گرمیوں کی ایک دوپہربچہ اسکول سے
گھر لوٹا۔ ماں بچے کو دیکھ کر مسکرائی اور اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے
کہابیٹا! جلدی سے کپڑے بدل لو میں کھانا لاتی ہوں، میرے بیٹے کو بھوک لگی
ہوگی۔ بیٹا جلدی سے کپڑے بدل کر آیا تو سامنے ہر روز کی طرح سبزی یا دال کی
جگہ آج اس کی پسندیدہ ڈش تھی۔ بیٹے نے پوچھا امی! آج یہ سب کچھ کیسے؟۔ ماں
نے کہا، بیٹا! یہ سب کچھ میں نے تمہارے لیے بنایا ہے۔بچے نے کہا، آپ بھی
میرے ساتھ کھانا کھا لیں۔ بچے کی پسند کا کھانا چونکہ کم تھا اس لیے ماں نے
کہا، ”بیٹا میں نے تو کھانا کھا لیا ہے، اب تو پانی پینے کی جگہ بھی
نہیںرہی، تم اکیلے ہی کھانا کھاﺅ، تمہیں بھوک لگی ہوگی“۔ یہ کہہ کر ماں پھر
سے کچن میں چلی گئی۔ بیٹا روز منہ بنا کر کھانا کھاتا تھا لیکن آج پسند کا
کھانا دیکھ کر جلدی جلدی سب چٹ کر گیا۔ بیٹا برتن اٹھا کر جیسے ہی کچن میں
داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ماں فرش پر بیٹھی باسی روٹی کو پانی کے ساتھ
گھونٹ گھونٹ کر کھا رہی ہے۔ یہ واقعہ میں نے کسی جگہ پڑھا تو سوچا آپ کے
ساتھ بھی شئیر کیا جائے۔ خدا جانے اس واقعہ میں کس قدر صداقت ہے لیکن اس
واقعہ میں جھلکتی ماں کی محبت کی صداقت میں رتی بھر بھی شک نہیں کیا جاسکتا۔
ایک ادیب لکھتے ہیں: ”میں نے ماں کی محبت کی حقیقت کو اپنی اصلی شکل میں اس
وقت دیکھا جب ایک دن ہمارے پڑوسیوں نے ہمارے ہاں کسی خوشی میں ایک لڈو
بھیجا، ماں نے وہ لڈو کھانے کے لیے مجھے دے دیا، میں نے کہا کہ ماں آپ بھی
اس میں سے آدھا لڈو کھا لیں تو میری ماں نے کہا بیٹا مجھے لڈو پسند نہیں
ہیں، حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ میری ماں کو سب سے زیادہ لڈو ہی پسند ہیں۔“
زبان سے نکلا ہوا لفظِ ماں ایک ایسے احساس کا اظہار ہے کہ جس سے دل اور
دماغ کو سکون ملتا ہے۔ جس کا ذکر لبوں پر آتے ہی خوشی چھا جاتی ہے۔ جنت تو
جنت ہے لیکن جنت میں خوشبو دار پھول نہ ہوں تو جنت کیسی؟ جنت کا پھول ماں
ہے۔ لفظ ماں اپنے اندر کائنات کی تمام تر مٹھاس، شیرینی اور نرماہٹ لیے
ہوئے ہے۔ یہ دنیا کا سب سے پرخلوص اور چاہنے والا رشتہ ہے۔ ماں کی محبت کی
طاقت کا اندازہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ جب
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی وفات ہوگئی اور آپ علیہ السلام اللہ
تعالیٰ سے کلام کرنے ”کوہ طور“ پر چڑھے تو اللہ تعالی نے فرمایا: ”اے موسیٰ
اب تم سنبھل کر آنا تمہاری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، جب تم میرے پاس آتے تھے
تو تمہاری ماں سجدے میں جاکر تمہارے لیے دعا کیا کرتی تھی۔“ اس سے ثابت ہوا
کہ ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کی دعاﺅں کی ضرورت صرف ہم جیسے گنہگاروں کو ہی
نہیں بلکہ انبیاءاور اولیا کو بھی ہوتی ہے۔ جس کے لبوں کی جنبش بارگاہ
الہٰی میں شرف قبولیت حاصل کرتی ہے۔ اسی لیے آپ علیہ السلام کائنات کے سب
سے عظیم انسان ہونے کے باوجود آپ علیہ السلام کو دودھ پلانے والی رضاعی
والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ نبوت ملنے کے بعد
بھی جب حلیمہ سعدیہ آپ علیہ السلام سے ملنے آتی تھیں تو آپ علیہ السلام ان
کے لیے اپنی رحمتوں بھری مقدس چادر بچھا دیا کرتے تھے، ان کا ستقبال کیا
کرتے اور انہیں چھوڑنے کے لیے دور تک ان کے ساتھ جایا کرتے تھے۔
ماں ہی وہ ہستی ہے جس کو رب ذولجلال نے تخلیق کا اعجاز عطا کرکے اپنی صفات
سے بہرہ مند فرمایا۔ اس کا وجود محبت کا وہ بیکراں سمندر ہے کہ جس کی وسعت
کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایسا سا ئبان عافیت جس کی چھاﺅں میں کوئی
دکھ پریشانی ہمیں چھو نہیں سکتی۔ دنیا میں جتنے بھی رشتے ہوں اور ان رشتوں
میں جتنی بھی محبت ہو، وہ اپنی محبت کی قیمت مانگتے ہیں، مگر ماں کا رشتہ
دنیا میں واحد ایک ایسا رشتہ ہے جو صرف آپ کو کچھ دیتا ہی ہے اور اس کے
بدلے میں آپ سے کچھ نہیں مانگتا۔حدیث میں آتا ہے: ”ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں:” محبت کی ترجمانی کرنے والی کوئی چیز ہے تووہ پیاری
ماں ہے۔“ حکیم لقمان نے فرمایا:” ماں کا ایسا پیارہے جوکسی کے سیکھنے اور
بتانے کا نہیں۔“ مولانا الطاف حسین حالی نے لکھا ہے:” ماں کی محبت حقیقت کی
آئینہ دار ہے۔“ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:” سخت سے سخت دل کوماں
کی آنکھوں سے موم کیا جا سکتا ہے۔“ نپولین رقمطراز ہے:” خوشیوں کے تلاطم
اورحسرتوں کے ہجوم میں ماں کو دیکھ۔“ انگریزی کا سب سے بڑا ادیب شیکسپئر
بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ بچے کے لیے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہے خواہ
بچے کی عمر کتنی ہی ہو۔
یہ حقیقت ہے کہ ماں، جنت کو پانے کا ایک آسان راستہ ہے، جس کا احساس انسان
کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے۔ ماں ایک پھول ہے جس کی مہک کبھی ختم نہیں
ہوتی۔ ایک سمندر ہے جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سکتا ہے مگر کبھی کم
نہیں ہو سکتا۔ ایک ایسی دوست جو کبھی بیوفا نہیں ہوتی۔ ایک ایسا وعدہ ہے جو
کبھی ٹوٹتا نہیں۔ ایک ایسا خواب ہے جو تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا
ہے۔ ایک ایسی محبت ہے جو کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس محبت
میں بڑھوتری ہی ہوتی رہتی ہے۔ ایک ایسی پرچھائی ہے جو ہر مصیبت سے ہمیں
بچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ ایک ایسی محافظ ہے جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے
سے بچاتی ہے۔ ایک ایسی د ±عا ہے جو ہر کسی کے لب پر ہر وقت رہتی ہے۔دنیا
میں ہر انسان کا وجود اسی عظیم رشتے کا احسان ہے،ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے
کہ اپنی ماں کو اس کی زندگی میں ڈھیر ساری خوشیاں دے جس طرح اس نے ہمیں
ہمیشہ ڈھیر ساری خوشیاں دی ہیں۔اگر کسی کی ماں اس دنیا سے ہمیشہ کے سفر پر
روانہ ہوچکی ہے تو وہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بنے۔
میں دنیا میں کہیں بھی ہوں
سب سے دور
مگر ایک ہستی ہے
جو میرے آس پاس ہوتی ہے
میری خوشیوں میں خوش ہوتی
میرے دکھ میں تڑپتی
جس کے سجدے میرے لیے
جس کی دعائیں میرے لیے
جس کے آ نسو
سب منتیں مرادیں
جس کی ہر آرزو ہے میرے لیے
ہر پریشانی میں اس کی دعائیں
میرے سر پہ سایا کرتی ہیں
کبھی ستارہ کبھی جگنو بن کر چمکتی ہیں
محبتوں کا خزانہ ہے
میری ماں |