﴿۱﴾ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ
عنھماسے روایت ہے کہ رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک
شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے اس کو نکال کرپھینک دیا اور فرمایا :کیا تم میں کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا
انگارا اپنے ہاتھ میں ڈالے۔ رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
کے تشریف لے جانے کے بعد کسی نے اس شخص سے کہا تو اپنی انگوٹھی اٹھااور بیچ
کر اس سے فائدہ اٹھا، اس نے جواب دیا نہیں اﷲ عزوجل کی قسم میں اسے کبھی
نہیں لونگا جب رسول خداعزوجل وصلی اﷲ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے اسے پھینک
دیا ہے تو میں اسے کیسے لے سکتاہوں؟
(مشکوٰۃ،کتاب اللباس،باب الخاتم، الفصل الاول، الحدیث۴۳۸۵، ج۲، ص۴۸۱)
﴿۲﴾ حضرت عمر وبن شعیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سفر میں ہم لوگ حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ تھے ۔ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے اوپر ایک چادر تھی جوکسم کے رنگ میں ہلکی
سی رنگی ہوئی تھی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دیکھ کر فرمایا
:یہ کیا اوڑھ رکھا ہے؟ مجھے اس سوال سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی ناگواری کے آثار معلوم ہوئے۔ گھر والوں کے پاس واپس ہوا تو انہوں
نے چولھا جلا رکھا تھا میں نے وہ چادر اس میں ڈال دی۔ دوسرے روز جب حاضرہوا
تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ وہ چادر کیا ہوئی۔
میں نے قصہ سنادیا ،آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عورتوں میں سے کسی کو کیوں نہ پہنادی عورتوں کے پہننے میں تو کوئی مضایقہ
نہ تھا۔
(سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی الحمرۃ،الحدیث۴۰۶۶،ج۴،ص۷۳)
﴿۳﴾حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک مرتبہ دولت کدے سے باہر
تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک قبہ (گنبد دار حجرہ) دیکھا جو اوپر بنا
ہوا تھا۔ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے دریافت کیا، یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض
کیا:فلاں انصاری نے قبہ بنایا ہے۔ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سن
کر خاموش رہے کسی دوسرے وقت وہ انصاری حاضر خدمت ہوئے۔ سلام عرض کیا،
حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اعراض فرمایا ،سلام کا جواب بھی نہ
دیا انہوں نے اس خیال سے کہ شاید خیال نہ ہوا ہو دوبارہ سلام عرض کیا
حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پھر اعراض فرمایا اور جواب نہیں دیا
وہ اس کے کیسے متحمل ہوسکتے تھے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو وہاں موجود
تھے کہا :خدا عزوجل کی قسم! سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تومجھے
ناپسند فرمارہے ہیں۔ انھوں نے کہا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
باہر تشریف لے گئے تھے راستہ میں تمہاراقبہ دیکھا تھا اور دریافت فرمایا
تھا کہ کس کا ہے ؟
یہ سن کر و ہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فوراً گئے اور اس کو توڑ کر ایسا
زمین کے برابر کردیا کہ نام و نشان بھی نہ رہا اور پھر آکر عرض بھی نہیں
کیا ۔اتفاقاً حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کا اس جگہ کسی دوسرے
موقع پر گزر ہوا تو دیکھا کہ وہ قبہ وہاں نہیں ہے، دریافت فرمایا صحابہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا انصاری نے آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم کے اعراض کو، کئی روز ہوئے ذکر کیا تھا ،تو ہم نے کہہ دیا تھا تمھار
اقبہ دیکھا ہے انھوں نے آکر اس کو بالکل توڑدیا ۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر تعمیر آدمی پر وبال ہے مگر و ہ تعمیر جو
سخت ضرورت اور مجبوری کی ہو۔
(سنن ابی داود،کتاب الادب،باب ماجاء فی البناء،الحدیث۵۲۳۷، ج۴، ص۴۶۰)
﴿۴﴾حضرت رافع رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم لوگ ایک سفر میں حضور صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہم ر کاب تھے اور ہمارے اونٹوں پرچادریں پڑی
ہوئی تھیں جن میں سرخ ڈورے تھے ۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ سرخی تم پرغالب ہوتی جاتی ہے۔ حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا تھا کہ ہم لوگ ایک دم
ایسے گھبرا کے اٹھے کہ ہمارے بھاگنے سے اونٹ بھی ادھر ادھر بھاگنے لگے اور
ہم نے فوراََ سب چادریں اونٹوں سے اتارلیں۔
(سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی الحمرۃ،الحدیث۴۰۷۰،ج۴،ص۷۴)
﴿۵﴾وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حاضر خدمت ہوا میرے سر کے بال
بہت بڑھے ہوئے تھے میں سامنے آیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا: ’’ذباب،ذباب‘‘ میں یہ سمجھا کہ میرے بالوں کو ارشاد فرمایا
واپس گیا، اور ان کو کٹوادیا۔ جب دوسرے دن خدمت میں حاضر ہوا تو ارشاد
فرمایا :میں نے تجھے نہیں کہا تھا لیکن یہ اچھا کیا۔
(سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی تطویل الجمۃ،الحدیث۴۱۹۰،ج۴، ص۱۱۲)
﴿۶﴾ عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ کا ایک نو عمر بھتیجا خذف سے کھیل رہا تھا
انھوں نے دیکھا اور فرمایا برادر زادہ ایسا نہ کروحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس سے فائدہ کچھ نہیں نہ شکا ر ہوسکتا ہے
نہ دشمن کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور اتفاقاً کسی کو لگ جائے تو آنکھ
پھوٹ جائے، دانت ٹوٹ جائے ۔بھتیجا کم عمر تھا اس لئے جب چچا کو غافل دیکھا
تو پھر کھیلنے لگا۔ انھوں نے دیکھ لیا فرمایا کہ میں تجھے حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد سناتا ہوں کہ اس سے انہوں نے منع فرمایا
ہے اور تو پھر اس کام کو کرتا ہے خدا عزوجل کی قسم تجھ سے کبھی بات نہیں
کروں گا۔ ایک دوسرے قصہ میں اس کے بعد ہے کہ خدا عزوجل کی قسم! تیرے جنازے
کی نماز میں شریک نہ ہوں گا اور نہ تیری عیادت کروں گا۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب تعظیم حدیث رسول اﷲصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم ...الخ،الحدیث۱۷، ج۱،ص۱۹)
نوٹ: خذف یہ ہے کہ انگوٹھے پر چھوٹی سی کنکری رکھ کر انگلی سے پھینکی جائے
یہ بچوں کا ایک بیکاراور اندیشہ ناک کھیل ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ
عنہ کے بھتیجے نے ارشادِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سن لینے کے
بعد بھی پابندی نہ کی جسے صحابی رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم و رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ برداشت نہ کر سکے اور ترک کلام کی قسم کھالی۔آج مسلمان اپنے
حالات پر غور کریں کہ احادیث رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اور
ارشادات سرور کائنات علیہ الصلوات والتحیات کی پابندی ہم میں کتنی ہے؟
﴿۷﴾حکیم بن حزام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک صحابی ہیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کچھ طلب کیا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے عطا فرمایا ،پھر کسی موقع پر کچھ مانگا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے پھر مرحمت فرمایا ،تیسری دفعہ پھر سوال کیا حضور صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا: کہ اے حکیم
!یہ مال سبز باغ ہے ظاہر میں بڑی میٹھی چیز ہے مگر اس کا دستوریہ ہے کہ اگر
دل کے استغناء سے ملے تو اس میں برکت ہوتی ہے اور اگر طمع اور لالچ سے حاصل
ہو تو اس میں برکت نہیں ہوتی ایسا ہوجاتا ہے(جیسے جوع البقر کی بیماری ہو)
کہ ہروقت کھاتے جائے اور پیٹ نہ بھرے۔حکیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:
یا رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کے بعد اب کسی سے
کچھ قبول نہیں کروں گا حتی کے دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔اسکے بعدحضرت ابوبکر
صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں حکیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بیت
المال سے کچھ عطا کرنے کا ارادہ فرمایا انھوں نے انکار کردیا اسکے بعد حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں باربار اصرار کیا مگر انھوں نے
انکار ہی کیا۔
(صحیح البخاری،کتاب الزکاۃ،باب الاستعفاف عن المسألۃ،الحدیث۱۴۷۲، ج۱،ص۴۹۷)
﴿۸﴾ حضرت اسما ء رضی اﷲ تعالیٰ عنھا بڑی سخی تھیں۔ اول جو کچھ خرچ کرتی
تھیں اندازہ سے ناپ تول کرخرچ کرتی تھیں مگر جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ باندھ باندھ کر نہ رکھا کرو اور حساب نہ لگایا کرو جتنا
بھی قدرت میں ہو خرچ کیا کرو تو پھر خوب خرچ کرنے لگیں۔اپنی بیٹیوں اور گھر
کی عورتوں کو نصیحت کیا کرتی تھیں کہ اﷲ عزوجل کے راستے میں خرچ کرنے اور
صدقہ کرنے میں ضرورت سے زیادہ ہونے اور بچنے کا انتظار نہ کیا کروکہ اگر
ضرورت سے زیادتی کا انتظار کرتی رہو گی تو ہونے کا ہی نہیں(کہ ضرورت خود
بڑھتی رہتی ہے ) اور اگر صدقہ کرتی رہوگی تو صدقہ میں خرچ کردینے سے نقصان
میں نہ رہوگی۔ (الطبقات الکبریٰ،ج۸،ص۱۹۸)
﴿۹﴾ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ میں تمھیں اپنا اور
فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سب سے
زیادہ لاڈلی بیٹی تھیں، قصہ سناؤں! شاگرد نے عرض کیا ضرور، فرمایا کہ وہ
اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں جس کی وجہ سے ہاتھوں میں نشان پڑگئے تھے اور
خود پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے سینہ پر مشک کی رسی کے نشان
پڑگئے تھے اور گھر میں جھاڑو وغیرہ خود ہی دیتی تھیں جسکی وجہ سے تمام کپڑے
میلے ہو جایاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
کے پاس کچھ غلام باندیاں آئیں میں نے فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے کہا تم بھی جاکر
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ایک خدمت گا ر مانگ لوتا کہ تم کو
کچھ مددمل جائے۔ و ہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوئیں وہاں مجمع تھا اور حیاء مزاج میں بہت زیادہ تھی اس لئے حیاء کی وجہ
سے سب کے سامنے باپ سے بھی مانگتے ہوئے شرم آئی، واپس آگئیں۔ دوسرے روز
حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم خود تشریف لائے ،ارشاد فرمایاکہ
فاطمہ!رضی اﷲ عنہا کل تم کس کا م کے لئے گئی تھیں وہ حیاء کی وجہ سے چپ
ہوگئیں ۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم ان کی یہ حالت ہے کہ چکی کی وجہ سے ہاتھوں میں گٹھے پڑگئے اور مشک کی
وجہ سے سینہ پر رسی کے نشان ہوگئے، ہروقت کے کام کاج کی وجہ سے کپڑے میلے
رہتے ہیں۔ میں نے کل ان سے کہا تھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
کے پاس خادم آئے ہوئے ہیں ایک یہ بھی مانگ لیں اس لئے گئی تھیں۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ
عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میرے اور علی رضی اﷲ عنہ کے پاس
ایک ہی بستر ہے اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال ہے رات کو اسکو بچھاکر
سوجاتے ہیں صبح کو اسی پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کو کھلاتے ہیں۔حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ بیٹی صبر کرو! حضرت موسیٰ علیہ
السلام اور ان کی بیوی کے پاس دس برس تک ایک ہی بچھونا تھا وہ بھی حضرت
موسیٰ علیہ السلام کا چوغہ تھا رات کو بچھاکر اسی پر سوجاتے تھے،توتقویٰ
حاصل کرواور اﷲ عزوجل سے ڈرو اور اپنے پروردگارعزوجل کا فریضہ ادا کرتی رہو
اور گھر کے کام کاج کو انجام دیتی رہو اور جب سونے کے واسطے لیٹا کروتو
سبحان اللّٰہ ۳۳ مرتبہ اور الحمدللّٰہ ۳۳ مرتبہ اور اللّٰہ اکبر ۳۴ مرتبہ
پڑھ لیا کر ویہ خادم سے زیادہ اچھی چیز ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض
کیا میں اﷲ عزوجل سے اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
راضی ہوں۔
(سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی التسبیح عند النوم، الحدیث۵۰۶۳، ج۴، ص۴۰۹)
﴿۱۰﴾ حضرت عبداﷲ بن زبیررضی اﷲ عنہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے
بھانجے تھے اور وہ ان سے بہت محبت فرماتی تھیں۔ انھوں نے ہی گویا بھانجے کو
پالا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ا س فیاضی سے پریشان ہو کر کہ
خود تکلیفیں اٹھاتیں اور جو آئے فوراََ خرچ کردیتیں ایک مرتبہ کہہ دیا کہ
خالہ کا ہاتھ کس طرح روکنا چاہئے؟ حضرت عائشہرضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بھی یہ
فقرہ پہنچ گیا۔ اس پر ناراض ہوگئیں کہ میرا ہاتھ روکنا چاہتا ہے اور ان سے
نہ بولنے کی نذر کے طور پر قسم کھائی۔ حضرت عبداﷲ بن زبیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کو خالہ کی ناراضگی سے بہت صدمہ ہوا، بہت لوگوں سے سفارش کرائی مگر انھوں
نے اپنی قسم کا عذر فرمادیا۔
آخر جب عبداﷲ بن زبیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت ہی پریشان ہوئے تو حضور اقدس
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ننھیال کے دو حضرات کو سفارشی بنا کر
ساتھ لے گئے وہ دونوں حضرات اجازت لیکر اندر گئے یہ بھی چھپ کر ساتھ ہولئے
جب وہ دونوں سے پردہ کے اندر بیٹھ کر بات چیت فرمانے لگیں تو یہ جلدی سے
پردہ میں چلے گئے او ر جاکر خالہ سے لپٹ گئے اور بہت روئے اور خوشامد کی وہ
دونوں حضرات بھی سفارش کرتے رہے اور مسلمان سے بولنا چھوڑنے کے متعلق حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ارشادات یاد دلاتے رہے اور احادیث میں
جو ممانعت اس کی آئی ہے وہ سناتے رہے جس کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا ان کی تاب نہ لاسکیں اور رونے لگیں آخر معاف فرمادیااور بولنے
لگیں، لیکن اپنی قسم کے کفارہ میں باربار غلام آزاد کرتی تھیں، حتی کہ
چالیس غلام آزاد کئے اور جب بھی اس قسم کے توڑنے کا خیال آجاتا اتنا روتیں
کہ دوپٹا تک آنسوؤں سے بھیگ جاتا۔
(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب الہجرۃ،الحدیث۶۰۷۳،ج۳،ص۱۱۹)
شوقِ موافقت
حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی
صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اﷲ
عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کفن میں کتنے کپڑے تھے،حضور صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وفات شریف کس دن ہوئی ، ا س سوال کی وجہ یہ
تھی کہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آرزو تھی کہ کفن و یوم وفات میں حضور صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی موافقت ہو۔ حیات میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم کا اتباع تھا ہی وہ ممات میں بھی آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلمہی کی اتباع چاہتے تھے۔
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب موت یوم الاثنین،الحدیث۱۳۸۷،ج۱،
ص۴۶۸)(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
ﷲ ﷲ یہ شوق اتباع
کیوں نہ ہو صدیق اکبر تھے
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |