اسلام کے نام پر قائم ہونے والی واحد اسلامی ریاست پاکستان کے بارے میں
شروع میں ہی دعویٰ کر دیا گیا تھا کہ یہ چھے ماہ بعد اس کا وجود نہ رہے گا
لیکن وقت نے اس با ت کو غلط ثابت کر دکھایا اگرچہ بعد میں پیدا ہونے والے
حالات و واقعات کی وجہ اس کے ایک حصہ اس سے جدا ہونا پڑا لیکن پھر بھی دنیا
میں اولین اسلامی ایٹمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ اس سلسلے میں
ہمارے سائنس دانوں بالخصوص ڈاکٹر عبدالقدیر اور چند سیاستدانوں کا اہم
کردار ہے جن میں سے ایک کو اس کا ازالہ اپنی جان دے کر ادا کرنا پڑا اور
شاید اسی وجہ سے عوام کے دلوں میں آ ج بھی زندہ ہے۔
ہمارے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں گذشتہ کئی سالوں سے چہ مگوئیاں کی جا رہی
ہے کہ یہ القاعدہ، طالبان یا دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اور اس کی وجہ
یہ بتلائی جاتی ہے کہ انکی حفاطت کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا ہے۔
حالانکہ سات اعلانیہ اور دو غیر اعلانیہ ایٹمی ریاستوں کے پاس بھی ایسا
حفاظتی نظام نہیں ہے یوں سمجھئے کہ اگر کسی نے ایٹمی اثاثوں کے گرد ایک
حفاظتی حصار رکھا ہوا ہے تو ہم نے تین حصار رکھے ہوئے ہیں۔ اور اسی بنا پر
ہی پاکستان آغیار کی جنگ کرنے کوششوں سے بچا ہوا ہے جن کا مقصد اس صلاحیت
کو ختم کرنے کے در پے ہیں۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے ہی آج پاکستان بہت حد
تک مستحکم ہو چکا ہے۔
الحمداللہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور اب تک ان تک رسائی
کی دو کوششیں ناکام بھی بنائی جا چکی ہیں جس میں ایک اسرائیل اور بھار ت کا
مشترکہ مشن تھا اور تیسرے فریق کی شمولیت کے بارے میں بھی واضح ہو چکا ہے
کہ کون تھا لہٰذا سب کو اس کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آجکل اس کو
ہی ہمارے ان اثاثوں کی زیادہ فکر لگی ہوئی ہے جب کہ اس کو اپنے اور دیگر
ممالک کی جانب سے افغانستان میں گم یا لاپتہ ہھتیاروں کی فکر ہونی چاہیے جو
کہ کثیر تعداد میں ادھر ادھر ہو گئے ہیں اور قوی امکان ہے کہ وہ پاکستان کے
خلاف استعمال ہو رہے ہوں یا کئے جائیں۔
پاکستان میں بھی چند ناعاقبت اندیش لوگوں کو ایٹمی قوت کی صلاحیت کے حصول
پر اعتراض ہے وہ حقائق سے منافی باتیں کر کے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے غیر
ملکی آقاؤں کو خوش کر رہے ہیں۔ حالانکہ قومی سلامتی پر کسی کو بھی کسی طور
کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور دوسروں کو سمجھانے کی بجائے خود سمجھنے
کی ضرورت ہے اس سسلسلہ میں حق پر مبنی بیانات یا دلائل سے سب کو قائل کرنے
کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایرا غیرا اپنی حکمت دوسروں پر نہ تھوپے۔ اس کے ساتھ
ساتھ سب کو ایٹمی اثاثوں کے حوالے یکسر خاموشی کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے
کسی کو جواب دینا فضول ہے ۔ خاموش رہنے کا عمل سب کو بالآخر چپ ہوجانے پر
مجبور کر دے گا بصورت دیگر معاملہ کوئی اور رخ بھی اختیار کر سکتا ہے جو کہ
ملک و قوم کی سلامتی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے۔ |