آج صبح سے بہت فکرمند ہوں، فکر
مندی کی وجہ جنرل کیانی کی وہ تصویر ہے جواخبارات میں اُن کےحالیہ سری لنکا
کے دورئے کی ہے۔ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جب سری لنکا سے واپس
آئینگےتو لازمی انکو کراچی ایرپورٹ آنا پڑئے گا اور مجھے خوف اس بات کا ہے
کہ کہیں 12 اکتوبر 1999 کی تاریخ نہ دہرادی جائے، کیونکہ ایک مرتبہ پھر
نواز شریف ہی وزیراعظم ہیں اور آرمی چیف بھی سری لنکا ہی گے ہیں۔ 12 اکتوبر
1999 کی شام کولمبو سے کراچی آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 805 جس میں
200 سے زیادہ لوگ موجود تھے، جن میں عام مسافر، جہاز کا عملہ، جنرل پرویز
مشرف اور انکی بیگم سوار تھے، اُس وقت اور آج کے وزیراعظم نواز شریف نے سول
ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کو فون پر حکم دیا تھا کہ پی آئی اے کی پرواز
پی کے 805 کو کراچی ایئرپورٹ پر نہ اترنے دیا جائے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی
کی جانب سے ہوائی جہازکے کپتان کو حکم دیا گیا کہ ہوائی جہاز کو ملک سے
باہر لے جائے چاہے تو اُس کو ہندوستان کی سرزمین پر اتار دئے۔ لیکن ہوائی
جہاز کے کپتان نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ اس کے پاس زیادہ پیٹرول نہیں ہے
لہٰذا وہ جہاز کو کہیں دور نہیں لےجاسکتا۔ اسی دوران میں فوج نے ایرپورٹ کا
انتظام اپنے ہاتھوں میں لےلیا اورکراچی ایرپورٹ پر مقامی کورکمانڈر جنرل
عثمانی کا قبضہ تھا، انہوں نے جہاز کے کپتان کو حکم دیا کہ وہ کراچی
ایرپورٹ پر جہاز کو اتارئے، تھوڑی دیر بعد کولمبو سے آنے والا جہاز جس کے
پاس اُس وقت صرف آٹھ منٹ کا پیٹرول باقی رہ گیا تھا کراچی ایرپورٹ پر
بحفاظت اترگیا۔ نواز شریف کی غلطیوں کی وجہ سےسابق آرمی چیف جنرل پرویز
مشرف جب ہوائی جہاز سے باہر نکلے تو پاکستان ایک مرتبہ پھر فوج کی حکمرانی
میں چلاگیا اورپھر اگلے نو سال تک جنرل مشرف ملک کے سیاہ و سفید کے مالک
بنے رہے۔پرویز مشرف پاکستان کے چوتھے فوجی سربراہ تھے جو پاکستان کے صدر
بھی رہے۔
نواز شریف جو جنرل مشرف سے پہلے جنرل جہانگیر کرامت کو ان کے ایک بیان کی
پاداش میں ہٹاچکے تھے، 12اکتوبر 1999 کی سہ پہر اچانک اُنہوں نے جنرل پرویز
مشرف کو برخواست کرکے جنرل ضیاالدین بٹ کو ان کی جگہ آرمی چیف بنادیا۔
اوراس کا بار بار سرکاری ٹی وی پر اعلان بھی ہوا۔ جب جنرل ضیاالدین بٹ آرمی
چیف کےتمغےسجاکر ملٹری ہیڈکوارٹر گے تو وہاں فوج کی اعلی قیادت نے انکو
آرمی چیف ماننے سے انکار کردیا اور ان سے کہا گیا کہ اگر وہ ملٹری
ہیڈکوارٹرسے فوری طور نہ گے تو انکو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔ جنرل
ضیاالدین بٹ فوری طور پر واپس وزیراعظم ہاوس پہنچے جہاں فوجی حکام موجود
تھے۔ پہلے نواز شریف سے فوج کی اعلی قیادت نے کہا کہ وہ اپنے فیصلے کو واپس
لیں اور جنرل مشرف کا انتظار کریں مگر نواز شریف نے اس بات کو ماننے سے
انکار کردیا۔ جسکے بعد فوجی حکام آپس میں مشورہ کرنے چلے گےاور شاید اس
درمیان میں ہی نواز شریف نے جنرل مشرف کے ہوائی جہاز کو نہ اترنے دینے کا
حکم دیا۔ جیسے ہی نواز شریف کے اس حکم کے بارئے فوج کی اعلی قیادت کو معلوم
ہوا فوج ایکشن میں آگی اور فوج کی اعلی قیادت نے وزیراعظم نواز شریف سے
مستعفی ہونے کو کہا لیکن نواز شریف نے اس بات کو بھی ماننے سے انکار کردیا
جس کے بعد فوج نے نواز شریف کو اپنی تحویل میں لےلیا اور وزیراعظم ہاؤس
اسلام آباد کا کنٹرول راولپنڈی کے کورکمانڈر جنرل محمود نے اپنےہاتھ میں
لےلیا۔ اب سرکاری ٹی وی پہلے اعلان کے برعکس اعلان کررہا تھا کہ نواز شریف
حکومت ختم ہوگی ہے۔
ایسا کیا ہوا اور کیوں ہوا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت
رکھنے والے نواز شریف اچانک آرمی چیف کو فارغ کرتے ہیں اور جواب میں نہ صرف
وزیراعظم کے عہدئے سے علیدہ کردیئے جاتے ہیں بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے
چلے جاتے ہیں اور آخر میں جلا وطن ہوجاتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کے 2008
میں لائے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کے درمیان بہت جلد
اختلافات منظر عام پر آچکے تھے۔ نواز شریف اور جنرل مشرف کے اختلاف کا اصل
سبب کارگل کا واقعہ ہے۔ نواز شریف بھارت کے ساتھ دوستی بڑھانے میں مصروف
تھے کہ کارگل میں پاکستانی افواج نے بھارت کو سخت پرشانی میں مبتلا کردیا
تھا۔ اس واقعہ کے بعد کارگل کی کامیابی کو نواز شریف واشنگٹن میں ہار آئے،
اسکے علاوہ نواز شریف کی وہ تقریر بھی ریکارڈ پر ہے جس میں انہوں نے
ہندوستان کی ہمدردی میں اپنی ہی فوج پر طنز اور تذلیل سے بھرپور جملے کہے۔
بارہ اکتوبر 1999 کے واقعہ میں جہاں نواز شریف ملوث تھے وہاں انکے والد
مرحوم میاں محمد شریف بھی اسکے ذمیدار تھے۔ میاں محمد شریف ایک کاروباری
انسان تھے اور اتفاق گروپ کے مالکان میں سے ایک تھے۔ اپنے بیٹے نوازشریف کو
سیاست میں بھی وہی لائے اور انکا بیٹا جب وزیراعظم کے عہدئے پر فائز ہوا تو
وہ بہت سے حکومتی فیصلوں میں نظر آنے لگے۔ 1990 سے 1993 تک اور پھر 1997 سے
1999تک جب نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم رہے تو میاں محمد شریف کو پاکستان
کا طاقتور ترین شخص سمجھا جاتا تھا جو پس پردہ رہ کر پاکستانی سیاست کے اہم
فیصلے کیا کرتے۔ اسکی ایک مثال نواز شریف حکومت اورجنگ گروپ میں جولائی
1998 میں جواختلافات ہوے تھے اس کوختم کرنے کےلیے جنگ گروپ کے سربراہ میر
شکیل الرحمان کو میاں محمد شریف کے پاس جانا پڑا۔ جب جنرل پرویز مشرف سری
لنکا میں تھے نواز شریف جنرل ضیاالدین بٹ کو اپنے والد میاں محمد شریف کے
پاس لےگے اور پھر دوسرئے دن بغیرکسی پروگرام کے وہ جنرل ضیاالدین بٹ کو
اپنے ساتھ دوبئی لےگےاور شام کو اسلام آباد پہنچ گے۔ ان دو دن میں سب کچھ
فائنل ہوچکا تھا۔ بارہ اکتوبر 1999 کو یہ تاثر دینے کےلیے سب کچھ نارمل ہے
نواز شریف شجاع آباد گے مگر پھر وہاں اس قسم کا تاثر دیا کہ کوئی ایمرجینسی
ہوگی ہے اسلام آباد لوٹ آئے، کھیل شروع ہوا تو نواز شریف کے حامی خوشی کا
اظہار کررہے تھے اور جنرل ضیا الدین کی بیگم اپنے دروازئے پرکھڑی مٹھائی
بانٹ رہی تھیں مگر جب کھیل ختم ہوا تو نواز شریف کے مخالف مٹھائی باٹنے
لگے۔
قومی اسمبلی میں 24 جون کو سپریم کورٹ کے اس سوال پر کہ کیا مرکزی حکومت
پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانا چاہتی ہے، نواز شریف نےکہا کہ مشرف کو
اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا اور ہماری حکومت اپنے اٹارنی جنرل کے زریعے
سپریم کورٹ کو آگاہ کررہی ہے۔ تین نومبر 2007 کے اصل مدعی خود سپریم کورٹ
کےچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرئے جج ہیں، نواز شریف واقعی یہ
چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف اپنے کیے کا حساب دیں جو پوری قوم بھی چاہتی ہے
اور سپریم کورٹ بھی پنڈورا بکس کھولنے پر راضی ہے تو ایک مرتبہ اس پنڈورا
بکس کو کھول ہی لیا جائے اور لیاقت علی خان سے لیکر نواز شریف تک،جنرل ایوب
خان سے جنرل پرویز مشرف تک اور جسٹس منیر سے لیکر جسٹس افتخا ر محمد چوہدری
تک سب کو اس پنڈورا بکس سے باہر نکالنے کےلیے سپریم کورٹ کو کہیں اور اگر
وہ ایسا نہ بھی کریں تو کم از کم 12 اکتوبر سے جنرل مشرف کے اقتدار تک کا
ہی پنڈورا بکس کھلوادیں۔ عام طور پر کہاجارہا کہ وہ ایسا نہیں کرینگے
کیونکہ انکی اپنی ہی پارٹی کے ختم ہونے کا ڈر ہے اس لیے کہ مشرف کے 80 فیصد
مجنوں جو مشرف کے غیر آئینی اقتدامات میں مشرف کے ساتھ تھے آج انکی پارٹی
کے ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی ہیں اور ان میں کچھ وزرا بھی ہیں۔ چھوڑیں
نواز شریف صاحب آپ کوئی پنڈورا بکس نہیں کھلواسکتے مگر ایک کام اپنے حق میں
ضرور کریں کہ کولمبو سے کراچی آنے والی پی آئی اے کی پرواز جس سے موجودہ
آرمی چیف واپس آرہے ہوں اُسے بخریت اترنے دیا جائے۔ آخر میں ایک مشورہ آرمی
چیف کےلیے بھی ہے کہ خواہ وہ کہیں بھی جایں مگر آرمی چیف سری لنکا نہ جایا
کریں۔ |