سید منظور حسین گردیزی جو اب ہم میں نہیں

یوں تو بے شمار لوگ دنیا سے جاتے ہیںیہ ایک طبعی عمل ہے جس سے ہر ذی روح کو گزرنا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ایسی یادیں چھوڑ جاتے ہیں جو آنے والوں کے لیے ہمیشہ انہیں رہنمائی فراہم کرتی رہتی ہیں اور جانے والی شخصیت اپنے کارناموں کی وجہ سے ان کے اذہان میں طویل عرصے تک زندہ رہتی ہے۔ ایسی ہی کی ایک شخصیت کا آج ذکر کیا جارہا ہے۔یہ سید منظور حسین گردیزی ہیں جو اب ہم میں نہیں لیکن اپنی یادوں کے باعث ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ضلع پونچھ آزاد کشمیر میں ہل سرنگ ایک اہم مقام ہے جہاں سے ایک بڑی شخصیت نے 1930ءکی دہائی میں ڈوگرہ راج کے خلاف ایک تحریک برپا کی۔ جو بعد میں 1947-48ءمیں موجودہ آزاد کشمیر کے قیام پر منتج ہوئی۔ یہ شخصیت سید احمد شاہ گردیزی کی تھی کہ جن کے اکلوتے فرزند سید ابراہیم شاہ نے 1947ءکی تحریک آزادی میں بلند کوٹ ضلع مظفر آباد کے مقام پر جام شہادت نوش کیا تھا۔ انہی سید احمد شاہ گردیزی کے معاون و مدد گار ان کے بھائی سید اسرائیل شاہ بھی تھے جنہوں نے قدم بقدم ان کا ساتھ دیا تھا اور جن کا بڑے فخریہ انداز میں سید احمد شاہ گردیزی نے اپنی ایک تصنیف میں ذکر کیا ہے۔ سید اسرائیل شاہ مرحوم کے ایک ہی صاحبزادے تھے جن کا نام سید منظور حسین گردیزی تھا۔ آپ بچپن ہی سے ضلع سرگودھا میں منتقل ہو گئے تھے۔ جہاں آپ اپنی والدہ اور نانی کے زیر تربیت رہے۔ زمانہ طالبعلمی میں وہ ایک بہترین طالب علم، بہترین سکاﺅٹ اور اتھیلیٹ رہے۔انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا تھا اور ضلع سرگودھا کے مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دیتے دیتے صدر معلم کے عہدے تک پہنچے۔

سید منظور حسین گردیزی نے اپنی زندگی میں اپنے والد، تایا اور خاندان کے دیگر بزرگان کے گہرے اثرات قبول کیے جو تادم زیست ان کے ساتھ رہے۔ سید منظور حسین گردیزی ایک مرنجان مرنج شخصیت تھے۔ معاشرے کے پسماندہ طبقات کے مفادات کا خیال رکھنا ان کا وطیرہ تھا۔ انہوں نے یہ خصوصیت اپنے تایا سید احمد شاہ گردیزی سے لی تھی۔ جنہوں نے ڈوگرہ عہد میں عوامی حقوق کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔ اس طرح سنجیدگی کو اپنا حرزجان بنایا تھا جو ان کے والد کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ بہرحال سید منظور حسین گردیزی نے اپنے ذات میں بے شمار خوبیوں کو مرتکز کر لیا تھا۔

پنجاب اور آزاد کشمیر میں مختلف مقامات پر ان کے احباب ایک بڑی تعداد موجود ہے جس سے ان کے گہرے روابط تھے وہ ہر ایک کے غم اور خوشی میں بنفس نفیس شریک ہوتے تھے۔

مرحوم نے اپنے اہل خانہ خصوصاً اپنی اولاد (جو دو بیٹوں اور چار بیٹیوں پر مشتمل ہے) کی بھرپور تربیت کی اور انہیں ایک مثالی زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا۔ اسی طرح اپنے ارد گرد کے سماج کی بھرپور خدمت کی یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد، سرگودھا اور ہل سرنگ آزاد کشمیر میں ان کی یاد میں بھرپور اجتماعات ہوئے جن میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کی تابندہ یادوں کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا عہد کیا گیا۔ ع حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا-

Syed Ghalib
About the Author: Syed Ghalib Read More Articles by Syed Ghalib: 7 Articles with 15928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.