شادی خانہ آبادی کانام ہے مگر
بسااوقات یہ بربادی کاسامان بھی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ ایسی ایسی رسومات شادی
میں درآئی ہیں کہ شادی نہ ہوئی مسئلہ کشمیر ہوا۔ سالہاسال سے تیاریاں کی
جارہی ہوتی ہیں،غریب طبقہ ناک کٹ جانے کے خوف سے قرضوں پر قرضے لے کر اپنی
خواہشات کی تسکین کرے گا۔ یہ تو ہوئی شادی سے پہلے کی بے وقوفیاں، دعوت
ولیمہمیں ایسی خرمستیاں کرتے ہیں کہ بے چارے دولہاکو ظلم سے دوہرا کردیتے
ہیں۔
ایک بارات کی کہانی ہے، قوم میں رسم تھی بارات کے دن دولہا کو اٹھاکر زمین
پر پٹخ دیتے تھے، اس دولہا کی جوشامت آئی، ہنسی خوشی سولی پر لٹکنے کو تیار
ہوا، شاید مکافات عمل تھاجوراضی برضاکررہاتھا، اپنے یاردوستوں کے نرغے میں
آیا، انہوں نے مل کر اٹھایااور پوری قوت سے ننگی زمین پر دے مارا، دولہاکی
ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ساتھ جسم کے جوڑجوڑ ہل گئے، درد کاماراچارپائی سے لگ
گیا، ایک ماہ علاج ومعالجہ ہوتارہا، اس کے بعد اپنی دولہن کا مکھڑادیکھے
بنادوسرے عالم کوچ کرگیا۔
ایک دوست کی دودن بعد شادی تھی، اس نے کسی دورر دراز دوست کے ہاں جانے کی
فرمائش کی، وجہ پوچھنے پربتایایہاں رہ کر اپنے آپ پر انڈوں اور ٹماٹروں کی
بارش نہیں برسوانا چاہتا ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے انڈے تو انتہائی نرم ہوتے ہیں
اس سے کیا ڈرنا، زیادہ سے زیادہ کپڑے گندے ہوجائیں گے، کوئی با ت نہیں
دھولیں گے۔ وہی شخص ایسی بات کرے گا جس نے انڈے کھائے ہیں کسی اور سے
کھلوائے نہیں، آزماکر دیکھیں پتھر سے زدہ سخت نہ ہوئے توتین چارانڈوں سمیت
عابدی کے پاس چلے آنا۔
الحمدﷲ اس ہندوانہ رسوم ورواج کے دور میں بھی سنت نبوی سے مزیّن شادیاں
ہوتی ہیں جس کی برکت سے پوری زندگی رب کی رحمتیں سایہ فگن رہتی ہیں، جیون
کے ساتھی خوش وخرم زندگی کی گاڑی چلارہے ہوتے ہیں۔ ایسی ہی دوشادیاں ایک دن
کے وقفے سے منعقد تھی۔ چوبیس جون کوحافظ محمد سجاد کی اور پچیس کو حافظ
محمد عبدالجبار کی۔حافظ سجاد کاتعلق علمی گھرانہ سے ہے، ان کے دادامولانا
زین العابدین ؒ جامعہ اشرفیہ امدادیہپشاورکے شیخ الحدیث،دارالعلوم دیوبند
کے فارغ التحصیل اور شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان زید مجدہ کے ہم سبق
تھے۔مولانازین العابدین کے دو بھائی مولانا سراج الحق اور مولانا معزالحق
بھی دارالعوم دیوبند کے فیض یافتہ تھے۔ مولانا معزالحق جامعہ عربیہ ٹل کے
شیخ الحدیث کے مسند پر فائز تھے۔1430 ھ بمطابق2009ء میں انہوں نے داعیٔ اجل
کو لبیک کہا۔حافظ محمدکے والد مفتی عبدلجبار صاحب بھی علاقہ کی مشہور شخصیت
ہیں،مدرسہ اشرفیہ امدادیہ میٹروول سائٹ کے مہتمم ہیں، اپنے علاقے میں دینی
حوالہ سے کسی نہ کسی کام میں منہمک رہتے ہیں، ختم نبوت اور فلاحی کاموں میں
ان کا بڑانام ہے، آج کل اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے چالیس
روزہ سمر کیمپ کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ دونوں نیک نام خاندان نے شادی
کی تقریب میں بھی اپنی نیک نامی کی لاج رکھی، شادی سادگی سے منعقد کرکے
دوسروں کے لیے مثال قائم کردی۔ عموماًیوں ہوتا ہے دینی گھرانہ بھی ایسے
موقعوں پر خوف خدابھلابیٹھتاہے۔
حافظ سجاد احمد کی دعوت ولیمہ میں ایک خوشگوار اور افسوسناک واقعہ
رونماہوا۔بھلاخوشگوار اور افسوسناک کی تضاد کیسے؟آئیے ملاحظہ کرتے ہیں۔حافظ
صاحب کے بھائی محمد ابراہیم کاخامہ فرسائی کے حوالہ سے مولانا شفیع چترالی،
خالد عمران، عنایت الرحمن شمسی اور جاوید اختر سے تعلق خاطر تھا، عقیدت سے
ان کو دعوت ولیمہ میں مدعوکیا۔ چاروں میں سے کسی کو بھی جگہ معلوم نہیں
تھی، خالد عمران اپنی موٹرسائیکل پر اور وہ تینوں ایک ساتھ گاڑی میں روانہ
ہوئے، چند ساعات ساتھ چلنے کے بعد ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، موبائل فون
پررابطہ ہوا، مولانا شفیع چترالی کی جماعت ٹریفک میں پھنس گئی تھی،چترالی
صاحب نے خالد بھائی سے کہاشاید ہم نہ پہنچ سکیں آپ ہماری طرف سے نمائندگی
کردیجیے گا، خالد بھائی نے جواب دیا صرف نمائندگی نہیں کھانابھی آپ کی طرف
سے کھالوں گا،قریب پہنچ کر ابراہیم کو جگہ بتائی، اس نے افسوس سے کہا آپ تو
آگے نکل گئے ہیں، اتنے میں چترالی صاحب کی جماعت پہنچ گئی،شمسی صاحب نے فون
پربتایاچوک میں مٹھائی کی دکان کے پاس کھڑے ہیں، ابراہیم نے موٹر سائیکل پر
جلد جاکر ان کو دعوت والی جگہ پہنچایا۔ چترالی صاحب نے کھانے پرخالد بھائی
کا پوچھا، ابراہیم نے بتایاوہ تو آگے نکل گئے ہیں ، یہ سن کر چترالی صاحب
ہنس پڑے، قریب بیٹھے مولاناولی خان المظفراور مولانا عزیزالرحمن عظیمی کو
مخاطب کرتے ہوئے کہایہ تو کچوے اور خرگوش والا قصہ ہوگیا، ہم کچوے کی چال
پہنچ گئے اور وہ تیزی سے آگے نکل گئے۔ کچھ دیر بعد پھر خالد بھائی سے رابطہ
ہوا، انہوں نے بتایامیں باب خیبر کے پاس سی این جی پمپ میں کھڑاہوں،محمد
ابراہیم نے انہیں باب خیبر آنے کا کہاتھا، جب ان کا میسج آیاتووہ پورا میسج
پڑھے بناباب خیبر کے پاس موٹر سائیکل دوڑاکر پہنچ گیا،اب خالد بھائی باب
خیبر کے پاس کھڑے ہیں اور ابراہیم بڑی انہماک سے انہیں باب خیبر تلے ڈھونڈ
رہے ہیں۔ خالد بھائی کو فون ملایا، چارج ختم ہونے کی وجہ سے موبائل بند
تھا،قریب لوگ نماز پڑرہے تھے، ان میں دیکھا،ندارد،مسجد کے باہر دیکھا، نام
ونشان نہیں،دوبارہ نمبر ملایا، بدستور آف تھا، آخر ناامید ہوکر واپس گھر چل
پڑا۔
اب خالد بھائی کاماجراسنیے۔ انہوں نے اسی مسجد میں عشاء کی نماز پڑھی جس کے
باہر ابراہیم انہیں تلاش کررہاتھا،باہر نکل کرایک شخص سے اپنی سم ڈالنے کے
لیے موبائل مانگا، اس نے انکار کردیا، کراچی کے خوفناک ماحول میں انجانے
فرد پر بھلا کون اعتبار کرتا ہے، موبائل کمیونیکیشن دکان جاکر کسی طرح
ابراہیم کوفون ملایاجو مست ملنگ خالدبھائی کی طرف سے مایوس اپنے بھائی کی
شادی میں مصروف تھا، کافی دیر انتظار کے بعد خالد بھائی اپنے گھر چل دیے۔
ادھر ابراہیم نے فارغ ہوکر فون اٹھایاتوخالد بھائی کے فون اور میسج آئے
ہوئے تھے، انتہائی ندامت سے خالد بھائی کوفون کرکے معذرت کی، انہوں نے اپنے
چوڑے سینے کی طرح وسعت قلبی کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا’’کوئی بات نہیں، رزق
جہان نہ لکھاہو وہاں کوئی نہیں کھاسکتا، ایک پٹھان کی شادی میں پنچابی گیا
اور بغیر کھاناکھائے واپس آگیا‘‘۔
تفنّن برطرف!اگر ہم چاہتے ہیں ہماری شادیاں خیریت سے ہوں، پوری زندگی برکات
کے حصول میں گزرے تو ہمیں احتیاط کادامن تھامناہوگا، بلاشبہ شادی خانہ
آبادی کانام ہے مگر بسااوقات یہ بربادی کاپیغام بھی ساتھ لاتی ہے،اب یہ ہم
پر منحصر ہے ہم اپنے پیارے نبیصلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقے اپناکراس اہم کام
کوانجام دے کر اپنی شادیوں کوخانہ آبای کاپروانہ جاری کرتے ہیں یاہندوانہ
اور گناہوں سے لتے رسومات اپناکر خانہ بربادی کاعلم بلند کرکے اپنے پاؤں پر
کلہاڑی چلاتے ہیں۔ |