دشمن اپنا گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے۔ ہماری فوج کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا
دیا گیا ہے جس سے وہ فوری طور پر نہ نکلی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچ سکتا ہے۔ سوات آپریشن شروع ہونے کے بعد سے اب تک کچھ لوگ یہ بات کہہ
رہے تھے کہ اس میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کا ہاتھ ہے اور اس کے ساتھ امریکہ
اور اسرائیل کا بھی گٹھ جوڑ ہے۔( راقم بھی یہ بات کہتا رہا ہے ) لیکن اس کو
بے وقت کی راگنی، ملک دشمنی، حقائق کے منافی قرار دیا گیا۔ ہم نے اس حوالے
سے دو مضامین بھی اسی ویب سائٹ پر تحریر کیے تھے۔ لیکن ان پر کچھ عناصر کا
بہت ہی منفی تبصرہ آیا تھا۔ بہر حال اس صورتحال میں تازہ ترین پیش رفت وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان ہے کہ “بعض بھارتی عناصر پاکستان میں
استحکام نہیں چاہتے ہیں“ اس کے علاوہ روزنامہ جنگ دو جون کی اشاعت میں
محترم عظیم سرور اپنے کالم “ ایک حقیقت سو افسانے “ میں لکھتے ہیں کہ یہ
افسانہ صوبہ سرحد میں عام ہے کہ چھ طالبان مارے گئے ساتھی لاشیں چھوڑ کر
بھاگ گئے۔ لوگوں نے غسل دینا چاہا تو معلوم ہوا کہ یہ طالبان تو غیر مسلم
تھے- یوکرین کے دو سپاہی بھی طالبان کے روپ میں گرفتار ہوئے، خبر آئی کہ
میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے گا لیکن یہ پیش رفت بھی افسانہ بن گئی (
روزنامہ جنگ ٢ جون ٢٠٠٩ )
ایک خوشگوار حیرت ہمیں نذیر ناجی صاحب کا کالم پڑھ کر ہوئی نذیر ناجی صاحب
نے اپنے آرٹیکل “ ہوسکتا ہے مگر کیسے“ میں لکھتے ہیں کہ “َ بھارت بھی اپنی
حیثیت کے مطابق دہشت گردی کو بطقر ہتھیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا-
اس نے سری لنکا میں دہشت گردوں کو ایک عرصے تک ہتھیار اور سرمایہ فراہم کیا
-تبت میں چین کےخلاف بغاوتیں منظم کرنےکی کوشش کی- بلوچستان میں پاکستان
کےخلاف دہشت گردی کا ہتھیار کئی سالوں استعمال کیا جارہا ہے اور اب فاٹا
اور سوات کے علاقوں میں بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گرد بہت بڑی تعداد میں
سرگرم ہیں۔ سوات میں مارے جانے والے کئی دہشت گردوں کی شناخت پر پتہ چلا کہ
وہ غیر مسلم ہیں- وزیرستان میں واقع ایک بستی میر علی میں تو یہ واقعہ بہت
مشہور ہے کہ دہشت گردوں کے ایک گروپ کو گرفتار کرکے جب تفتیش کی گئی تو پتہ
چلا کہ انہیں اسلحہ ایک امام مسجد نے فراہم کیا تھا، سیکورٹی فورسز نے اس
امام مسجد کو گرفتار کیا تو وہ غیر پختون نکلا مکمل تفصیل آئی تو پتہ چلا
کہ وہ ہندو تھا۔اس نے پہلے امام مسجد کی تربیت حاصل کی اور پھر میر علی آکر
ایک مسجد سنبھال لی- گرفتار ہونے سے پہلے وہ سات سال تک امامت کراتا رہا
تھا۔“ ( روزنامہ جنگ ٢جون ٢٠٠٩ )
نذیر ناجی صاحب کے خیالات اور نظریات سے ہم سب واقف ہیں۔ وہ پاک بھارت
دوستی اور بھارت سے تعلقات کے پرجوش حامی ہیں، سوچیں ایک ایسا فرد بھی یہ
کہنے پر مجبور ہے کہ سوات اور قابئلی علاقوں کی شورش اور دہشت گردی میں
بھارت ملوث ہے۔
اپنے کالم “البدر“ کی تیاری کے لیے کچھ مواد کی تلاش میں انٹر نیٹ پر سرفنگ
کے دوران ایک لنک پر نگاہ جم گئی جب دیکھا تو یہ روزنامہ نوائے وقت میں ١٩
دسمبر ٢٠٠٨ کو معین باری صاحب کا شائع ہونے والا ایک آرٹیکل تھا یہ آرٹیکل
چھ ماہ قبل لکھا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ گویا حال ہی میں لکھا گیا ہے
اس کے کچھ اقتباسات ہم آپ سے بھی شئیر کرتے ہیں
ملک کے اندر اس وقت جو صورتحال بن چکی ہے وہ ہمارے دشمنوں کیلئے حوصلہ
افزاء اور ہموطنوں کیلئے بڑی تشویشناک ہے۔ امریکہ اور بھارت منصوبہ بندی کے
تحت ہمیں گھیر کر اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں مچان پر بیٹھا شکاری بندوق
تھامے شکار کے انتظار میں ہوتا ہے۔ پاک مسلح افواج اور ہماری ایٹمی تنصیبات
ان کے نشانہ پر ہیں۔ سوات٬ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں پاک فوج باغیوں
سے نبرد آزما ہے۔ ثبوت مل چکے کہ بھارتی خفیہ را٬ سی آئی اے اور موساد کے
افغانستان میں تربیتی کیمپ ہیں جہاں دہشت گردوں کو مسلح اور ٹرینڈ کر کے
تخریب کاری کیلئے پاکستان بھیجا جاتا ہے۔
ان علاقوں میں پاک فوج کے مقابلہ میں جو دہشت گرد مارے گئے ان میں 30% غیر
مسلم تھے۔ بھارتی مسلم افواج کے دستے افغانستان بھیجے جارہے ہیں جن کی نفری
دس ہزار ہے اور آئندہ سال 1½ لاکھ تک پہنچ جائیگی۔ یہ فوجی ہماری شمال
مغربی سرحد پر مورچہ بند ہوجائیں گے۔
سوات٬ وزیرستان میں پاک فوج اپنے ہی قبائلیوں سے نبرد آزما ہے۔ جواب میں
ملک کے اندر بم دھماکے ہو رہے ہیں اور چیک پوسٹوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ثبوت
مل چکے کہ بھارت سمیت بڑی طاقتیں باغی گوریلوں کو سوات٬ وزیرستان اور
بلوچستان میں جدید ہتھیار اور گولہ باردو مہیا کر رہے ہیں۔ یہ درپردہ
جارحانہ اقدام اس لئے کئے جارہے ہیں کہ جب بھارتی اور اس کے سٹریٹجک
پارٹنرز پاکستان پر حملہ آور ہوں تو انہیں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔
بھارتی نیتا اور عسکری ہائی کمان SUN-TZU کے طریق جنگ پر عمل پیرا ہیں۔
چینی جرنیل SUN-TZU جس کی کتاب نیپولین بونا پارٹ رات سرہانے رکھ کر سوتا
تھا وہ اب بھارتی عسکری اداروں میں نصاب کا حصہ ہے۔ سن زو کے دو قول ملاحظہ
ہوں۔
If you know the enemy and know yourself
you need not fear the result of hundred battels
ترجمہ: اگر تم دشمن کو جانتے اور پہچانتے ہو اور اپنی صلاحیتوں سے بھی واقف
ہو تو تمہیں ایک سو جنگوں کی بھی فکر نہیں کرنی چاہئے۔
Supreme excellence consist in breaking the
enemy's resistence without fighting
ترجمہ: اصل فتح یہ ہے کہ دشمن سے لڑے بغیر اس کی قوت مدافعت ختم کر دی جائے۔
بھارت نے سن زو طریق جنگ کو مشرقی پاکستان میں کامیابی سے اپنایا اور اب
اپنے سٹریٹجک پارٹنرز سے مل کر مغربی پاکستان میں آزما رہا ہے۔ اس سٹریٹجی
کی ایک چھوٹی سی جھلک امریکہ بھارت مشترکہ بیان میں دکھائی دیتی ہے جو 6
دسمبر اخبارات میں شائع ہوا کہ ’’بمبئی حملے … پاکستان نے دہشت گردوں کے
خلاف کارروائی نہ کی تو ہم کرینگے‘‘۔ دونوں (بھارت امریکہ) نے یہ مؤقف
اختیار کیا کہ اگر پاکستان ان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو پھر
امریکہ و بھارت دونوں ملکر ان عناصر کے خلاف کارروائی کرینگے‘‘۔
بالکل یہی صورتحال تھی جب دسمبر 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ
کر دیا۔ بڑا حملہ کرنے سے پہلے بھارت اور بعض بڑی طاقتوں نے جو اقدام کئے
ان کی موجودہ حالات سے کتنی مماثلت ہے ملاحظہ ہو: (1) مشرقی اور مغربی
پاکستان کے مابین دشمنانہ پرچار کے ذریعے دوریاں پیدا کی گئیں۔ (2) اگر تلہ
سازش کیس بھارت نے عوامی لیگ کو ہتھیار اور گولہ باردو فراہم کیا۔ (3)
مشرقی پاکستان میں بڑا سمندری طوفان آیا تھا۔ امریکہ نے امداد بھیجی‘
کنٹینروں میں خوراک اور ادویات کی جگہ چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود بھیجا
جو عوامی لیگ کے ورکروں میں تقسیم ہوا۔ ( 4) بقول سابق صدر مرارجی ڈیسائی
جنہوں نے لوک سبھا میں بیان دیا کہ وزیراعظم اندرا گاندھی کے حکم پر ستر
ہزار مسلح گوریلے سول کپڑوں میں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیئے گئے جنہوں
نے وہاں جاکر تباہی مچا دی۔ ان ستر ہزار بھارتی گوریلوں نے مشرقی پاکستان
میں مکتی باہنی کی بنیاد ڈالی۔
مکتی باہنی گوریلوں نے وہاں پاک فوج کے ساتھ ایسی جنگ چھیڑ دی جیسے آج سوات
اور وزیرستان میں گوریلے پاک فوج کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔ چند ہفتے ہوئے
ایک ٹی وی چینل پر چند گرفتار دہشت گردوں نے بیان دیا کہ سوات اور وزیرستان
میں ان کے سینکڑوں مسلح ساتھی داخل ہوچکے ہیں۔ ان کی تربیت افغانستان میں
بھارتی ایجنسی را کے تحت ہوئی۔ ان کو ہر ماہ اتنے ہزار تنخواہ ملتی ہے۔
(5) ڈیڑھ سال گوریلا جنگ میں پاک فوج بعض اوقات وفادار بنگالیوں کو نشانہ
بناتی رہی جس سے پاک فوج کے خلاف نفرت بڑھی۔ (6) گوریلا جنگ نے پاک فوج کو
اتنا تھکا دیا کہ وہ بھارتی یلغار کی تاب نہ لاسکی۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ اگر ان دنوں پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا۔ پاک قوم
متحد ہوتی۔ کوئی دوست ملک ہماری مدد کو آجاتا جیسے 65ء کی جنگ میں
انڈونیشیا نے خلیج بنگال میں اپنی نیوی بھیج کر مشرقی پاکستان کو بھارت کی
یورش سے بچا لیا تھا… تو بھارتی افواج کبھی مشرقی پاکستان پر حملہ آور نہ
ہوتیں۔
اب صورتحال 71ء سے زیادہ خطرناک ہے۔ بھارت٬ امریکہ٬ اسرائیل سٹریٹجک
پارٹنرز ہیں۔ یہ تینوں ممالک سوات٬ وزیرستان اور بلوچستان میں باغی سرداروں
کو بھاری رقوم اور اسلحہ و بارود فراہم کر رہے ہیں۔ پاک فوج اپنے ہی ملک
میں باغی قبائل سے برسرپیکار ہے۔ خانہ جنگی جاری رہی تو عین ممکن ہے کہ بڑے
حملہ کے وقت لوکل طالبان اور باغی قبائل حملہ آوروں کا ساتھ دیں۔ اس طرح
ہماری مسلح افواج مشرق اور شمال مغرب سے سینڈوچ ہوسکتی ہیں۔
دریائے جہلم و چناب پر اتنی تعداد میں ڈیم بنا کر چناب کا پانی بند کرنا
بھی جنگ کئے بغیر پاکستانیوں کی مدافعت کو ختم کرنا ہے تاکہ ہم بھوکے پیاسے
لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیں اور بھارت میں شامل ہوجائیں۔ اگر بھارت فوجیں
بارڈر پر لے آتا ہے تو پاکستان کی ایک کور کو جو سوات اور وزیرستان میں صف
آراء ہے مشرقی محاذ پر بلانا پڑے گی۔ اس سے نیٹو کی ذمہ داریوں اور نقصانات
میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن سوات‘ بلوچستان اور وزیرستان میں امن و امان کا
مسئلہ بہتر ہوسکتا ہے۔ قومی اتحاد فتح و کامرانی کی سمت پہلا قدم ہوگا۔ دعا
ہے کہ اللہ بارک تعالیٰ ان مشکل اوقات میں ہمارے ارباب اختیار اور عسکری
رہنماؤں کو اتنا حوصلہ٬ قابلیت اور جرات دے کہ وہ دشمنوں کے عزائم خاک میں
ملا دیں۔ ملکی دفاع کیلئے دوستوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دفتر خارجہ کو اس
پر خاص توجہ دینی پڑے گی اگر امریکہ اور بھارت نے مل کر پاکستان کے خلاف
کوئی جوائنٹ وینچر کیا تو مؤثر قیادت٬ قومی یکجہتی٬ مسلح افواج کی بہادری٬
دوستوں کی اعانت اور عوام کے تعاون سے اسکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ لیڈر
ثابت قدم رہے تو اللہ کی مدد آئیگی اگر ہم نے اب بھی اپنے دشمن کو نہ
پہچانا اور ڈرتے رہے اور پاؤں پڑتے رہے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی۔
بہنوں اور بھائیوں یہ ساری باتیں کوئی افسانہ نہیں ہیں بلکہ حقیقت ہے کہ
بھارت اکہتر میں مکتی باہنی بن کر آیا تھا اور آج طالبان کے روپ میں آیا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان صرف افغانستان میں ہیں اور پاکستان میں طالبان کے نام
پر بھارتی ایجنٹ ایک تیر سے کئی شکار کررہے ہیں۔ایک طرف انہوں نے اسلام کے
نام پر ظلم و تشدد کرکے اسلام کے خوبصورت چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری طرف پاک فوج کو یہاں الجھایا ہے تاکہ مشرقی سرحدوں پر اس کی گرفت
کمزور ہو۔ تیسری طرف پوری دنیا میں پاکستان کا نام ایک دہشت گرد اور ناکام
ریاست کے طور پر مشہور کرنے کی کوشش کی ہے۔ چوتھی طرف شمالی علاقہ جات میں
شورش برپا کرکے یہاں کی سیاحت کی صنعت کو نقصان پہنچایا ہے جس کا براہ راست
نقصان زر مبادلہ میں کمی کی صورت میں آئے گا اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے
سوات اور شمالی علاقہ جات کے وسائل پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے-۔ہم کب
تک اس بات کو نہیں سمجھیں گے؟ کب تک نہیں جاگیں گے؟ کب تک دشمن کو نہیں
پہچانیں گے؟ |