11 کے فوراً بعد کر دیا تھا،
حالانکہ امریکی اخبارات و جرائد اور دانشور بھی یہ کہتے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ
سنٹر کی تباہی ایک سوچی سمجھی امریکی سازش تھی لیکن اس کا بدلہ نہتے
مسلمانوں سے لیا جا رہا ہے۔ یہ سوالات بہت اہم ہیں کہ جس دن ورلڈ ٹریڈ سنٹر
پر جہازوں نے حملہ کیا تھا اس دن وہاں پر کام کرنے والے اکثر یہودی اپنے
دفاتر میں کیوں نہیں آئے تھے اور بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے ورلڈ ٹریڈ
سینٹر کی تباہی کا الزام اسامہ بن لادن اور القائدہ پر کیوں لگا دیا گیا
تھا؟ القائدہ کو وحشت کی علامت کیوں بنا دیا گیا؟ وہی طالبان جن کو امریکی
اور پاکستانی ایجنسیوں نے وجود عطا کیا، ایک ہی لمحے میں دہشت گرد کیسے بن
گئے اور معتوب کیوں ٹھہرے؟ عراقی صدر صدام جو امریکہ کا ایجنٹ تھا اور جس
نے امریکی حکم کی پاسداری میں بغیر کسی وجہ کے ایک عشرہ ایران سے جنگ کی وہ
یکدم ہی ہیرو سے ولن کیسے ہوگیا؟ عراق میں تلاشی کے باوجود کسی قسم کے
کیمیکل ہتھیار نہ ملے لیکن پھر بھی عراق کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجا دی گئی؟
بےنظیر بھٹو کو اسامہ کے مرنے کی اطلاع فاش کرنے کے جرم میں دن دیہاڑے قتل
کیوں کردیا گیا؟
اس وقت پاکستان میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اس
پروگرام کو شروع کرنے والا اور پایہ تکمیل تک پہنچانے والا، پوری قوم کا
ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیوں امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان کو خار کی طرح
کھٹکتا ہے؟ اسی لئے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر
کی راہ میں تنہا رکاوٹ رہ گیا ہے۔ سوات سے شروع ہونے والا آپریشن اب آہستہ
آہستہ اپنے ہاتھ پاﺅں پھیلاتا ہوا دوسرے علاقوں کی طرف رواں دواں ہے! دنیا
کی سب سے بڑی ہجرت ہورہی ہے اور اب تک تیس لاکھ سے زائد مسلمان اپنے ہی ملک
میں بے گھر اور مہاجر بن چکے ہیں۔ وہ ہاتھ جو لاکھوں کروڑوں روپے صدقات و
عطیات دیا کرتے تھے، اب ایک وقت کے کھانے کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ وہ
خواتین جن کو آج تک آسمان نے بھی نہیں دیکھا تھا، آج ننگے سر، بغیر چھت کے،
کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ بچے جن کی ایک فرمائش پر دنیا جہان کی ہر
آسائش حاضر ہوجایا کرتی تھی آج ایک بوتل دودھ کے لئے، روٹی کے ایک نوالے کے
لئے اور پانی کے ایک گھونٹ کے لئے ترس رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ سارے ظلم،
ساری وحشت مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی جارہی ہے؟ اس وقت دنیا میں جہاں جہاں
ظلم و وحشت کا بازار گرم ہے اس کا نشانہ اور شکار مسلمان کیوں ہیں؟ کیوں چن
چن کر اور تاک تاک کر مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے؟ اگر شمالی
کوریا ایٹمی پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہو تو امریکہ کی آنکھیں بند رہتی
ہیں، لیکن اگر کوئی مسلم ملک یہ ”حرکت“ کرے تو دھمکیاں اور پابندیاں،
بالآخر جنگ! ایسا کیوں ہے؟
اگر تمام سوالوں کے جوابات حاصل کرنے ہوں تو ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی
طور پر اپنے گریبانوں میں جھانکنا پڑے گا! ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کہ
کیا ہم اللہ کی نافرمانی تو نہیں کررہے؟ اللہ نے تو کسی بھی غیر سے مدد
مانگنے کو حرام کہا ہے، ہم اغیار کے دروں پر سجدے تو نہیں کررہے؟ اللہ نے
تو سود کے لین دین کو اپنے اور رسول برحق، محمد عربی کے ساتھ جنگ قرار دیا
ہے، تو کیا ہم نعوذباللہ ، وہ جنگ کر سکتے ہیں یا جیتنے کی کوشش کرسکتے ہیں؟
اللہ نے تو یتیم کا مال کھانے کو حرام قرار دیا ہے، تو کیا ہماری پوری
سوسائٹی یتیم کے مال کو مال غنیمت نہیں سمجھتی؟ نہ ہمیں حلال کی تمیز نہ
حرام کی فکر، اللہ کے واضح اور صریح احکامات کا سرعام مذاق اڑاتے ہیں اور
پھر اس کی جانب سے نصرت کی توقع بھی رکھتے ہیں، ہم سے بڑا بےوقوف اور کون
ہوگا؟ ایسے ایسے شرکیہ عقائد ایجاد کرلئے گئے ہیں کہ کفار بھی حیران و
پریشان رہ جائیں، وہ سارے غلط کام جن میں سے محض کسی ایک کی موجودگی کی وجہ
سے قومیں تباہ ہوجاتی تھیں ہم میں موجود ہیں اور پھر ہم تباہی و بربادی پر
حیران ہوں، یہ کہا جائے کہ ”ہم نے کون سا ایسا گناہ کیا جس کی سزا مل رہی
ہے“ ! ہم ہمیشہ ان کو عنان حکومت عطا کرتے ہیں جو سب سے زیادہ کرپٹ، سب سے
زیادہ بدمعاش، سب سے زیادہ ملک لوٹنے والے اور سب سے بڑے ڈرامہ باز اور
شعبدہ باز ہوتے ہیں اور پھر انہی لوگوں سے خیر کی توقع بھی رکھتے ہیں!
وقت آن پہنچا ہے کہ اگر ہمیں بطور قوم (مسلمان قوم) اپنے آپ کو بچانا ہے،
اگر دشمن پر فتح حاصل کرنی ہے، اگر آنی والی نسلوں کے لئے کوئی روشن مستقبل
چھوڑنا ہے تو اپنے اللہ کو منانا ہوگا، آپس میں اتحاد اور یگانگت پیدا کرنی
ہوگی۔ فرقہ پرستی کو چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول برحق کی
تعلیمات کو سمجھنا ہوگا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ پوری قوم کو امریکا
کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی و غلامی میں لانا ہوگا۔ ہر شخص کو اپنے
اپنے دائرے میں رہتے ہوئے جہاد کرنا ہوگا۔ انفرادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی
توبہ و استغفار بھی کرنی ہوگی۔ کیونکہ جب تک ہم مکمل طور پر اپنے آپ کو
اللہ کی غلامی میں نہیں دیں گے، ہم آپس میں دست و گریبان رہیں گے، ہم دشمن
کے لئے تر نوالہ ثابت ہوتے رہیں گے اور یاد رہے کہ ہمارا دشمن بہت چالاک
اور عیار ہے، ہم اللہ کی مدد کے بغیر اس پر قابو نہیں پاسکتے۔ آئیں اللہ کی
مدد حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو اس کی غلامی میں دے دیں! |