غریب ہونا بھی جرم بن گیا

ان گنت خیالوں میں کھوئی اپنے دفتر کی جانب رواں دواں تھی کہ اچانک ٹیکسی والے نے بریک لگائی تو سارے خیالات منتشر ہو گئے ۔سامنے سڑک خراب تھی اس لئے اس نے گاڑی کی رفتار دھیمی کر لی تھی ، اسی دوران میں پھر خیالوں کی وادیوں کی سیر کرنے لگی تو یکدم ڈرائیور نے مجھ سے پوچھ ڈالا میڈم ہم غریب جائیں تو جائیں کہاں ؟ پہلے تو مرنا بھی آسان تھا اب تو موت کو گلے لگانا بھی مشکل ہو گیا ، کفن دفن اور کھانے کے اخراجات تو 50,000 کو بھی عبور کر جاتے ہیں ، سمجھ نہیں آتی کہ کریں تو کیا کریں ؟ میڈم جینا بھی مشکل سے مشکل تر ہونے لگا ہے، بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا سر شام جب گھر کی دہلیز پار کر تا ہوں تو سامنے روتے بلکتے معصوم بچے حسرت بھری نظروں سے جب میرے خالی ہاتھوں کو دیکھتے ہیں تو اس وقت جگر چھلنی ہو جاتا ہے۔جینے کی ساری ا منگیں دم توڑ جاتی ہیں ، میڈم غریب ہونا بھی اس ملک میں جرم بن گیا ہے ۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر میرے سارے خیالات ہوا میں اڑ گئے اور میں حیران و پر یشان ہو گئی۔ ڈرائیور پھر گویا ہوا اور کہنے لگا ۔ بچوں کی معصوم خواہشات جب پوری نہیں ہو تیں تو عین اس لمحے میں موت کی وادیوں میں چلا جاتا ہوں ، ہر روز میں سر شام مر جاتا ہوں ، صبح ایک نئے جذبے سے نکلتا ہوں کہ آج اپنے جگر گوشوں کے سارے خواب شر مندہ تعبیر کر کے گھر لوٹوں گا لیکن شام تک وہ خواب بکھرنے کیساتھ ساتھ میری روح بھی تڑپ جاتی ہے۔ میں خاموشی سے اس کی ساری باتیں سنتی رہی ، وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ اس کی گفتگو جاری تھی کہ منزل مقصو د آن پہنچی ، اسے کرایہ دیکر میں جلدی جلدی اپنی کلاس کی جانب چلنے لگی ، کلاس میں پہنچتے ہی میں لیکچر شروع کر دیا لیکن ذہن کے کسی کونے میں اس ڈرائیور کی یہ بات بار بار کھٹک رہی تھی کہ اب تو مرنا بھی مشکل ہو گیا ، لیکچر کے دوران میری توجہ اس کی باتوں کی جانب ہو جاتی بڑی مشکل سے لیکچر ختم کر کے کلاس روم سے باہر نکلی تو پھر اس ڈرائیور کی باتوں پر میں نے غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ واقعی وطن عزیز میں حالات آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں غریب کیلئے جینا اور مرنا دونوں مشکل ہو چکے ہیں ۔ اشرافیہ ہر گزرتے دن کیساتھ امیر سے امیر ہوتی جا رہی ہے اور غریب سے جینے کا حق بھی چھینا جا ر ہا ہے ۔ کوئی بھی نہیں جس کو غریب کا خیال ہو ، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ لوٹ مار کر کے راتوں رات امیر بن جائے ۔

حکمران اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر خواب خر گوش کے مزے لے رہے ہیں ۔ کہیں مائیں اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں تو کہیں کوئی غریب خاندان کی کفالت کیلئے اپنے گردے بیچ رہا ہے ۔ تاریخ شائد ہے کہ اتنی بے حسی کبھی کسی نے نہیں دیکھی جتنی آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔ لوٹ ،مار ، حرص اور دولت کی ہوس نے ہمیں اندھا بنا دیا ، ہم نے پیسے کو قبلہ و کعبہ بنا ڈالا ہے ۔ ایسے میں ہر گزرتے دن کیساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ پستی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ معاشرہ کے تمام مکاتب فکر بھی دولت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں کوئی اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہا کہ ہم زلت اور پستی کی ان گہرائیوں کو چھو رہے ہیں جن کا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا، علمائے کرام ، دانشور اور میڈیا کے اکابرین سب نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے ، کوئی بھی حکمرانوں کو سمجھنے والا نہیں ، کوئی توآگے بڑھے اور کم از کم یہ تو اسلام اآباد کے بلند و بالا محلات کے مکینوں کو بتلا ڈالے کہ اسلامی ریاست میں دجلہ و فرات کے کنارے بھوکے کتے کے مر جانے کا ڈر خلیفہ کو سونے نہیں دیتا تھا اورآج لاکھوں لوگ بھو ک و افلاس کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن کوئی اس جانب توجہ دینے کو تیار ہی نہیں ۔ اگلی کلاس کا وقت ہوا تو مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ اس ڈرائیور نے جو کہا آج وطن عزیز کے ہر غریب کو اس مسئلے کا سامنا ہے ، غریبوں کیلئے جینا اور مرنا مشکل ہو گئے ہیں ، میں اس عزم مصم کیساتھ کلاس روم کی جانب بڑھنے لگی کہ کچھ بھی ہو جائے اپنے پیارے لوگوں کی غربت ختم کرنے اور ان میں جینے کی امنگ پھر پیدا کرنے کیلئے میں دن رات ایک کر دوں گی ، چاہے مجھے اس کیلئے کوئی بھی قربانی دینا پڑے تو دریغ نہیں کروں گی ۔ آج جو سوچ مجھ میں پروان چڑھی آنے والے کل وطن عزیز کے ہر نوجوان کا زہین اسی سوچ کا عکاس ہو گا ۔
اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 275296 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More