ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک
نعمت نیک اولاد کا ہونا ہے ۔جسے اﷲ تعالیٰ نے آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہے اس
لئے اولاد کا ہونا خوش بختی تصور کیا جاتا ہے۔جنہیں یہ نعمت میسر آتی ہے ۔وہ
بہت خوش و خرم رہتے ہیں ،اور جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی ،وہ ہمیشہ اولاد کی
محرومیت کے صدمے میں پڑے رہتے ہیں ۔مگر جب انہیں اولاد مل جاتی ہے تو
گویاوہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت مل گئی ۔قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے
اپنی اس نعمت کا یوں ذکر فرمایا ہے ۔
’’ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ،رحمان کے بندے وہ ہیں جو یہ دعا کرتے رہتے ہیں ،کہ
اے ہمارے پروردگار تو ہمیں بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ،اور
ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا ۔یہی وہ لوگ ہیں ،جنہیں ان کے صبر کے بدلے
جنت کے بلند بالا خانے دئیے جائیں گے ،جہاں انہیں سلام پہنچایا جائے گا۔ اس
میں یہ ہمیشہ رہیں گے ۔جوبہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے ۔‘‘(سورۃ
الفرقان)
اس آیت میں حصول اولاد کے لئے اﷲ کے حضور التجا کا طریقہ بتایا گیا ہے اور
اسی اولاد کو حاصل کرنے کے لئے اﷲ کے جلیل القدر پیغمبر وں نے اﷲ کے حضور
دعائیں کیں ۔جو اﷲ تعالیٰ نے قبول فرما کرانہیں اولاد کی نعمت سے نوازا۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے اس طرح دعا مانگی ۔’’اے پروردگار !تو عطا فرما
اپنی جانب سے نیک اولاد تو ہی تو دعاؤں کا سننے والا ہے ۔(آل عمران)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی ۔’’ اے اﷲ !تو ہمیں نیک اولاد
عطا فرما۔‘‘(الصافات)
نیک اولاد والدین کی زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ ہے جہاں اﷲ نے اولاد پر
والدین کی خدمت کا فرض عائد فرمایا ہے کیا وہیں اولاد کے کچھ حقوق بھی
والدین کے ذمے لگائے ہیں تاکہ فطری تقاضے قائم رہیں اور کسی فریق کی حق
تلفی نہ ہو۔
ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ! نیکی کس سے کروں؟ فرمایا۔اپنے ماں باپ سے
کرو۔ اس نے کہا وہ تو فوت ہو چکے ۔فرمایا پھر اولاد سے کرو۔ کیونکہ جس طرح
ماں باپ کے حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے بھی تو حقوق ہیں اور فرزند کے حقوق
میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی بد خوئی کی وجہ سے ضروری نہیں کہ اسے عاق ہی کیا
جائے اور فرمایا کہ ۔اﷲ رحمت کرے اس باپ پر جو اپنے بیٹے کو نافرمانی کی
راہ پر نہیں چلنے دیتا۔
اولاد کے حقوق کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
۱۔ حفاظت اولاد:اولاد کا فطری حق ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے کیونکہ بچے کی
پیدائش کا اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ایک ذریعہ بنا رکھا ہے اس لیے اس پر یہ
فریضہ عائد کیا ہے کہ اپنی اولاد کی حفاظت کرے۔ اسلام سے پہلے اولاد کو
جینے کا حق حاصل نہ تھا بلکہ اولاد کی زندگی کو مختلف صورتوں سے ختم کر دیا
جاتا تھا ۔ اولاد کی جان کو ختم کرنے کی ایک صورت یہ تھی کہ والدین اپنی
اولاد کو دیو تاؤں کی خوشنودی کے لئے خود ذبح کر کے ان پر چڑھا وا چڑھادیتے
تھے یہ رسم عربوں اور دیگر قوموں میں بڑی عام تھی ۔اولاد کو مارنے کی دوسری
صورت یہ تھی کہ بعض لوگ فقر و فاقہ کے خوف سے خود اولاد کو قتل کر دیتے تھے
۔ایسے ہی اولاد کو قتل کرنے کی تیسری صورت یہ تھی کہ بعض لوگ اپنی لڑکیوں
کو زندہ دفن کر دیتے تھے ۔کیونکہ وہ لڑکیوں کو اپنی ذلت اور شرم کی علامت
خیال کرتے تھے ۔اسلام نے اولاد کشی کی ان تمام صورتوں کا انسداد کیا اور
اولاد کو ہر طرح سے تحفظ کا حق دیا ۔قرآن پاک میں ان تمام طریقوں کی مذمت
کرتے ہوئے اولاد کو قتل کر نے سے منع فرمایا بلکہ قتل کو سنگین جرم اور
گناہ قرار دے کر قاتل کو سزا وار ٹھہرایا ہے ۔اﷲ تعالیٰ قرآن حکیم میں
فرماتا ہے:۔
۱۔ ترجمہ ’’اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم انہیں بھی روزی دیں
گے اور تمہیں بھی بے شک ان کا قتل بڑی خطاہ ہے ۔‘‘
۲۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہوا۔ترجمہ:’’ تم فرما دو میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو
تم پر تمہارے رے نے حرام کیا ۔یہ کہ اس کا کوئی شریک نہ کرو اور ماں باپ کے
ساتھ بھلائی کرو اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث ہم تمہیں اور
انہیں سب کو رزق دیں گے ۔‘‘
۳۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے :۔ترجمہ:’’ اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے
کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا
ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب ،کیا اسے ذلت کے ساتھ
رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا۔ ارے بہت ہی بُرا حکم لاتے ہیں۔‘‘
رضاعت:مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کے کانوں میں سب سے پہلے
اذان دی جائے نبی اکرم ﷺ کی بھی سنت ہے کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے
بذات خود حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہ کے کان میں نماز والی اذان دی جب حضرت
فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں ان کی ولادت ہوئی۔‘‘(ترمذی ۔ابو داؤد)
ابوایعلیٰ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جس
کے گھر بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان بائیں میں تکبیر کہے
وہ بچہ ام الصبیان بیماری سے محفوظ رہے گا۔
اس حدیث میں حضرت رسول مقبول ﷺ نے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں
تکبیر اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی ہے اور اس کی برکت بیان فرمائی ہے ۔
(کنزالعمال)
اذان کے بعد بچے کے منہ میں میٹھی چیز ڈالنا بھی سنت ہے جسے’’ تحنیک‘‘ کہا
جاتا ہے ۔نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں کھجور چبا کر بچے کے منہ میں لگا دی جاتی
یا تالو پر مل دی جاتی ۔اس کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
فرماتی ہیں کہ جب رسول اکرم ﷺ کے پاس نو مولود بچوں کو لایا جاتا تو آپﷺ ان
کے حق میں برکت کی دعا فرماتے اور ان کے تالو میں کھجور چبا کر لگا دیتے
۔ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے ہاں جو سب سے پہلا بچہ پیدا ہوا
وہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما تھے ۔حضرت اسما رضی اﷲ عنہا روایت
کرتی ہیں کہ جب ابن زبیر پیدا ہوئے تو انہیں رسول اﷲﷺ کی گود میں دیا گیا۔
آپﷺ نے خرما منگوایا ۔اسے چبا کر اپنا لعاب دہن کے ساتھ بچہ کے منہ میں
ڈالا اور خرما تالوں میں ملا ۔نیز خیرو برکت کی دعا دی۔(کتب سیرت)
بچہ پیدا ہونے کے ساتویں روز بچے کے سر کے بالوں کو منڈاکر چاندی کے برابر
تول کر اس چاندی کو صدقہ و خیرات کر دینا چاہیے اور اس کے بعد بچے کی طرف
سے عقیقہ کیا جائے ۔جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ۔ہر بچہ اپنے عقیقہ کے
بدلے میں گروی رکھا ہوا ہے ۔ساتویں روز اس کی طرف سے کوئی جانور ذبح کیا
جائے اور اسی دن اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بالوں کو مونڈدیا جائے
۔(کتب احادیث)
حضرت سلمان بن عامر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ کو
یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیٹے کے لئے عقیقہ ہے ،سوا س کی طرف سے جانور کی
قربانی دو اور گندگی صاف کرو ۔سر کے بالوں کو منڈوا دو۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے حسن علیہ
السلام کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کی ۔اور فرمایا اے فاطمہ رضی اﷲ عنہا! اس
کا سر منڈاؤ اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کردو سو انہوں نے
بالوں کا وزن کیا تو وہ ایک درہم کے برابر، یا کچھ کم نکلے ۔جس کے برابر
چاندی صدقہ کر دی گئی ۔(کتب احادیث)
حضرت عمر بن شعیب رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جس کے
گھر میں بچہ پیدا ہوا ور وہ اس کے عقیقہ کے طور پر قربانی کرنا چاہے تو
عقیقے کی قربانی لڑکے کے لئے دو بکریاں اور لڑکی کے لئے ایک بکری ہے ۔(ابو
داؤد)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ اس جانور کو کہتے ہیں ،جو نوزائیدہ بچے کی
طرف سے خدا کے شکریہ میں ذبح کیا جاتا ہے لڑکے کی جانب سے دو جانور اور
لڑکی کی طرف سے ایک ہے ۔
اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ ہو سکے تو چودہویں یا اکیسویں تاریخ یا
جب ممکن ہو کر دینا چاہیے کیوں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ عقیقہ ساتویں
،یا چودھویں یا اکیسویں روز کیا جائے گا۔
بچے کا اچھا سا نام رکھنا والدین کا فرض ہے کیونکہ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے کہ
آدمی سب سے پہلے اپنی اولاد کو جو تحفہ دیتا ہے وہ اس کا نام ہے ۔لہٰذا
اچھا نام رکھنا چاہئیے کیونکہ تم قیامت کے دن اپنے باپ کے رکھے ہوئے ناموں
سے پکارے جاؤ گے اس لئے تم اچھا نام رکھو۔ (ترمذی)
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے
فرمایا:’’ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمہارے سب سے پیارے نام عبد اﷲ ،عبد الرحمن
اور اس جیسے ہیں۔‘‘(صحیح مسلم)
جبکہ ان ناموں کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے نام مبارک’’محمد ﷺ‘‘ اور ’’احمد
ﷺ‘‘ کا اضافہ انتہائی مبارک ہے۔ایک دوسری حدیث میں فرمایا ’’نبیوں کے ناموں
پر نام رکھا کرو۔‘‘(سنن ابو داؤد)
البتہ غلط قسم کے نام نہیں رکھنے چاہیں۔
بچے کا ختنہ کرنا بھی سنت ہے کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے ساتویں روز حضرت حسن اور
حضرت حسین رضی اﷲ عنہما کا ختنہ کروایا۔
بچے کو شیر خوارگی کے زمانے میں دودھ پلانا بھی ضروری ہے ۔کیونکہ ارشاد
الہٰی ہے کہ :’’ جو باپ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد پوری مدت رضا عت تک دودھ
پئے ۔تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں اس صورت میں اس کے باپ
کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہو گا۔‘‘(البقرہ ،233)
اسلام نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ والدہ کے علاوہ دوسری عورت بھی بچہ کو دودھ
پلا سکتی ہے اور رضاعی ماں کا درجہ بھی تقریباً حقیقی ماں کے برابر ہے۔ ماں
بیماری اور نقاہت کی صورت میں بچے کی عام دودھ سے نشو و نمابھی کر سکتی ہے
۔بہر حال مقصد بچے کو معینہ عرصہ تک دودھ پلانا ہے ،تاکہ اس کی مناسب نشو و
نما ہو ۔مندرجہ بالا آیت کی رو سے شیر خوار گی کی مدت دو سال ہے اگر بچہ
خدا نخواستہ ماں اور باپ دونوں سے محروم ہو جائے تو اس کے ورثا کو دودھ
پلانے کا انتظام کرنا چاہیے ۔
اولاد کی صالح خطوط پر پرورش کے ساتھ ساتھ انہیں تعلیم سے آراستہ کرنا بھی
والدین کا فرض ہے کیونکہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔اس کے متعلق
ارشاد نبوی یہ ہے کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃَ عَلٰی کُلِّ
مُسْلِمٍ۔’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ایک اور حدیث میں ہے
’’انہیں فرائض کی تعلیم دو اور قرآن کی ۔اور لوگوں کو علم سکھاؤ کیونکہ میں
تو اُٹھ جانے والا ہوں۔‘‘
سنن بیہقی کی روایت ہے کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ ۔۔۔سے بچہ کو بولی
سکھانے کا آغاز کرو۔
حضرت ایوب بن موسیٰ رضی اﷲ عنہ بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے
ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ اچھی تعلیم و تربیت سے زیادہ ایک باپ کا
اپنی اولاد کے لئے کوئی عطیہ نہیں ہے ۔‘‘(ترمذی)
علم و ہ دولت ہے کہ جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں ۔لہٰذا والدین
پر فرض ہے کہ وہ خود علم حاصل کریں اور اپنی اولاد کو بھی دولت علم سے مالا
مال کریں ۔والدہ کی گود بچے کی پہلی اور بہترین درس گاہ ہے ۔جہاں انسانی
سیرت سنورتی ہے ۔کیونکہ بچے کا سب سے زیادہ رابطہ ماں کے ساتھ ہوتا ہے اور
وہ ماں اور اس کے ماحول کا اثر قبول کرتا ہے ۔لہٰذا والدہ کو بچے کی
ابتدائی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں علم
کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔تعلیم کی قدر و قیمت نبی اکرم ﷺ کے اس عمل سے ظاہر
ہوتی ہے کہ بدر کے قیدیوں کا فدیہ مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ جو قیدی پڑھے
لکھے ہیں وہ مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو انہیں آزاد
کر دیا جائے گا۔‘‘
حضرت امام ربیعہ رحمۃ اﷲ علیہ ایک بہت بڑے مشہور محدث اور عالم گذرے ہیں جو
حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ کے استاد تھے ۔بچپن میں ان کے والد کسی سفر
میں چلے گئے ۔چلتے وقت ربیعہ کی والدہ کو تیس ہزار اشرفیاں دے گئے تھے
۔حضرت ربیعہ کی والدہ نے اپنے بچے کی اچھی تعلیم اور اچھی تربیت کے لئے نیک
عالموں اور بڑے بڑے محدثو ں اور ادیبوں کے پاس بٹھایا اور بچے کی تعلیم و
تربیت میں تیس ہزار اشرفیاں ختم کر دیں ۔جب حضرت ربیعہ لکھ پڑھ کرفارغ ہو
گئے ۔تو ربیعہ کے والد ایک عرصہ کے بعد تشریف لائے ۔تو بیوی سے دریافت کیا
کہ وہ تیس ہزار اشرفیاں کہاں ہیں ؟بیوی نے کہا بہت حفاظت سے رکھی ہیں ۔پھر
جب مسجد میں آئے ،تو اپنے بیٹے امام ربیعہ کو دیکھا کہ درس حدیث کی مسند پر
بیٹھے ہوئے ہیں اور محدثین کو درس دے رہے ہیں لوگ ان کو اپنا امام اور
پیشوا بنائے ہوئے ہیں ،تو مارے خوشی کے پھولے نہ سمائے ،جب گھر واپس تشریف
لائے تو بیوی نے کہا کہ وہ تمام اشرفیاں تمہارے بیٹے کی تعلیم پر خرچ ہو
چکی ہیں ۔آپ نے اب اپنے صاحبزادے کو دیکھ لیا ہے ۔اب فرمائیے کہ آپ کی تیس
ہزار اشرفیاں ابھی ہیں یا یہ دولت جو صاحبزادے کو حاصل ہوئی ہے تو وہ
فرمانے لگے ۔بخدا اس عزت کے مقابلے میں اشرفیوں کو کیا حقیقت حاصل ہے ،تم
نے اشرفیوں کو ضائع نہیں کیا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کی تربیت کرنا والدین کا فرض ہے تاکہ بچوں کی
عادت میں بچپن میں ہی اطاعت الہٰی کا جذبہ پیدا ہو جائے اور وہ جوان ہو کر
احکام الہٰی کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ۔انسانی زندگی کے لئے دنیوی خوش
حالی کے علاوہ آخرت میں نجات کی بھی ضرورت ہے اس کے متعلق ارشاد باری
تعالیٰ ہے کہ :’’ اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ
سے بچاؤ جس کاا یندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔(التحریم ۔6)
اس آیت میں یہی تاکید کی گئی ہے کہ اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ یعنی
اپنی اولاد کی تربیت ایسی اخلاقی اور دینی بنیادوں پر کرو تاکہ برائیوں سے
بچ جائیں اور نیکیوں کی طرف مائل رہیں ۔اس طرح وہ آخرت میں دوزخ کی آگ سے
خلاص پائیں گے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کی تربیت عمدہ طریقے سے کرنا ماں
باپ کی ذمہ داری ہے ۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کا
اکرام و احترام کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ۔‘‘(ابن ماجہ)
حضرت جابر بن سمر ہ رضی اﷲ عنہ دنے کہا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ
:’’کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کے لئے ایک صاع صدقہ کرنے سے
بہتر ہے ۔‘‘(ترمذی)
حضور ﷺ کا ایک اور ارشاد ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اُسے نماز
پڑھنے کا حکم دو اور جب دس برس کا ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو اُسے مار کر
نماز پڑھا ؤ اور اُسے الگ سلایا کرو۔‘‘(ابو داؤد)
اس ارشاد گرامی کے پیش نظر والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سات سال کی
عمر تک نماز اور اخلاق کے بنیادی اصول سکھائیں۔
عام طور پر والدین کی تربیت کا عکس ان کی اولاد پر مرتب ہو تا ہے ۔حضرت
فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شخصیت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضو ر اکرم ﷺ نے
ان کی کتنی بے مثال تربیت کی تھی ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے
کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے بڑھ کر دانا تھیں ۔انداز کلام ،حسن
اخلاق اور وقار متانت میں حضور اکرم ﷺ کے سوا ان کا کوئی ثانی نہ تھا ۔
صالح تربیت کے ساتھ اولاد سے شفقت سے پیش آنابھی والدین کے لئے ضروری ہے
کیونکہ اولاد پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے ۔رسول اﷲﷺ کا فرمان ہے
:’’جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم
میں سے نہیں ہے ۔‘‘ بچہ چھوٹا ہو اسے بوسہ دینا سنت ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ حضرت
حسن رضی اﷲ عنہ کو چوما کرتے تھے ۔ایک دن قرع بن حابس نے عرض کیا کہ میرے
دس بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی کو کبھی بوسہ نہیں دیا ۔فرمایا جو ان
پر رحم نہیں کرتا۔( اسے یاد رہے کہ) خود اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔
ایک مرتبہ آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے کہ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ اوندھے منہ
گر پڑے ۔آپ ﷺ نے فوراً منبر سے اُتر کر ان کو گود ی میں اُٹھالیا۔ اور یہ
آیت پڑھی :’’تمہارے اموال اور اولاد بس تمہارے لئے آزمائش ہیں۔‘‘ (سورۃ
التغابن آیت نمبر15)
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نماز ادا کر رہے تھے ۔سجدہ میں گئے تو حضرت حسین رضی
اﷲ عنہ نے آپ ﷺ کی گردن پر سعار ہو گئے۔آپ ﷺ نے حالت سجدہ میں اس قدر توقف
کیا کہ صحابہ سمجھے غالباً وحی آگئی ہے جو سجدہ میں اتنی دیر کر دی ہے
،نماز سے فار غ ہو ئے تو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے پوچھا کہ حضور ! وحی
آئی ہے کیا؟فرمایا :(نہیں بلکہ)حسین نے مجھ پر سواری کی ہوئی تھی۔ مجھے
اچھا نہ لگا کہ اسے اپنے سے جدا کروں۔
اولاد کو کچھ دیتے وقت یا سلوک کرتے وقت بھی والدین کو چاہیے کہ عدل و
انصاف کو مد نظر رکھیں اسلام میں چھوٹے بڑے لڑکے اور لڑکی کے حقوق یکساں
ہیں ۔اسلام لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلہ میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں
رکھتا لڑکے اور لڑکیوں کا جو حصہ وراثت میں مقرر ہے انہیں دینا چاہیے کیوں
کہ اسی سے انصاف کا تقاضا پورا ہوتا ہے ۔اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز دے
دینا اور دوسرے کو محروم رکھنا جائز نہیں ۔بلکہ ایسا کرنا ظلم ہو گا ۔جو
خلاف اسلام ہے ۔
ایک مرتبہ ایک صحابی نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور اکرم ﷺ سے
آکر عرض کرنے لگا آپ اس کی گواہی دیں ۔آپ ﷺ نے پوچھا کیا دوسرے بچوں کو بھی
ایک ایک غلام دیا ہے ۔اس نے عرض کیا نہیں آقا دو جہان ﷺ نے فرمایا میں اس
ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔اولاد سے ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا
ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جس سے
سکون ختم ہو جاتا ہے ۔
بچوں کی پرورش کے لئے مال و زر خرچ کرنا اور ان کی ہر طرح کی ضروریات پوری
کرنا بھی والدین کے ذمے ہیں یعنی بچوں کی کفالت کا تمام تر ذمہ باپ کے ذمے
ہے ۔جیسے حضور ختم المرسلین ﷺ فرماتے ہیں ۔’’اہل و عیال پر اپنی استطاعت کے
مطابق خرچ کرو، اور مؤدت کرنے کے لئے (حسب ضرورت) سختی بھی کرو اور انہیں
اﷲ سے ڈرایا بھی کرو۔‘‘(مسند احمد)
حضرت عمر و بن شعیب رضی اﷲ عنہ بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے
ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا ۔یا رسول اﷲ ﷺ میرا یہ بیٹا ہے مدتوں میرا پیٹ
اس کا برتن رہااور میری چھاتی اس کی مشک رہی اور میری گود اس کا گہوارہ
۔یعنی میں نے اپنے اس بیٹے کو مدتوں پالا ہے ۔اب اس کا باپ اسے نے مجھ سے
چھین لینا چاہتا ہے ۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ۔جب تک تو اورنکاح نہ کرے اس کی
پرورش کی زیادہ مستحق ہے ۔(ابو داؤد)
والدین کا فرض ہے کہ جب بچے جوان ہو جائیں تو ان کی شادی کر دیں۔ لیکن شادی
میں لڑکے اور لڑکی کا رضا مند ہونا ضروری ہے کیونکہ اسلام میں زبردستی نہیں
۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ
عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے
اسی طرح کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے دریافت نہ کیا جائے
۔غرض کہ اسلام نے شادی میں مرد اور عورت کا حق ایک جیسا رکھا ہے لیکن لڑکے
کے لئے مزید بالا دستی یہ رکھی ہے کہ اگر وہ لڑکی کو ایک نظر دیکھ بھی لے
تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ
جس گھر میں بچہ پیدا ہو وہ اسے اچھا نام دے اس کی تربیت کرے جب بالغ ہو
جائے اس کی شادی کرے ۔اگر بالغ ہونے پر اس کی شادی نہ کی اور وہ گناہ میں
پڑ گیا تو اس گناہ میں اس کا باپ بھی شریک ہو گا۔(بیہقی)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
۱۔ بچہ جب ایک ہفتے کا ہو جائے تو اس کا عقیقہ کرو اور نام رکھو اور اسے
پاک کرو۔
۲۔ چھ سال کا ہو جائے تو اسے آداب کی تعلیم دو۔
۳۔ نو سال کا ہو جائے تو اس کا بستر علیحدہ کردو۔
۴۔ تیرہ سال کا ہو جائے تو نمازنہ پڑھنے پر اسے سزا دو (مارو پیٹو) ۔
۵۔ سولہ سال کا ہو جائے تو اس کا بیاہ کرو۔(تب اس کا ہاتھ پکڑ کر کہو کہ لو
بیٹا میں نے تجھے (پالا پوسا) ادب و تہذیب سے آراستہ کیا ۔جن چیزوں کی
تعلیم لازمی تھی وہ تجھے دلوائی اور اب تیرا نکاح بھی کر دیا ۔پس اب میں اس
دنیا میں تیرے فتنہ سے اور آخرت میں تیرے عذاب سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتا
ہوں۔
اسی طرح لڑکی کے بار میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا ہے کہ جب لڑکی بارہ برس کی ہو جائے (عرب میں یہ بلوغت کی عمر تھی)
اور اس کے والدین شادی نہ کریں تو اب اگر اس لڑکی سے کوئی گناہ ہو گیا تو
اس گناہ کی ذمہ داری ماں باپ کی ہو گی ۔(بیہقی)
بیٹیوں کے سلسلے میں اسلام نے ان کے حقوق خاص طور پر ادا کرنے کی بڑی تاکید
کی ہے ۔کیونکہ اسلام سے پہلے بیٹیوں کے ساتھ بہت براسلوک کیا جاتا تھا اس
لئے اسلام نے اس تصو ر کی تردید کی اور بیٹیوں کو ارفع مقام عطا کیا ۔رسول
اکرم ﷺ کو اپنی بیٹیوں سے بڑا پیار تھا ۔لہٰذا بیٹیوں سے اچھا سلوک کرنا
چاہیے اس سلسلے میں آپ ﷺ کی چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت ابو سعید رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ جس نے تین
بیٹیوں یا تین بہنوں کو یا دو بہنوں یا دو بیٹیوں کو پالا اور ان کے ساتھ
اچھا سلوک کیا ۔اس شخص کے لئے جنت ہے ۔(ترمذی)
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ بیٹیوں کی پرورش حصول جنت کا بہترین ذریعہ ہے
۔ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا کہ ایک
دفعہ ایک عورت میرے پاس آئی دو بچیاں اس کے ساتھ تھیں اس نے مجھ سے سوال
کیا ۔میرے پاس اس وقت صرف ایک کھجور تھی ۔میں نے وہی دے دی اس نے کھجور کے
دو ٹکڑے کیے اور دونوں بچیوں کو دے دیے خود کچھ منہ میں نہ رکھا ۔حضور اقدس
ﷺ تشریف لائے تو میں نے انہیں یہ واقعہ بھی سنایا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان
بچیوں کی وجہ سے جو شخص تکلیف میں مبتلا ہو، پھر بھی ان سے حسنِ سلوک کرے
،وہ بچیاں اس کے اور دوزخ کے درمیان دیوار بن جائیں گی۔‘‘(بخاری و مسلم)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جس کی بیٹی
ہو اور وہ اسے نہ زندہ درگور کرے اور نہ اسے حقیر سمجھے اور نہ اس پر بیٹوں
کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘(ابو داؤد)
اس سلسلہ میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے ۔(حضور اقدس ﷺ نے اپنے دونوں
مبارک ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر کے فرمایا ) جس کی دو
بیٹیاں ہوئیں اور اس نے ان کی کفالت کی ،یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ
گئیں ۔قیامت کے دن وہ اور میں اس طرح یکجا ہوں گے۔‘‘(صحیح مسلم)
حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ۔جب کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اس کے ہاں
اﷲ تعالیٰ فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں ۔گھر والو! تم پر سلامتی ہو
۔پھر فرشتے بچی کو اپنے سایہ میں لے لیتے ہیں اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں
اور کہتے ہیں ،یہ کمزور جان ہے ۔جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوتی ہے ۔ جو اس
کی پرورش اور تربیت کرے گا۔ ‘‘ روز حشر اﷲ کی مدد اس کے شامل حال ہو گی
۔(طبرانی)
حضرت سراقہ بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں
تم کو یہ نہ بتادوں کہ افضل صدقہ کیا ہے ،اور وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا
ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا
کوئی اور افضل نہیں ۔(ابن ماجہ)
معزز قارئین!قرآن و سنت سے کچھ موتی بعنوان ’’اولاد کے حقوق‘‘ پیشِ خدمت
ہیں ۔چونکہ آجِ حقوقِ والدین کا خیال کرتے ہوئے ہم حقوق اولاد کی پرواہ
نہیں کرتے ۔ضرورت ہے کہ زیر نظر مضمون کی کھلے عام اشاعت ہو اور معاشرے میں
اصلاح ممکن ہو ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں فرائض و حقوق ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین |