خبردار! کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے

سماجی ویب سائٹس نے گذشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں انتہائی مقبولیت حاصل کی اور ہمارے ہاں ان سائٹس کے اثر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ان کی مقبولیت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس، جن میں فیس بک اور ٹوئٹر قابل ذکر ہیں، کے ذریعے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے سماجی مباحث کو ترتیب دیا اور لوگوں کی سوچ کو جانچنے کی کوشش کی۔

پاکستان میں حالیہ انتخابی مہم چلانے کے لیے مختلف جماعتوں اور ان کے حامیوں نے سماجی ویب سائٹس کا سہارا لیا۔

ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے تہلکہ مچادیا ہے، کیوں کہ یہ رائے عامہ ہموار کرنے اور اظہارِرائے کا بہت بڑا میڈیم بن گئی ہیں۔

کسی مخصوص خیال یا نظریے کی ترویج کرنے کے ساتھ ساتھ مخالفین سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنی رائے اور سوچ کا کُھل کر اظہار کرنے کے لیے بھی لوگ سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ اس مقصد کے تحت فیک آئی ڈیز بنائی جاتی ہیں۔ یہ صورت حال جتنی صاف اور واضح ہے، درحقیقت اتینی ہی گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔

فیک آئی ڈیز کے ذریعے انتشار پھیلانا، غیراخلاقی تصاویر پوسٹ کرنا یا جھوٹی شناخت کا سہارا لے کر کسی کو انفرادی طور پر زچ کرنا آسان سمجھا جاتا ہے، لیکن ایسا کرنے والے اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں کہ ’’کوئی‘‘ ہے جو ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جی ہاں! برطانوی کمپنی گیماگروپ نے ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے، جو کسی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کمپیوٹر کا کنٹرول حاصل کرکے دستاویزات کاپی کرسکتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر کسی کمپیوٹر سے کتنی آئی ڈیز آپریٹ ہورہی ہیں اس کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ جس گفتگو میں کوئی مخصوص یا مشکوک لفظ شامل ہو یہ سافٹ ویئر اسے فوری طور پر کیپچر کرلیتا ہے۔

پہلے پہل اس بات کا چرچا تھا کہ کسی بھی قسم کی خفیہ گفتگو سیلولر یا لینڈلائن فون سے کرنا خطرناک ہوسکتا ہے، لہٰذا گفتگو کے لیے بین الاقوامی سطح پر آن لائن مکالمے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے سافٹ ویئر اسکائپ نے بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔ اسکائپ اپنے یوزرز کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر موجود حلقۂ حباب سے گفتگو کرنے کی بھی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لیکن گیما گروپ کی جانب سے تیار کردہ ’’فن فشر‘‘ سافٹ ویئر اسکائپ کالز بھی سن سکتا ہے، جو کہ سماجی ویب سائٹس بہ شمول اسکائپ استعمال کرنے والے ہر شخص، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے، جو اپنے ملک کی حکومت سے اختلاف رکھتے اور اسکائپ پر گفتگو کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔

فن فشر کا نظام متعدد ملکوں میں گذشتہ پانچ سال سے کام کر رہا ہے، جب کہ ایک رپورٹ کے مطابق یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ فن فشر پاکستان میں بھی اپنا کام کر رہا ہے۔ فن فشر کے ذریعے کسی بھی اسمارٹ فون، بلیک بیری، ونڈو اور ای میلز تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی اس سافٹ ویئر کے ذریعے کمپیوٹر کے مختلف پاس ورڈز بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ یہ سافٹ ویئر کوئی کمپنی حاصل نہیں کرسکتی۔ فن فشر کو حکومتی سطح پر ایک مخصوص معاہدے کی بنیاد پر خرید جاسکتا ہے۔ اس سافٹ ویئر کو شخصی آزادی پر ایک خطرناک حملہ تصور کیا جارہا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر سرگرم مختلف این جی اوز اس حوالے سے سرتاپا احتجاج ہیں، جب کہ یہ خبر عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ایک عرصے سے گردش کر رہی ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما کو بھی اس حوالے سے قوم کے سامنے وضاحت کرنے کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے اسے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی خلاف ورزی کے بجائے ملکی مفاد کے لیے ضروری قراردیا۔ پاکستان میں اسکائپ سمیت مختلف سماجی ویب سائٹس کے صارفین اب تک اس بات سے ناواقف ہیں کہ ایک باقاعدہ نظام کے تحت انٹرنیٹ سماجی ویب سائٹس اور کالز کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاسکتا ہے یا ممکنہ طور پر رکھا جارہا ہے۔

انٹرنیٹ پر صارفین کی نگرانی میں اس حد تک اضافہ ہوگیا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی چھے ماہ میں انٹرنیٹ کے معروف سرچ انجن گوگل کو مختلف ممالک سے اکیس ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جن میں حکومتی اداروں کی ڈیٹا تک رسائی رسائی کو محدود کرنے کے لیے کرنے کے حوالے سے اپنا اپنا موقف بیان کیا گیا ہے۔ گوگل کا کہنا ہے کہ حکومتیں گوگل پر موجود کوئی مواد ہٹوانے کے لیے ملک کی بدنامی، راز ہونے اور سیکیوریٹی جیسے تین اہم عذر پیش کرتی ہیں۔

ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں سوشل ویب سائٹس استعمال کرنے والے اپنی ذاتی زندگی اور نظریات کے بارے میں چیٹنگ یا آن لائن گفتگو کے معاملے میں پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں کہ کہیں ان کا ادا کیا ہوا کئی لفظ ان کے اپنے ملک کی حکومت یا دنیا کی بڑی سرکار امریکا کے اداروں کے نظر میں مشکوک قرار پائے اور ان کے لیے مصیبت کھڑی ہوجائے۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311676 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.