غَرَبت القمر

لطافت نعیم شیخ ۔کراچی

ٓٓٓٓآہ! ٓسمان ِ علم و عمل کا ایک اور چاند غروب ہو گیا۔آج بروز اتوار بعد از مغرب جب پیر کے مبارک دن کی ابتدا ہو چکی تھی اپنے محبوب نبی کی سنتوں پر قدم قدم پر عمل کرنے والا اور کثرت سے یہ شعر پڑھنے والا
؂ نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اﷲ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

اپنے حبیب سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اسی دن ان سے ملنے کے لئے رخت سفر سمیٹ چلا جس دن اسکے محبوب ﷺ تشریف لے گئے تھے۔

حضرت کی طویل بیماری کے دوران قریبا ۲ بار یہ خبر پہلے بھی پھیلی تھی کہ حضرت ہمیں چھوڑ چلے ہیں لیکن وہ بے بنیاد تھی سو آج بھی خبر سن کر ایسا ہی لگا کہ شاید کچھ دیر میں تردید آجائے لیکن انتظار ، انتظار ہی رہا اور جنازے کا اعلان ہو گیا۔پھر تو جو اشک کا سمندر بہا ہے دل کسی طرح قبول ہی نہیں کر پا رہا کہ حضرت جی اب ہم میں نہیں رہے۔لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کو قبول کرنا بھی ضروری ہے۔
مَوتُ العالِم مَوتُ العالَم ۔ اس جملے کی حقیقی تشریح آج سمجھ آئی ہے واقعی آج ایسا لگ رہا ہے جیسے پورے عالَم کی موت ہو گئی فضائیں سوگوار ہیں ہواؤں میں ماتم کی سی آواز محسوس ہوتی ہے ایسی یتیمی محسوس ہو رہی ہے کہ آج سے پہلے کبھی نہ ہوئی۔جب سے حضرت والا سے اصلاحی تعلق قائم کیا تھا ایسا لگتا تھا ہر مسئلے کا حل مل گیا حضرت جی کو خط لکھا جواب میں حل عنایت فرمادیا اور مسئلہ گویا کبھی تھا ہی نہیں۔ یہ ہے اﷲ والوں کی شان حضرت سے دعا کروانا تو گویا کسی بھی مسئلہ کو ختم کرنے کا آخری حل ہوا کرتا تھا بقول مفتی امداداﷲ بن حماداﷲ شیخ (بارک اﷲ فی علمہ وعملہ وعمرہ) جو کہ حضرت کے خاص محبین میں سے ہوتے ہیں جنکا فراغت کا زیادہ تر وقت حضرتِ والا کے قدموں میں خاموش بیٹھ کر ان کو سنتے اور خدمت کی سعادت حاصل کرتے ہوئے گزرتا تھا اکثر فرماتے ہیں کہ حضرت والا کے پاس بیٹھ کر میں نے جن انوارات و برکات کو نازل ہوتے محسوس کیا ہے وہ کبھی زبان سے بیان نہیں ہوسکتے ایک عجیب سکینت تھی جو ان کے قدموں میں بیٹھ کر روح کو سیراب کیا کرتی تھی۔حضرتِ والا کے پاس اگر کوئی دعا کے لئے پہنچ گیا اور حضرت نے حاضرین محفل سے اپنا مخصوص جملہ کہہ دیا جو وہ خاص دعا کرتے وقت ارشاد فرماتے تھے ــ کہ ’چلو بھئی دعا کرتے ہیں‘ فرماتے ہیں بس ہمیں کامل یقین ہوجایا کرتا تھا کہ اس شخص کی مراد پوری ہوگئی اور ہوتا بھی یہی تھا پھر ۔اﷲ اﷲ حضرت والا کی شان ۔ سفر میں ہوتے یا حضر میں ہر پل ہر لمحہ لوگوں کو اﷲ سے جوڑنے میں مصروف رہتے تھے شاید جتنا زیادہ بد نظری کے خلاف حضرتِ والا نے کام کیا ہے دورِ حاضر میں شاید ہی کسی نے اتنا کام کیا ہونیز گھروں میں ہونے والے جھگڑوں کی بنیاد جن مسائل پر ہوتی ہے ان پر بھی حضرت نے خوب محنت کی اور کماحقہ کی ۔سب سے زیادہ محنت ان موضوعات پر کی بد نظری ، اغلام بازی ، امرد پرستی ، عشق مجازی وغیرہ۔اﷲ میرے شیخ محترم کو جنت میں اپنے محبوب نبی ﷺ کے پاس جگہ دے حضرت والا نے خواتین کی اصلاح کے لئے بھی متعدد کتب لکھیں خصوصا ’روح کی بیماریاں اور ان کا علاج‘ کے عنوان کے تحت جو کتاب لکھی اسمیں تمام روحانی بیماریاں یعنی حسد ،بغض،کینہ ،جہالت،تکبر،غیبت، حب جاہ،خود پسندی ، حب الدنیا ان تمام بیماریوں کے نقصانات پھر ان کا علاج بتا کر آخر میں حلاوتِ ایمان کی حلوت و مٹھاس کو بڑے میٹھے انداز میں بیان فرمایا ہے ۔
ہواؤں میں اڑنا نہ پانی پر چلنا بس سنت کے سانچے میں ڈھلنا
یہی کچھ سکھاتے تھے حضرت میرے یہی کچھ تھیں کرامات ان کی

مزید یہ کہ مدرسہ بھی قائم فرمایا جہاں بچیوں کو تعلیم کے ساتھ تربیت بھی دی جاتی ہے اور ایک طویل عرصے سے عصری تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے تاکہ ایک لڑکی باعمل عالمہ حافظہ بن کر نکلے تو دنیاوی تعلیم سے بالکل نابلد ہونے کی وجہ سے کبھی ترقی پسندوں کے لعن طعن نہ سہنے پڑجائیں۔

حضرت والا نے ایک ٹرسٹ بھی قائم فرمایا جہاں سے ان لوگوں کی خوب سرپرستی فرمائی جن سے بڑے بڑے دیندار لوگ کتراتے ہیں اور ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ چکے ہیں لیکن حضرت نے خوب ان کے سر پر دست شفقت رکھا ۔صلح جُو اتنے تھے کہ آس پاس کے کچھ سخت گیر و سخت مزاج لوگوں سے بھی ہمیشہ نرمی اور مصالحت کا معاملہ اپنایا کبھی اپنی افرادی قوت کا کہیں بھی اپنی ذات یا کسی مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا۔

حضرت کی تمام ظاہری خوبیاں صرف ایک مضمون میں ذکر کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنا ہے ۔
یہی وجہ تھی کہ ان کے جنازے میں اتنی خلقت تھی لگتا تھا انسانوں کے علاوہ بھی کوئی مخلوق ہے جو جوق در جوق سعادت حاصل کرنے چلی آرہی ہے ۔ دورِ حاضر کے بڑے اور جید علماء دین اور مریدین و معتقدین ان کے علاوہ تھے بقول مفتی امداداﷲ کے اتنا بڑا جنازہ اور اتنا منظم ایسا لگتا تھا فرشتے صف آراء ہیں ۔ہزاروں معتقدین تو عین سلام کے وقت پر پہنچے اور دھاڑیں مار مار کر روئے سعادت سے محروم رہ جانے پر ۔

اﷲ حضرت والا کی قبر مبارک کو جنت کے باغوں میں سے ایک ٹکڑا بنا دے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔
دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلا ایک ٹوٹا پھوٹا شعر عرض ہے۔
سلامت رکھنا میرے مولا تو حضرت کے گلشن کو
ہوئے سیراب ان کے گلشن سے ہم سبھی عاصی

Azmat Rahmani
About the Author: Azmat Rahmani Read More Articles by Azmat Rahmani: 9 Articles with 9652 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.