ایک چور ایک باغ میں گھس گیا اور آم کے درخت پر چڑھ کر آم
کھانے لگا ۔اتفاقاََ باغبان بھی وہاں آ پہنچا اور چور سے کہنے لگا ۔۔۔”او
بے شرم یہ کیا کر رہے ہو۔۔؟ “ چور مسکرایا اور بولا :ارے بے خبر !یہ باغ
اللہ کا ہے اور میں اللہ کا بندہ ہوں ،وہ مجھے کھلا رہا ہے اور میں کھا رہا
ہوں،میں تو اس کا حکم پورا کررہا ہوں،ورنہ تو (درخت کا )پتا بھی اس کے حکم
بغیر حرکت نہیں کر سکتا ۔باغبان نے چور سے کہا :جناب آپ کا یہ وعظ سن کر
میرا دل بہت خوش ہوا ۔۔۔۔ذرا نیچے تشریف لائیے تاکہ میں آپ جیسے مومن باللہ
کی دست بوسی کر لوں ۔۔۔۔سبحان اللہ اس جہالت کے دور میں آ پ جیسے عارف کا
دم غنیمت ہے ،مجھے تو مدت کے بعد توحید و معرفت کا یہ نکتہ ملا ہے کہ ۔۔۔جو
کرتا ہے خدا ہی کرتا ہے ۔۔۔۔اور بندے کا اس میں کچھ بھی اختیا ر نہیں ۔۔۔۔قبلہ
ذرا نیچے تشریف لائیے ۔۔۔چور اپنی تعریف سن کر پھولے نہیں سما رہا تھااور
جھٹ سے نیچے اتر آیا ۔۔۔۔پھر جب وہ نیچے آیا تو باغبان نے اس کو پکڑ لیا
اور رسی کے ساتھ درخت سے باندھ دیا،پھر اس کی خوب مرمت کی ،آخر میں
جب(باغبان نے) ڈنڈااٹھایاتو چور چلّا اُٹھا کہ :”ظالم کچھ تو رحم کرو ،میرا
اتنا جرم نہیں ہے جتنا تو نے مجھے ما رلیا ہے“۔باغبان نے ہنس کر اس سے کہا
کہ جناب ابھی تو آپ نے فرمایا تھا ۔۔۔جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اللہ کے
حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا ،اگر پھل کھانے والا اللہ کا بندہ تھا
تو مارنے والا بھی تو اللہ کا بندہ ہے ،اور اللہ کے حکم سے ہی مار رہا ہے
کیونکہ اس کے حکم کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہل سکتا ۔چور ہاتھ جوڑکر کہنے
لگا ۔۔۔خدارا مجھے چھوڑ دے ۔۔۔اصل مسئلہ میری سمجھ میں آ گیا ہے کہ بندے کا
بھی کچھ اختیا ر ہے ۔باغبان نے کہا اور اسی اختیا ر ہی کی وجہ سے اچھے یا
برے کا ذمّہ دار بھی اسے ہی ٹھرایا جاتا ہے۔(ماخوذ از حکایات رومیؒ) |