سوات میں فوجی آپریشن شروع ہونے
کے بعد گاہے گاہے انیس سو اکہتر کے فوجی آپریشن کا ذکر بھی میڈیا پر آتا
رہتا ہے اور جب اکہتر کے سانحہ کی بات آتی ہے تو دیگر کرداروں کے ساتھ ایک
کردار “البدر“ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہمارے ایک معزز کالم نگار
جناب نذیر ناجی صاحب تو آج کل یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کہ
اکہتر کے سانحہ کی ذمہ دار مذہبی تنظیمیں اور آرمی ہیں جبکہ اس حقیقت کے
حوالے سے ہم اپنے کالم “نذیر ناجی صاحب حقائق کو مسخ نہ کریں“ میں ذکر کر
چکے ہیں اس لیے فی الوقت اس پر بات نہیں کریں گے۔۔ نذیر ناجی صاحب کی طرح
محترم الطاف حسین صاحب بھی اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ البدر و الشمس نے اکہتر
میں اردو بولنے والوں کا قتل عام کیا اور پاکستان توڑنے کی سازش کی- اس وقت
ہم بات کریں گے البدر کے کردار پر۔ البدر کیسے بنی؟ اس کی تاسیس کس نے کی؟
کیا واقعی البدر، جماعت اسلامی اور اسلامی جمیعت طلبہ نے پاکستان توڑنے میں
حصہ لیا؟ کیا البدر دہشت گرد تھے؟ ہم ان سارے سوالوں کا ایک مختصر جائزہ
لیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ پاکستان کی سالمیت اور بھارتی و مکتی باہنی
کی یلغار کو روکنے میں البدر نے اپنے اٹھارہ ہزار کارکنان کی شہادتیں ہیش
کیں۔ یہی اس کی حب الوطنی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
سب سے بڑا الزام ان پر( البدر،الشمس پر ) غداری کا لگایا جاتا ہے اس حوالے
سے میجر ریاض ملک جنہوں نے البدر کو منظم کیا وہ کہتے ہیں کہ “البدر کے
بارے میں کچھ بھی کہنے سے پیشتر میں مختصراً اپنا تعارف کرانا ضرروی سمجھتا
ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ یہ جو میرے خیالات ہیں یہ کسی خاص تنظیم سے
متعلق نہ ہونے کے باوجود ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ایک IMPARTIAL رائے ہی
زیادہ معتبر گواہی ہوتی ہے۔ میرا بچپن ایسے تعلیمی اداروں میں گزرا جن میں
دینی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی- اس کے بعد ایسے اداروں میں
رہا جہاں غالب تربیت فوجی انداز میں دی جاتی تھی اور ان دنوں مولانا مودودی
کی تصانیف پر ہمارے ان اداروں میں خاص طور سے پابندی تھی اس حوالے سے
پاکستان بھر میں ایک عجیب قسم کا پروپگینڈا تھا کہ مولانا اور ان کے ساتھی
ملک کے وفادار نہیں ہیں- انہی خیالات کے ساتھ میں مختلف درس گاہوں میں
پروان چڑھا،جوان ہوا اور پھر پاک فوج میں آگیا۔
خاصا عرصہ گزر گیا پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور کلب کی رنگینیوں میں وقت
گزرتا چلا گیا، نہ کبھی مولانا کی تصانیف کو پڑھنے کی فرصت ملی اور نہ اس
یک طرفہ قائم شدہ نظریے کو پرکھنے کا موقع ملا کہ کیا واقعی ان میں کوئی
ایسی بات ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو ایک چھوٹا سے واقعہ
سناتا ہوں جو مشرقی پاکستان ١٩٧١ میں جنگی مہمات کے دوران میرے سامنے وقوع
پذیر ہوا-
میں ان ایک دریا کے کنارے پاک فوج کی VanguardCompnay کے کماندار کی حیثیت
سے پہنچا اور ابھی اسی خیال میں تھا کہ کہیں سے کشتیاں اکھٹی کر کے دریا کے
پار پہنچنے کی کوشش کی جائے- یہ صبح کا وقت تھا ۔۔۔۔ دیکھا کہ ایک آدمی
دوسری جانب سے دریا میں تیرتا ہوا ہماری جانب آرہا ہے مجھے یاد ہے اس وقت
دریا میں طغیانی تھی اچھا خاصہ پانی تھا -جب وہ صاحب ہمارے قریب تشریف لائے
تو میں نے دیکھا کہ وہ خاصے عمر رسیدہ ہیں اور بنگالی بولنے والے ہیں پہلے
تو میں بڑا حیران ہوا کہ اس عمر میں ان میں اتنی قوت کہاں سے آگئی کہ وہ اس
دریا کی شوریدہ سر لہروں کو چیرتے ہوئے اس کنارے پہنچ گئے- لیکن بعد میں
پتہ چلا کہ یہ کوئی جسمانی قوت نہ تھی بلکہ یہ تو قوت ایمانی تھی، خیر وہ
صاحب آئے اور کہا آپ اس دریا کے پار جانا چاہتے ہیں مگر ذہن میں رکھئے اس
سامنے والے کنارے پر جو جنگل ہے اس میں ایسٹ بنگال رائفلز کے باغیوں اور
بھارتی فوج کے تعاون سے ملک دشمن عناصر نے مورچے قائم کیے ہوئے ہیں- میں کل
رات سے اس طرف آنے کی کوشش میں تھا لیکن ان کی طرف سے خاصی ناکہ بندی تھی
جس کے باعث میں آنے میں کامیاب نہ ہوسکا یہ بات بھی پیش نظر تھی کہ اُس
جانب سے انکی یا اِس جانب سے آپ کی گولی کا نشانہ بھی بن سکتا ہوں مگر پھر
ایمان نے اکسایا اور ارادہ کیا کہ شاید پار پہنچ جاؤں وطن کی کچھ خدمت
کرجاؤں اور بڑی جدو جہد کے بعد الحمد للہ اس کنارے آپہنچا ہوں -مجھے صرف
اتنا بتانا ہے کہ آپ اس طرف جائیں تو بڑی احتیاط سے جائیں اور اس جنگل میں
تخریب کاروں کی کمین گاہ کو بھی نگاہ میں رکھئے۔
یہ کہہ کر وہ صاحب چلے گئے، ہمارے لیے فوجی نقط نگاہ سے وہ یہ خبر بہت اہم
تھی - اس کے بعد جو مناسب کاروائی تھی وہ ہم نے کی اور دشمن اس جنگل سے بری
طرح نقصان اٹھا کر بھاگ نکلا ۔۔۔۔ بعد میں مجھے اپنے اس محسن کے بارے میں
ایک دوسرے ذریعے سے معلوم ہوا کہ وہ صاحب جماعت اسلامی کے رکن تھے!۔ یہ
پہلا موقع تھا جب مجھے احساس ہوا اگر یہ ہستیاں ہیں جن کے خلاف میں بچپن سے
لیکر اب تک پروپگینڈا سنتا رہا ہوں، اور ایسے گروہ کا ایک شخص پاکستان کی
بقاء کے لیے ایسی طغیانی کے عالم میں دریا میں کود پڑتا ہے اور اپنے ملک سے
عہد وفا نبھانے کے لیے موت کے خوف سے بے نیاز ہوجاتا ہے اگر یہ فرد اس گروہ
میں سے ہے جسے غدار کہا جاتا ہے ! تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں وفادار
کون ہے؟؟گویا یہ پہلی چنگاری تھی جو اس روز میرے سینے میں روشن ہوئی۔
آگے چلیے مشرقی پاکستان کا ایک چھوٹا سے سرحدی گاؤں غالباً باوت کلاں ہے۔
ہم وہاں پہنچے،گاؤں میں بہت سے لوگ اکٹھے ہوئے اور محبت سے ملے ان میں ایک
عورت اپنے معصوم بچے کو میری بانہوں میں ڈال کر کہنے لگی “صاحب وعدہ کریں
کہ جب یہ بڑا ہوگا تو آپ اس کو فوج میں لے لیں گے“ میں حیران تھا کہ اس بات
کا کیا جواب دوں - ایک بزرگ نے وہ بچہ مجھ سے لیا اور واپس ان خاتون کو
دیتے ہوئے احترام سے کہا “ بیٹی آپ گھر جائیں ۔۔۔ مجھے بتایا گیا کہ اس
خاتون کے والدِ محترم جماعت اسلامی کے رکن تھے اس کا خاوند بھی جماعت
اسلامی سے متعلق تھا اور بھائی اسلامی چھاترو شنگھو ( اسلامی جمیعت طلبہ )
کا کارکن تھا، یہ سب مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں، اب اس کی کل
کائنات یہ بچہ ہے“۔
میں یہ سن کر کانپ اٹھا میں نے اس وقت بھی یہی سوچا اور آج بھی سوچتا ہوں
کہ کاش اس ملک کی ساری مائیں ایسی ہوجائیں- سب مائیں اپنے بچوں کو اس لیے
پروان چڑھائیں کہ وہ دین اور ملت اسلامیہ اور ملک عزیز کی بقاء و سلامتی پر
نثار ہونے کے لیے بڑے ہوں ( میجر ریاض حسین ملک کتاب البدر کی تعارفی تقریب
میں خطاب )
قارئین یہ الفاظ میرے یا کسی ہم خیال کے نہیں نہ ہی یہ کسی جماعت اسلالمی
کے رکن کے خیالات ہیں بلکہ یہ اس شخص کےالفاظ ہیں جس نے اکہتر کی جنگ میں
ساری صورتحال کو دیکھا تھا، جو میدان جنگ میں تھا، اور جنگ میں سب چیزیں
کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوجاتی ہے۔ اس لیے جو لوگ
جماعت اسلامی کو غدار یا ملک توڑنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں یا تو وہ ماضی
قریب کی تاریخ سے یا تو بالکل ناواقف ہیں یا انتہائی بد دیانت ہیں کہ جان
بوجھ کر اصل حقیقت لوگوں تک نہیں پہنچاتے ہیں
( جاری ہے ) |