میرے پاس سبھی کچھ ہے۔ صرف ایک
میں خود اپنے پاس نہیں ہوں۔اور میں کھویا بھی کہیں نہیں ہوں لیکن میں خود کو
ملا بھی نہیں ہوں۔ خود کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے عمر گزار دی۔ دل کا غم سنانے کے لیے
ترستا رہا کہ کوئی تو ہو جسے کچھ سنا سکوں۔ کسی کو اپنا کہنے کے لیے ترستا رہا۔
پر کہتا کسے، سناتا کسے؟میں تو ٹھرا لوگوں کے ہجوم میں بالکل تنہا۔ رات کے
اندھیرے میں چاند کو دیکھنے کی تمنا ہوئی تو کھڑکی سے جھا نکا تو چاند بھی خفا
سا لگا۔ میرے دیکھتے ہی بادلوں کی اوٹ میں آ گیا۔ میں گھنٹوں اس کے انتظار میں
رہا۔ پر کہاں؟ میرے تو نصیب میں تنہائی تھی۔ ایک وقت آیا خدا سے مانگتے ہوئے
بھی شرمانے لگا۔ بے سبب مانگتا رہا اور وہ دیتا رہا۔ اور اب کندھوں پر ایسے
جیسے سات جنموں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں۔ ہاتھ کی لکیروں پر نگاہ دوڑائی تو گد
مڈ لکیروں کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا۔ مٹھی بند کی تو آنسو قید ہو گئے۔ دل نے
جس پر اعتماد کیا ہر کسی نے یقین کا گھڑا توڑا۔ کتابوں میں کبھی پڑھا تھا کہ
کبھی کسی کا دل نہ توڑنا کیونکہ دل میں خدا بستا ہے۔ ایک دل کے خدا کو بچاتے
بچاتے میں نے اپنے آسمان کا خدا توڑ ڈالا۔ زندگی میں محبت کے لیے گنتی کے لوگ
ملے۔ وہ بھی روٹھ گئے۔ میں خوشیاں ڈھونڈنے نکلا تو اپنے ہی راستے سے بھٹک گیا۔
اس زمانے نے بہت درد دیا پھر بھی کم بخت دل نے اس دنیا سے منہ نہیں موڑا۔ ان
آنکھوں نے ماتم ہوتے دیکھے، ان آنکھوں نے غربت اور افلاس کے مارے لوگ دیکھے۔ ہر
طرف تنہائی ہی تنہائی ، غم ہی غم دیکھا، پر یہ دل سب سہتا رہا۔ میری جھکی ہوئی
کمر، میرے سفید بال، میری آنکھوں میں سفید موتیا، میری ڈولتی ہوئی سانسیں اور
بے سبب دھڑکتا ہوا دل نہ جانے کیوں ماضی کو یاد کر کے زار و قطار رونے لگا اور
بس ایک ہی التجا کرنے لگا “مجھے امر کر دو“۔ |