اگر آپ کے ذہن میں یہ گمان پایا جاتا ہے کہ امریکیوں کا
ضمیر مُردہ ہوچکا ہے یا سوگیا ہے تو فوراً اِس گمان کا گلا دبا دیجیے۔
امریکیوں نے ثابت کردیا ہے کہ اُن کے سینوں میں بھی دِل ہیں اور وہ دھڑکنا
بھی جانتے ہیں۔ آپ سوچیں گے ایسا کیا ہوگیا کہ اچانک امریکیوں کے سینوں میں
دِل بھی نکل آئے اور وہ دھڑک بھی رہے ہیں۔
1960 کے عشرے میں فلم ”چُھو منتر“ کے لیے محمد رفیع مرحوم کا گایا اور
بدرالدین قاضی مرحوم (جانی واکر) پر فلمایا ہوا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا تھا
جس کے بول تھے
غریب جان کے ہم کو نہ تم مِٹا دینا
تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا!
امریکی ماہرین نے بھی شاید یہ نغمہ سُن لیا اور درد کی دوا تیار کرڈالی!
اُصول کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ جس نے مشکل پیدا کی ہو وہی اُسے آسان بھی
کرے۔ امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں ساری دنیا میں خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔
ان خرابیوں نے کئی اقوام کو تباہ کیا ہے اور لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد
شدید اذیت سے دوچار ہوئے ہیں۔ اِس اذیت کے ازالے کے لیے اب امریکی ماہرین
ہی آگے بڑھے ہیں۔
میری لینڈ یونیورسٹی میں مینٹل ہیلتھ گروپ کے ماہرین نے ایک ایسی گولی تیار
کی ہے جو ماضی کی تلخ یادوں سے چُھٹکارا پانے میں غیر معمولی حد تک معاون
ثابت ہوگی۔ پروفیسر کیٹ فرین ہالٹ کا کہنا ہے کہ بہتر زندگی بسر کرنے کے
لیے اِس گولی کا استعمال ناگزیر ہے۔ قتل و غارت، تشدد اور بچپن کی دیگر تلخ
یادوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں یہ گولی جادو کا سا اثر دِکھائے گی۔
ایک زمانے سے امریکا ساری دنیا کو دُکھ دینے کے ”مِشن“ پر ہے۔ امریکی خارجہ
پالیسی اور عسکری مہم جوئی کی حکمتِ عملی ترتیب دینے والوں پر لازم تھا کہ
متنازع پالیسی اور اعصاب شکن حکمتِ عملی سے پیدا ہونے والی تلخ یادوں کے
تدارک کی بھی کوئی صورت نکالی جاتی۔ اور وہ صورت اب نکال لی گئی ہے۔ یعنی
امریکا صرف جان سے مارنے والی گولیاں نہیں بناتا بلکہ سُکون بخشنے والی
گولیاں بھی تیار کر رہا ہے۔
امریکیوں نے جنہیں بہت دُکھ دیے ہیں، جن پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے اُن کے
لیے اِس گولی کی مدد سے کچھ آسانی پیدا ہوگی۔ وہ بھی امریکا بہادر کی دی
ہوئی تلخ یادوں سے دامن چُھڑا کر کچھ دن سکون سے جی سکیں گے۔ جنرل (ر) خالد
محمود عارف نے کہا تھا
یہ بھی اُس کی مہربانی ہے کہ وہ
مار تو دیتا ہے، تڑپاتا نہیں!
اہلِ جہاں سمجھ بیٹھے تھے کہ امریکا کو صرف دُکھ دینا آتا ہے، وہ مسائل
پیدا کرنے ہی کا ہنر جانتا ہے۔ امریکا واحد ہی نہیں، مہربان قسم کی سُپر
طاقت ہے۔ کِسی بھی سُپر پاور کا سب سے بڑا کمال یہ ہوتا ہے کہ کمال تیزی سے
مارتی ہے یعنی فریقِ ثانی کو جان سے جانے میں دیر نہیں لگتی یعنی تکلیف
تادیر نہیں رہتی۔ ہاں، کم بخت تلخ یادیں باقی رہ جاتی ہیں اور بدنامی کا
باعث بنتی ہیں۔ بعض سخت جان قسم کے مخالفین زندہ رہ جاتے ہیں اور تلخ اور
گھناؤنی یادوں کے ساتھ زندگی بسر کرکے واحد سپر پاور کی (مزید) بدنامی کا
باعث بنتے ہیں۔ اچھا ہے کہ امریکی ماہرین نے اِس معاملے کو نظر انداز نہیں
کیا اور بہت سے حریفوں کے ساتھ ساتھ پریشان کرنے والی یادوں کا بھی ٹنٹا
ختم کرنے کی ٹھان لی۔ اب امریکی پالیسی میکرز نے سکون کا سانس لیا ہوگا کہ
اگر ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے کچھ لوگوں کے ذہن میں تلخ یادیں پھنس بھی
جائیں تو کوئی غم نہیں۔ چند گولیاں نگلیے اور بھول جائیے کہ امریکا نے کیا
کیا تھا!
مانا کہ امریکا سپر پاور ہے، ظلم ڈھانے کا شوقین ہے مگر بھئی ”بڑپّن“ کے
بھی تو کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب امریکیوں کے بارے میں کہا
جاتا تھا
خوب کرتے ہیں یہ بیمارِ محبت کا علاج
درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دیتے ہیں!
جس سے درد بڑھتا ہی رہے وہ دوا دینے کا زمانہ لد گیا۔ اب درد کی شدت کم
کرنے پر زور ہے۔ واحد سپر پاور آخرِ کار تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ سپر
پاور کے ظلم و ستم سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کے دلوں کو کچھ قرار دینے کی راہ
نکالی جارہی ہے۔
تلخ یادوں کی شِدّت کم کرنے کی گولی کوئی ایسی انوکھی چیز بھی نہیں۔
واشنگٹن کی سرپرستی میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں بھی تو طویل مدت
سے یہی کام کرتی آئی ہیں۔ ایک ہاتھ سے زخم لگاکر دوسرے ہاتھ سے مرہم لگانا
اِسی کو تو کہتے ہیں۔ اگر تباہی سے دوچار کردیا ہے تو تعمیرِ نو کے نام پر
کچھ امداد بھی دے دی جائے۔ سُپر پاورز کے لیے زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں
ہیں!
اب امریکیوں نے تلخ یادوں سے نجات دلانے والی گولی تیار کرہی لی ہے تو اِسے
بڑے پیمانے پر تقسیم کرنے کا بھی اہتمام کرے۔ افغانستان، عراق، ویتنام اور
نکارا گوا میں تو اُسے یہ گولی تیار کرنے کے پلانٹ لگادینے چاہئیں! ان
ممالک میں قدم قدم پر تلخ یادیں بکھری پڑی ہیں اور اِن کی کوکھ سے امریکا
کے لیے شدید نفرت جنم لے رہی ہے۔ اگر زیادہ گولیاں تیار کرکے تقسیم کرنا
مہنگا پڑے تو سستا اور آسان سودا یہ ہے کہ کمزور اقوام کو تباہ کرنے اور
کروڑوں افراد کے ذہنوں میں تلخ یادوں کے بیج بونے سے گریز کرے! یہ شاید
امریکا بہادر کے لیے کوئی آسان معاملہ نہیں۔ یعنی گولیوں کی پیداوار بڑھائے
جانے کی توقع رکھنی چاہیے!
اور جناب، ماضی کی تلخ یادوں سے چُھٹکارا پانا خود امریکیوں کا بھی تو
مسئلہ ہے۔ جو دوسروں کے لیے گڑھے کھودتا ہے وہ خود بھی تو کبھی اُن میں
گرتا ہے۔ مور جب ناچتے ناچتے اپنے پیروں کی بد ہیئتی دیکھتا ہے تو روتا ہے۔
اب ہمارے مور کو بھی اپنے بد ہیئت پیروں کا خیال آیا ہے۔ جو کچھ امریکیوں
نے اہل جہاں اور بالخصوص کمزور اقوام کے ساتھ کیا ہے اُس کے نتیجے میں خود
اُن کی نفسی ساخت بھی تو متاثر ہوئی ہے۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ ضمیر تو مجرم کا
بھی ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اُسے مسلسل خوابیدہ رکھتا ہے۔ نکاراگوا،
ویتنام، کوریا، افغانستان اور عراق میں امریکیوں نے جو کچھ کیا اس پر ان کا
اپنا ضمیر بھی تو ملامت کرتا ہوگا۔ اور پھر یہ بھی تو ہوا ہے کہ کہیں کہیں
تو امریکیوں نے اوکھلی میں سَر دیا ہے اور ”آ بیل مجھے مار“ والی کیفیت
پیدا کی ہے۔ یعنی امریکیوں نے تلخ یادیں صرف بخشی نہیں، اپنے لیے پیدا بھی
کی ہیں! سُپر پاورز کے یہی اطوار ہوا کرتے ہیں۔ ضیاءجالندھری مرحوم نے خوب
کہا ہے
اُفتادِ طبیعت سے اِس حال کو ہم پہنچے
شِدّت کی محبت میں شِدّت ہی کے غم پہنچے!
امریکی پالیسی میکرز کو اب اندازہ ہوچکا ہے کہ شِدّت کے بطن سے شِدّت ہی
ہویدا ہوا کرتی ہے۔ بُرائی کا نتیجہ بُرائی ہی کی شکل میں برآمد ہوا کرتا
ہے۔ اچھا ہے کہ کبھی کبھی گریبان میں جھانک لیا جائے۔ اِس طرح اپنی حدود کا
تھوڑا بہت احساس تو زندہ رہتا ہے۔ |