درندوں کے درمیان گھرا انسان

میری طرح بہت سارے لوگوں نے بم دھماکوں کو قریب سے نہیں دیکھا ہو گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سارے لوگ میری طرح دھماکوں میں اپنے خالق حقیقی سے ملنے والوں کی لاشوں اور ان دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کی تصویریں بھی دیکھنے سے احتراز کرتے یوں بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہےکہ پوری دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں سے بھی زیادہ ہوگی اللہ تعالٰی تمام انسانوں کو ناگہانی صورت حال سے محفوظ رکھے ۔اگر آپ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں تو ناچاہتے ہوئےء بھی بہت سارے مظلوموں کی تصویریں آپ کی نظروں سےٹکرا جاتی ہیں۔جن کو دیکھ کر شاید ہی کوئی انسان ہو جومظلومیت کی داستان بیان کرتی تصویروں کو دیکھ کر متاثر نہ ہو۔ مجھےسمجھ نہیں آ رہی کہ میں انسانوں کےہاتھوں ہی درندگی کا نشانہ بننے والے کن کن مظلوموں کا ذکر کروں ؟

میرےلیے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ کیا واقعی انسان ہی انسانوں پر ایسی مصیبتوں کے پہاڑڈھا رہا ہے؟

میری طرح ہربا ضمیرانسان ایسےلوگوں کو کسی بھی صورت انسان ماننے کےلیے تیار نہیں جو اپنے ہی ہم جنسوں کو بےدردی سے قتل کر دیتے ہیں۔

کیا میں برما میں مسلماونوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹنے والے انسانی شکل رکھنے والے درندوں کو انسان مان لوں؟

کیا میں علم کی پیاسی قوم کی بیٹیوں کو جلا کرراکھ کر دینے والوں کو انسان تصور کروں؟

اور کیا عراق جیسے مقدس ملک میں آےء روز خود کش دھماکوں کےذریعے بےضرر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والوں کو انسان لکھوں؟

کیا میں پاکستان کے سینکڑوں عوام کےمحافظوں کی جان لینے والوں کو بھی انسان مان لوں؟

کیا پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے با شعور شیعہ لوگوں کے قتل عام میں ملوث لوگ انسان کہلانے کے حق دار ہیں؟

کیا بزدلوں کی طرح کوئٹہ میں بے گناہ ہزارہ شیعوں کو موت کی وادی میں دکھلینے والے درندوں سے بدتر نہیں ہیں؟

کوئی بھی متمدن انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ جب کسی انسانی آبادی میں درندے گھس آییں تو متمدن معاشرے کے لوگ مل کر ان درندوں کو یا توجان سے مار دیتے ہیں تا کہ یہ درندے انسانوں کوگزند نہ پہنچاسکیں یا پھر ان درندوں کو آبادی سے نکال باہر کرتے ہیں۔آج جبکہ یہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اج کی دنیا میں اصل درندے توشاید ہی انسانوں کو کہیں نقصان پہنچاتے ہوں ان کی جگہ اب انسانی شکل رکھنے والے درندوں نے لے لی ہے۔کسی بھی آبادی میں گھس جانے والے درندوں کو مارنے یا ان کو آبادی سے نکالنے کے لیے اس آبادی کے رییس یا سرکردہ فرد کاکردار بڑا اہم ہوتا ہے۔لیکن بدبختی سے ہمارا کلچر اس بات کا گواہ ہے کہ بعض چودھریوں کو درندے پالنےکابڑا شوق ہوتا ہے ہماری بستی کا خود ساختہ چودھری امریکہ بھی ہمارے نمبر داروں اورچودھریوں کی طرح اسی شوق میں مبتلا ہے اسی لیے اس نے درندہ صفت بہت سارے انسان پال رکھےہیں جو دکھنے میں تو انسان ہیں لیکن حقیقت میں درندے ہیں ان درندوں کو آج کل آپ شام فلسطین،برما،پاکستان اور عراق میں انسانوں کا شکار کرتے دیکھ سکتے ہیں۔

آخر میں اس بستی کی قسمت کے مالکوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جسے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اور اس کےحصول کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں لیکن آج اس بستی میں ہم اپنی حفاظت تو کرنے سے قاصر ہیں ہی اب صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ عظیم لوگوں کی اس بستی میں ہمارے مہمان تک محفوظ نہیں ہیں ۔آج نواز شریف اس بستی کے نمبر دار ہیں جو اس بستی کےمکینوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں سے مذاکرات پر زور دےرہے ہیں ہم مذاکرات کے منکر نہیں ہیں لیکن کس کے ساتھ اور کن شرایط پر؟میاں صاحب کی خدمت میں ہم یہی عرض کریں گے کہ خدارا درندوں میں گھرے انسانوں کو بچانے کےلیے کچھ کریں اگر آپ قاتلوں کو مذاکرات کے ہتھیار کے ذریعے سدھا سکتےہیں تو بسم اللہ نہیں تو بے گناہ انسانوں کے قتل میں ملوث قالتوں کو اس بستی سے نکال دیں تا کہ ہماری بستی کے لوگ سکھ کا سانس لےسکیں۔

ibne raheem
About the Author: ibne raheem Read More Articles by ibne raheem: 29 Articles with 30506 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.