ہمارے معاشرے میں
جہیز کو لعنت کہنا غلط نہیں۔ لعنت کے ساتھ ساتھ یہ متوسط اور غریب طبقے
خاندان کے لئے ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی بچیاں
ماں باپ کی دہلیز پر اپنے بال سفید کر کے بیٹھی ہوئی ہیں۔
ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنا تو پسند کرتے ہیں لیکن اپنے طور طریقے سے کہیں
سے بھی ایسا ظاہر نہیں کرتے کہ ہم اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔ اگر آج ہم اپنے معاشرے میں سے منہ
مانگنا جہیز مانگنا بند کر دیں تو بہت سے سفید پوش گھرانے کی بیٹیوں کی
شادی ہو سکتی ہیں۔ ویسے ہی لڑکے اور لڑکیوں کا حساب کتاب نکالا جائے تو
لڑکے لڑکیوں کے مقابلے میں کم ہیں اور سونے پر سوہاگہ پڑھے لکھے لڑکے ویسے
بھی بہت کم ہیں اور جو لڑکا اچھا کمائی والا ہے تو اس کے ماں باپ کا دماغ
عرش معلہ پر ہوتا ہے۔ وہ تو اپنے لڑکے کے لئے گویا لڑکی نہیں بلکہ چلتی
پھرتی سونے کی کان خریدنے آئے ہوں۔
ہم اس تمام معاملے میں اس بے چاری لڑکی کے بارے میں اگر سوچیں کے آئے دن
آنے والے مہمانوں کی چبتی ہوئی نظروں کا عتاب وہ کس طرح سہتی ہے اور جہیز
کے نام پر بکنے والی لڑکی لڑکے کے گھر جا کر بھی خوشحال رہے گی اس بات کی
بھی کیا گارنٹی ہے اور ایسے لالچی لوگوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا پہلے جہیز
کے نام پر لڑکی کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے پھر بعد میں اس کو
گھر سے نکال دینے کے ڈر سے۔ بہت سی لڑکیوں کو ان کے سسرال والے اسی بنا پر
زندہ تک جلا دیتے ہیں کہ ان کی ڈیمانڈ لڑکی کے گھر والے پوری نہیں کر پاتے۔
ظالم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی بیٹی کے والدین ہیں۔
معاشرے میں تبدیلی آ سکتی ہے اگر نوجوان نسل چاہے تو سب ممکن ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کو بھی چاہئے کہ اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور
اقدامات کریں۔ جو بھی بے جا جہیز لے اس کے لئے سزائیں مقرر کی جائیں اور
ساتھ ہی ساتھ صرف وہی جہیز دینا مقرر کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے۔
میں ان تمام لوگوں کے لئے دعا گو ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ میری سوچ نہایت
فرسودہ ہے اور جو جہیز لینے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ آج ضرورت اس
بات کی ہے کہ معاشرے سے برائی کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے پہلو پر نظر
ڈالنا ہم سب کا فرض ہونا چاہئے اور جہیز کے لین دین کے اس سلسلے کو روکنے
کے لئے ہمیں خود آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ |