ڈرون ٹیکنالوجی سے اب ہر چیز ممکن ہے۔

اڑنے والے کیمرے، بغیر پائلٹ کے طیارے،سمندر کھوجنے والے اور جاسوسی کرنے والے ڈرون،
ڈرون ٹیکنالوجی سے اب ہر چیز ممکن ہے۔

کیا آپ نے کبھی سوچا کسی ہوٹل ویٹرز کی موجودگی کے بغیر آپ کا آڈر کیا ہوا کھانا ہوا میں اڑتا ہوا آپ کی میز پر خود آئے جائے۔ یا یہ کہ جہاز بغیر پائلیٹ کے آپ کو منزل مقصود تک پہنچا دے۔یا بغیر ڈرائیور کی کار آپ کو گھر لینے پہنچ جائے، یہ سب جدید دنیا کے تصوراتی خاکے نہیں ہیں بلکہ اب ان میں حقیقت کا رنگ بھرنے ہی والا ہے۔ گو گل گلاس کی ٹیکنالوجی میں اب یہ بھی ممکن بنا دیا ہے کہ اڑتے ہوئے کیمرے جہاں چاہے بھیج کر اپنی ضرورت کے مطابق تصاویر اور ویڈیوز بنائیں اور چند سیکنڈ میں انھیں انٹر نیٹ پر لوڈ کردیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی نے یہ سب کچھ ممکن بنا دیا ہے۔ اب ایسے پرس بھی ایجاد ہوگئے ہیں کہ آپ اپنے چہرے کو غیر ضروری تصاویر سے بچاسکیں۔ جب بھی کوئی کیمرہ آپ کی تصویر لینے کے لیئے حرکت میں آئے گا۔ یہ کیمرہ لگی ڈیوائس اسقدر روشنی پھینکے گی کہ آپ کا چہرہ ہی نظر نہیں آئے گا۔ ڈرون ٹیکنالوجی ہی کی بدولت لندن کے ایک جاپانی ریستوران نے ایسی انوکھی اڑن ٹرے تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو صارف کا کھانا اس کی میز تک خود پہنچائے گی۔یہ انوکھی ٹرے نما ڈیوائس 25 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑیں گی اور انہیں آئی پیڈ کے ذریعے کنٹرول کرکے کسی تصادم سے بچا جاسکے گا۔یو سوشی نامی اس ریستوران کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب اس عملہ آئی پیڈ کے ذریعے اس اڑن ٹرے کو کنٹرول کرنے کی تربیت حاصل کررہا ہے تاکہ اس فوڈ ڈرون کی سروس کا آغاز کیا جاسکے۔اس ٹرے میں 2 کیمرے میں لگائے گئے ہیں تاکہ اسے کنٹرول کرنے والا راستوں کو دیکھ سکے، یعنی اب بس ٹرے کو کھانے سے بھریں اور اڑا کر مطلوبہ میز تک پہنچائیں اور صارف کے جانے کے بعد واپس بلالیں۔ اس ٹیکنالوجی کی بدولت شائد نئی نسل روبوٹ سے اڑنے والے طیاروں میں سفر کرے۔ نیو میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کے بغیر پائلٹ ایئرکرافٹ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاگ ڈیوس کہتے ہیں، ’ہمارا یقین ہے کہ طیارے کی صنعت میں بنا پائلٹ کے ہوائی جہاز بڑی تبدیلی ہو گا۔‘بغیر پائلٹ کے طیارے فوج کے لیے نئی بات نہیں ہیں۔ کئی برسوں سے لینڈنگ کے خود کار نظام کی مدد سے ایف -18 کرافٹ اتارے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پائلٹ کے بغیر ڈرون لڑاکا طیارے جو کسی بھی جگہ قیامت برپا کرسکتے ہیں۔ ان طیاروں کو دور بیٹھے پائلٹ ریموٹ سے چلاتے ہیں لیکن ان کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ایئر کرافٹ ایک خاص ہوائی راستہ کی پیروی کرتے ہیں اور مسئلہ پیدا ہونے پر خود نیچے اتر سکتے ہیں۔ "اس کے لئے ضروری ہے کہ جہاز کو ہوا میں اپنی پوزیشن، منزل اور موسم کی معلومات ہو۔ اس کے ساتھ ہی طیارے میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہئے کہ وہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دیکھ سکے اور اس سے بچنے کے اقدامات ڈھونڈھ سکے۔" اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ امریکی بحریہ کا ایکس -47 بی کرافٹ تکنیکی طور پر اور بھی جدید ہوگا۔ اس میں پائلٹ کی مداخلت کم سے کم رہ جائے گا۔بیسویں صدی میں مسلسل کوشش ہوتی رہی کہ ہوا بازی کی ٹیکنالوجی کو کس طرح مزید جدت دی جائے۔ اس کے لئے الیکٹرانکس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا گیا اور کوشش یہ کی گئی کہ پائلٹ کا کردار کم سے کم رہ جائے۔آج کل کے بعض جدید طیاروں میں تو پائلٹ طیارے کو صرف رن وے تک لے جاتے ہیں اور اس کے بعد اڑان بھرنے سے لے کر جہاز کو محفوظ اتارنے کی مکمل عمل تقریباً خود کار ہی ہوتا ہے۔ فلائی بائی وائر ٹیکنالوجی نے پائلٹ اور جہاز کے انجن کے درمیان رابطے کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ اس ٹیکنالوجی سے اب طیارے کے کنٹرول کا کام پوری طرح کمپیوٹر سے کنٹرول ہو گیا ہے۔برطانیہ میںپائلٹ بغیر مسافر طیارے کے استعمال کو اور آگے لے جانے کے مقصد سے ٹیکنالوجی کے میدان کی کمپنی نے حال ہی میں برطانیہ کے آسمان میں ایک پائلٹ کے بغیر طیارہ اڑایا۔ اس طیارے پر مسافر سوار تھے اور انتظامات کے مطابق ہنگامی صورتحال پیدا ہونے پر ایک پائلٹ طیارے کا کنٹرول سنبھال لیتا۔ تاہم اس کی ضرورت نہیں پڑی اور تجربہ کامیاب رہا۔ "لوگ جہاز میں پائلٹ کی موجودگی اس لئے چاہتے ہیں کہ اگر جہاز ڈانواڈول ہوگا تو مسافروں کو یہ تسلی رہتی ہے کہ طیارے کی سب سے آگے کی سیٹ پر ایک شخص ایسا ہے جو ان کی زندگی بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔بغیر پائلٹ کے تجرباتی پرواز کرنا ایک بات ہے، لیکن 350 مسافروں سے بھرے ایک جہاز کو بغیر پائلٹ کے بحر اوقیانوس کے اوپر بھیج دینا فی الحال ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ایک وقت تھا جب مسافر طیاروں میں پانچ پائلٹ ہوا کرتے تھے۔ اب یہ تعداد گھٹ کر دو رہ گئی ہے لیکن جس طرح سے ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے، جلد ہی کاکپٹ میں ایک پائلٹ رہ جائے گا اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جب فوجی اور سائنسی کرافٹ کی طرح مسافر طیارے بھی دور سے کنٹرول کیے جا سکیں گے۔ سائنسدان کہتے ہیںتکنیکی ترقی کا آخری پڑاؤ ہے انسانی کنٹرول کو پوری طرح ختم کر دینا، اس کے لئے ضروری ہے کہ طیارہ اپنے فیصلے لے سکے۔آج یہ کام پائلٹ کرتے ہیں جو ریڈار پر نظر رکھ کر اور کھڑکی سے باہر دیکھ کر فیصلے لیتے ہیں لیکن مشین یہ سب دیکھ پائے اس کے لئے ضروری ہے کہ ویڈیو کیمرے، سینسر اور طاقتور کمپیوٹر فیصلے لینے میں حقیقی وقت میں اس کی مدد کریں۔جس طرح سے ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے وہ دن دور نہیں جب طیارے بغیر پائلٹ کے اڑ سکیں گے لیکن ایک مسئلہ پھر بھی رہے گا۔ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا۔ عام لوگ اس بات پر کس طرح آسانی سے یقین کر لیں گے کہ بغیر پائلٹ کے طیارہ محفوظ ہو سکتا ہے۔تاہم ان اعداد و شمار کے بل پر فی الحال لوگوں کو سمجھایا نہیں جا سکتا کہ وہ بغیر پائلٹ والے طیارے پر سوار ہو سکتے ہیں۔ گانگو میں تو بغیر پائلٹ کے اڑنے والے جہاز نگرانی کے لیے استعمال کرنے کی سلامتی کونسل نے اجازت دے دی ہے۔ اڑنے والے کیمروں سے ملنے والی معلومات کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے کمانڈر کو فراہم کی جائیں گی ۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بغیر پائلٹ طیارے میں نگراں کیمروں کا ایسا نظام نصب ہے جو نو وڈیو کیمروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس نظام سے ایک وقت میں پورے ایک قصبے پر نظر رکھی جاسکتی ہے اور اس کے کیمرے 65مختلف عکس فراہم کر سکتے ہیں۔امریکی فوج افغانستان میںایسے جدید ڈرون استعمال کر رہی ہے۔ جو ایک وقت میں کئی کیمروں سے بنائی جانی والی وڈیو مہیا کرتے ہیں۔ نگراں کیمروں کے اس نظام کو جو نو وڈیو کیمروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس نظام کو Gorgon Stareکا نام دیا گیا ہے۔ اس نظام سے ایک وقت میں پورے ایک قصبے پر نظر رکھی جاسکتی ہے اور اس کے کیمرے 65مختلف عکس فراہم کر سکتے ہیں۔اس کے بر عکس موجودہ ڈرون ایک کیمرہ استعمال کرتے ہوئے صرف ایک یا دو عمارتوں کی نگرانی کر سکتا ہے۔ امریکی فوج کے ایک اعلیٰ افسر میجر جنرل جیمس پوس نے اخبار کو بتایا کہ اب یہ مسلہ نہیں ہوگا کہ کیمرے کا منہ کس طرف کیا جائے کیونکہ جدید نظام سے پورے شہر پر نظر رکھی جا سکے گی۔مگر اخبار کے مطابق یہ سوال ابھی باقی ہے کہ اتنی زیادہ تصاویر کو فوج کتنی جلدچھانٹی کرکے ضروری معلومات جنگ کے میدان میں متعلقہ حکام تک پہنچا سکے گی۔ حکام یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ ڈرون اس وقت تک کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا جب تک زمین پر حساس معلومات اکٹھی کرنے کے لئے انسانی ذرائع موجود نہ ہوں۔اب یہ ڈرون دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کے ان گوشوں کی تصاویر کھینچنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں جو اس سے پہلے انسانی نظروں سے چھپے رہے ہیں۔کچھ عرصے پہلے سوئس کوہ پیماﺅںنے قراقرم میں ان ریموٹ کنٹرول ہیلی کاپٹرز کے ذریعے انتہائی خوبصورت تصاویر کھینچی ہیں۔اس منصوبے کے تحت سطح سمندر سے 19ہزار 685 فٹ بلند ٹرنگو ٹاور کی تصاویر کوہ پیمائی کے دوران ڈیوڈ لاما اور ان کے ساتھی پیٹر اورٹنر نے کھینچی۔اس سے قبل ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ایسی فوٹوگرافی کی جاتی تھی مگر یہ کام بہت مہنگا اور اکثر خطرناک بھی ثابت ہوتا تھا، جبکہ ہیلی کاپٹروں کے پروں میں مٹی، برف اور ہوا سے خرابی کا امکان بھی ہوتا تھا جس سے اس پر بیٹھے افراد کی جانیں خطرے میں پڑ جاتی تھیں۔مگر اب چند کلو گرام وزنی اور انتہائی سستے ڈرونز کے ذریعے یہ کام بہت آسان اور خطرے سے پاک ہوگیا ہے۔ماہرین کی پیشگوئی ہے کہ ڈرون کیمروں کا استعمال جلد ہر کھیل میں ہونے لگے گا اور توقع ہے کہ اس سے پاکستان میں کوہ پیمائی کی صنعت کو بھی عروج ملے۔

دنیا بھر میں جتنا پیسہ اور محنت ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کی جاتی ہے اگر اسکا کچھ حصہ بھی امن کے کاموں میں استعمال کیا جائے تو یقیناً پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ لیکن جناب کیا کیا جائے کہ دنیا کہ اکثر ممالک امن سے زیادہ جنگ کے حامی ہیں۔

نیا امریکی ڈرون ہیلی کاپٹر : 65 آنکھیں 1.8 گیگا پکزل کیمرہ لئے ہوئے ہے۔ امریکی فوج نے ایک ڈرون(بغیر انسانی پائیلیٹ) ہیلی کاپٹرتیار کیا ہے جس میں 1.8 گیگاپکزل کا کیمرہ نصب کیا گیا ہے۔اس ڈرون ہیلی کاپٹر میں نصب اس طاقت ور کیمرہ کی مدد سے زمین سے کم و بیش بیس ہزار فٹ کی بلندی سے قریباً 65 مربع میل دور تک کی ویڈیو بنائی جاسکتی ہے۔اس ہمنگ برڈ ہیلی کاپٹر کو یونانی دیوتا آرگس سے تشبیہ دی گئی ہے جس کی 100 آنکھیں تھیں اور وہ تمام چیزیں دیکھ سکتا تھا۔ گوکہ اس ہیلی کاپٹر کی 100 نہیں بلکہ 65 آنکھیں ہیں جن کی مددسے یہ مختلف ٹارگٹس کو دیکھ سکتا ہے چاہے وہ مخالف سمتوں میں ہی کیوں نہ جارہے ہوں۔اس ہیلی کاپٹر کی آزمائیشی پروازیں امریکی ریاست ایریزونا میں کیگئی ہیں۔ جلد ہی اسے افغانستان میں استعمال کیا جائے گا۔اپنے طاقتور کیمرہ کے علاوہ یہ ہیلی کاپٹر دیگر تمام جدید آلات سے بھی مزین ہے اور کسی بھی قسم کی ناہموار سطح پر بھی اتارا جاسکتا ہے۔امریکی محکمہ دفاع اور ہیلی کاپٹر تیار کرنے والی برطانوی کمپنی کے مطابق جلد ہی اس ہیلی کاپٹر کی استعداد کو مزید بڑھادیا جائے گا اور 65 کی بجائے اسکی 130 آنکھیں کر دی جائیں گی جو رات کے وقت بھی بخوبی دیکھ سکیں گی۔ یہ ڈرون اب کھیلوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔ آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کے لئے اسپائیڈر کیمرہ استعمال کئے گئے ہیں۔ ماہرین اسپائیڈر کیمرے کو ڈرون قرار دے رہے ہیں۔بعض کا کہنا ہے کہ یہ ھیلی کاپٹر کا بھی کام کررہا ہے۔آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کے لئے اسپائیڈر کیمرہ میدان کے اوپر آپریٹ کرتا ہے۔تار کے سہارے اسے ریموٹ سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔لیکن ٹورنامنٹ کی پلے انگ کنڈیشن کے مطابق اگر بیٹنگ کے دوران کسی بیٹسمین کا اسٹروک کیمرے سے ٹکراتا ہے توگیند کو ڈیڈ قرار دے دیا جائے گا۔حالانکہ جتنی بلندی پریہ کیمرہ ہے اس پر بیٹسمین کو دس رنز ملنا چاہیے۔سابق انگلش کپتان ایلک اسٹیورٹ نے اس کیمرے کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر میں کھیل رہاہوتا تو یہ کیمرا میری توجہ بانٹتا۔اسٹیورٹ کا کہنا ہے کہ اس سے کبھی کوئی کھلاڑی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔اگر کہیں یہ کیمرا گر گیا تو کھلاڑی زخمی ہوسکتا ہے۔ویسٹ انڈیز کے مشہور کمنٹیٹر ٹونی کوزیئر نے اس کیمرے کو ڈرون قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جس دن یہ ڈرون کسی کھلاڑی پر گر گیا تو اس سے بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔ ڈرون کہا کہاں استعمال ہورہا ہے۔ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ چند سالوں سے شراب (وائن) بنانے والے بھی اس میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ پریسیڑن وٹیکلچر میں کسی وائن یارڈ (انگوروں کے باغ) کے بارے میں معلومات اکھٹی کر کے بہترین فصل اگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان معلومات میں باغ میں سورج کی کرنوں کے لیے موضوں ترین مقامات سے لے کر مٹی کی نمی تک شامل ہیں۔پروفیسر گرین کا کہنا ہے کہ پریسیڑن وٹیکلچر اور اس کے زیادہ تر طریقہِ کار امریکہ اور آسٹریلیا میں شروع ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ کاروباری مقاصد کے لیے کھولے گئے وائن یارڈز کے مالکان کے پاس اب کافی پیسے ہوتے ہیں اور انہیں کافی رقبہ بھی دیکھنا ہوتا ہے۔انیس سو اسی کی دہائی میں اس شعبے پر کام شروع کرنے والے پروفیسر بتاتے ہیں کہ پریسیڑن وٹیکلچر میں پہلا قدم ہوتا ہے باغ کی فضائی تصاویر بنانا۔ اس کے لیے ماڈل جہازوں میں کیمرے نصب کیے جاتے ہیں اور یہ پھر باغوں کے علاقے میں پرواز کرتے ہیں۔آج کل استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ پروفیسر گرین ایک آئی پیڈ کے ذریعے ’پیرٹ اے آر‘ ڈرون جہاز اڑاتے ہیں جس میں دو کیمرے لگے ہوتے ہیں جو کہ ویڈیو اور تصاویر دونوں بناتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ماڈل جہاز اڑانا کافی مشکل کام ہے۔ ’اس پرواز کو درست کرنے میں دس منٹ لگ گئے۔ اس کی قیمت صرف تین سو پاؤ¿نڈ ہے۔‘ان فضائی تصاویر کی مدد سے پورے باغ کا نقشہ بنایا جاتا ہے جس میں پھر دوسری معلومات کو ڈالا جاتا ہے۔ مختلف مقامات سے مٹی کے نمونوں کے نتائج کی ان نقشوں پر نشاندہی کی جاتی ہے اور جی پی ایس کی مدد سے انگوروں کی افزائش کے لیے بہترین مقامات چنے جاتے ہیں۔ تھرمل تصاویر (درجہِ حرارت پر مبنی تصاویر) کی مدد سے مٹی میں فرق کو واضح کیا جاسکتا ہے۔ اگلا مرحلہ اب ’ہائیپر سپیکٹرل‘ تصاویر لینے کا ہے۔ ایسی تصاویر کھینچنے کے لیے پورے الیکٹرومگنیٹک سپیکٹرم کا استعمال کیا جاتا ہے اور ایسی تصاویر میں وہ معلومات بھی ہوتی ہیں جو انسیانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ایک بار جب یہ معلومات اکھٹی کر لی جاتی ہیں تو انھیں پھر ایک ’جیوگرافیکل انفارمیشن سسٹم‘ (جی آئی ایس) نامی سافٹ ویئر میں ڈالا جاتا ہے جو کہ اب نہ صرف لیپ ٹاپ کمپیوٹر بلکہ ٹیبلٹ اور سمارٹ فون پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان ایک طرف تو ڈرون ٹیکنالوجی کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہے تو دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان ڈرون ٹیکنالوجی پر دسترس رکھتا ہے۔ پاکستان نے جاسوس ڈرون میں کامیابیاں حاصل کرلی ہیں لیکن بمبار ڈرونز کی منزل ابھی بہت دور ہبھارتی اخبار ” ٹائمز آف انڈیا ”نے الزام لگایاہے کہ پاکستان ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے بھارت کی جا سوسی کر رہا ہے، راجستھان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر بھارتی فوج کی سرگرمیوں کی جاسوسی پر یہ طیارے مامور ہیں اور حالیہ دنوں میں ان جاسوس طیاروں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، رات میں چمک دار روشنی دکھاتے اور دوران پرواز اپنے پیچھے دھواں چھوڑ تے ان پاکستانی ڈرون کو دیکھاجا سکتا ہے،یہ دن کے وقت بھی فعال ہیں، بھارتی سیکورٹی فورسز کے درمیان انتہائی دلچسپ اوراہم موضوع بنا ہوا ہے،پاکستانی جاسوس طیارے باڑمیر، جئے سالمر،بیکانر اور راجستھان میں گنگانگر کی سرحد پر سرگرم ہیں، پاکستان چند سال سے امریکا اور اٹلی کی مدد سے ڈرون تیار کر رہا ہے،یہ طیارے بین الاقوامی سرحد سے صرف 500 سے700 گز کے فاصلے پر 15سو سے2ہزار میٹر کی اونچائی پر سرگرم ہیں،ان ڈرونز پر الٹرا ماڈرن کیمرے نصب ہیں جو کئی کلومیٹربھارتی علاقے کی تصاویر لے سکتے ہیں،انہیں25سے 30کلومیٹر کی دوری سے آپریٹ کیا جا رہا ہے،ان ڈرونز سے کمپیوٹر آپریٹر نظام منسلک ہے جو ان ڈرون سے بنائی تصاویر کو وہ حاصل کرتے ہیں۔ بھارتی اخبار نے پاکستانی ڈرون کی ساخت اور صلاحیت پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ایک پاکستانی کمپنی کی طرف سے ڈرون جاسوس تیار کیا گیا ہے ، 20کلوگرام وزنی یہ ڈرون180کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرسکتا ہے، دس ہزار فٹ 3480 (میٹر) کی بلندی تک پرواز کرنے والے پاکستانی ڈرون کی رینج سو کلومیٹر ہے اور بیٹری بیک اپ کے ساتھ یہ مسلسل 4 سے 5گھنٹے پرواز کر سکتا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ پاک فضائیہ نے2004میں ڈرون حاصل کرلیے تھے لیکن انہیں کئی تجرباتی مراحل کے بعد 2009میں استعمال میں لایا گیا۔اس سے قبل2003میں پاکستان نے اٹلی سے ڈرون خریدے تھے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق اب ڈرون ٹیکنالوجی کو امریکا کی جامعات میں پڑھایا جائے گا، ڈرون ٹیکنالوجی پڑھنے والوں کو بتایا جائے گا کہ ڈرون کس طرح بنتے ہیں اور ان کا آپریشنل سسٹم کیسے کام کرتا ہے، طلبا کو ڈرون ساز اداروں کا دورہ کرنے کی اجازت ہوگی اور وہ آپریشنل روم میں بھی جاسکیں گے۔امریکی یونیورسٹیوں میں ڈرون ٹیکنالوجی کو بطور کورس شامل کرنے پر شدید تنقید کی جارہی ہے، تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ خطرناک ٹیکنالوجی کو بغیر سوچے سمجھے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب چین بھی اس ٹیکنالوجی میں پیش رفت کر رہا ہے۔ جس سے امریکہ پریشان ہے۔ عا لمی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ چین اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے دفاعی بجٹ سے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو جدید ترین اور موثر بنا رہا ہے جس سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ وہ امریکا کو اس ٹیکنالوجی میں حاصل عالمی برتری کو جلد ہی چیلنج کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ وائس آ ف امریکا کے مطا بق جنوبی ساحلی شہر زہوہائی میں ایک حالیہ ائیرشو میں چین نے بغیر پائلٹ کے اڑنے والے جہازوں کا ایک جدید ماڈل پیش کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے تیارکردہ مذکورہ ڈرون ماضی کے مقابلے میں بڑے تھے اور ان میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔ ائیر ٹیکنالوجی سے متعلق کئی ماہرین کا کہناہے کہ نمائش میں رکھے جانے والے کئی ڈرون بظاہر امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کی نقل دکھائی دے رہے تھے۔ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن کو چین کے تیارکردہ ڈورنز پر تشویش ہے۔ جولائی میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک مشاورتی کمیٹی کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ دفاعی شعبے میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور جدید تحقیق امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کیلئے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین کے نئے ڈرون خطرے کی علامت ہیں۔ تاہم چین کا کہناہے کہ ساحلی علاقوں اور بحیرہ چین کے پانیوں کی نگرانی کا اس کا مشن پرامن ہے اور وہ نگرانی کا عمل موثر بنانے کیلئے 2015ء تک ساحلی علاقوں میں 11/ ڈرون مراکز قائم کرے گا۔امریکی صدر باراک اوباما اکثر یہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں جنگ کی لہر کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ دوسری جانب امریکی فوج کی جانب سے بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کا مطالبہ مزید زور پکڑتا جا رہا ہے۔

امریکی فضائیہ کی جانب سے ڈرون طیاروں کو چلانے کی تربیت دینے کے کورسز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نیو میکسیکو کے صحرا میں قائم امریکی فضائیہ کی ہولومین چھاو ¿نی پر لیفٹیننٹ کرنل مائک ویور کہتے ہیں” دنیا بھر میں فوجی کمانڈرز ڈرون ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے“۔ دوسری جانب امریکا میں ڈرون طیاروں کے استعمال پر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ اس دوران یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جب اگلے برس افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء طے ہے تو اس صورت حال میں امریکی فضائیہ نے ڈرون طیاروں کو آپریٹ کرنے کے کورسز میں کیوں اضافہ کیا ہے۔ادھر جاپان کی ایک سکیورٹی کمپنی نے ایسے ڈرونز کرائے پر فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو کسی بھی عمارت میں سکیورٹی الارم بجنے کی صورت میں فوری طور پر وہاں پہنچ کر وہاں کی تصاویر اپنے مرکز کو نشر کرنا شروع کر دے گا۔جاپان کی ایک سکیورٹی کمپنی سیکوم Secom کی طرف سے تیار کیا جانے والا یہ ڈرون ایک ہیلی کاپٹر کی شکل کا ہے اور اس میں نگرانی کے لیے ایک خصوصی کیمرہ لگا ہوا ہے جو کسی بھی ہوتے ہوئے جرم کی براہ راست تصاویر نشر کر سکتا ہے۔سیکوم کی خاتون ترجمان آسوکا سیتو Asuka Saito کے مطابق: ” یہ اڑنے والا روبوٹ ہمارے آن لائن سکیورٹی سسٹم کی طرف سے کسی کے غیر قانونی طور پر کسی عمارت میں داخلے کا سگنل ملتے ہی پرواز کر سکتا ہے۔“ سیتو کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے: ” اس سے ہم جلد از جلد یہ جاننے کے قابل ہو جائیں گے کہ مذکورہ جگہ پر کیا ہو رہا ہے۔“آسوکا سیتو کے بقول چار پنکھوں کے ذریعے اڑنے والی یہ مشین دراصل جرمنی کی ایک کمپنی ’اسینڈنگ ٹیکنالوجیز‘ Ascending Technologies کے تیار کردہ ماڈل پر مشتمل ہے جس کے لیے کیمرہ، سوفٹ ویئر اور دیگر ضروری ٹیکنالوجی سیکوم کمپنی کی طرف سے تیار کی گئی ہے۔سیکوم نامی اس جاپانی سکیورٹی کمپنی کے مطابق سکیورٹی کے لیے استعمال ہونے والے دنیا کا یہ پہلا خودکار پرائیویٹ ڈرون دو فٹ قطر کا ہے جب کہ اس کا وزن 1.6 کلوگرام ہے۔ یہ ڈرون کسی بھی فیکٹری کی سکیورٹی انتظامیہ کو ایسے مقامات کی نگرانی بھی فراہم کرتا ہے جہاں مستقل طو رپر نصب سکیورٹی کیمروں سے نگرانی ممکن نہ ہو۔یہ ڈرون طیارہ سیکوم کے آن لائن سکیورٹی سسٹم کا حصہ ہے اور جاپانی کمپنیاں یہ نظام پانچ ہزار ین ماہانہ کے عوض حاصل کر سکتی ہیں۔ یہ رقم 58 امریکی ڈالرز کے قریب بنتی ہے۔ سیکوم کی ترجمان آسوکا سیتو کے مطابق یہ نظام اپریل 2014ء کے بعد کرائے پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔سیتو کا مزید کہنا تھا کہ ان کی کمپنی یہ نظام دیگر ممالک کو بھی فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔امریکہ نے سمندر میں کام کرنے والے ڈرون بھی بنائے ہیں۔ امریکی بحریہ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ سی فوکس نامی ڈرونز کو پانچویں بیڑے میں شامل کیا گیا ہے جس کا دائرہ کار خلیجِ فارس اور بحیرہ عرب ہے۔سمندر کی گہرائی میں کام کرنے والے اس ڈرون کی لمبائی چار فٹ ہے جو کیمرے اور سونار سے لیس ہے اور اسے سطح پر موجود کسی کشتی یا جہاز سے تار کے زریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اسے بنانے والے جرمن ادارے ، اٹلس الیکٹرونکس کے مطابق، یہ اپنے ساتھ دھماکہ خیز مواد تین ہزار دوسو فٹ دوری تک لے جا کر پانی میں موجود بارودی سرنگوں کو تباہ کرسکتا ہے۔طیاروں کے بعد "ڈرون گاڑیاں "بھی میدان میںآگئیں ہیں۔امریکی سرچ انجن گوگل نے سڑک حادثوں سے بچاﺅ کیلئے بنا ڈرائیور کے خود کار گاڑیاں تیار کی ہیں۔ گوگل کی جانب سے خود کار گاڑیوں کو ایکسیڈنٹ پروف قرار دیا جا رہا ہے۔ گاڑیوں میں ویڈیو کیمرے ، ریڈار سسٹم اور لیزر ٹیکنا لوجی نصب ہے۔ راستوں کا میپ گاڑی میں پہلے سے تیار کیا جاتا ہے۔ گوگل ماہرین کے مطابق ان خود کار گاڑیوں میں آزمائشی مراحل کے دوران سان فرانسسکو میں ایک لاکھ 40 ہزار میل کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 12 لاکھ افراد ٹریفک حادثوں میں ہلاک ہو جاتے ہین تاہم گوگل ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ خود کار گاڑیاں حادثوں کی روک تھام میں معاون ثابت ہوں گی۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387499 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More