دور جدید کے انوکھے جاسوس

جاسوسی ایک آرٹ ہے اور دنیا کے قدیم ترین فنون میں سے ایک! جب ایشیا اور افریقہ میں ہزاروں سال قبل انسانی آبادیاں آباد ہوئیں تو فنِ جاسوسی نے جنم لیا۔ تب ہر بستی کے جاسوس بغرض دفاع یا جنگ دوسری بستیوں کی جاسوسی کرتے تھے۔ آج مشینوں کے دور میں یہ فن بھی مشینی جامہ پہن کر بڑا جدت پسند ہوچکا۔

مثال کے طور پر ماہ جون میں اس خبر نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی کہ امریکی حکومت جدید ترین کمپیوٹر پروگراموں کی مدد سے دنیائے انٹرنیٹ، موبائل اور ٹیلی فون استعمال کرنے والوں کا اربوں کے حساب سے ڈیٹا جمع کرتی ہے۔ مگر حکومتیں ہی نہیں کاروباری، ایڈورٹائزنگ ادارے اور جرائم پیشہ بھی اپنے اپنے مفادات کی خاطر سائبر دنیا میں موجود اربوں انسانوں کی جاسوسی کرتے ہیں۔
 

image


سائنس کی زبردست ترقی کے باعث درج بالا افراد خصوصی اوزار رکھتے ہیں تاکہ اپنا کام کرسکیں… ایسے اوزار جو اب عام ہوچکے۔ جی ہاں‘ آج سمارٹ فون سے لے کر آپ کی خواب گاہ میں موجود ٹی وی تک کئی آلات کے ذریعے جاسوسی اور نگرانی کرنا ممکن ہوچکا۔ انہی آلات کا تذکرہ درج ذیل ہے۔ ٭٭٭٭

آپ یہ تو جانتے ہیں کہ آپ کا موبائل فون سمارٹ ہے لیکن کتنا؟… اتنا سمارٹ کہ آپ کی ہر حرکت نوٹ کرسکے، اتنا سمارٹ کہ اردگرد بولے گئے ہر لفظ کو ریکارڈ کرلے! دراصل سمارٹ فون بہترین کمیونیکیشن اور تیز رفتاری سے کام انجام دینے کی خاطر مختلف برقی آلات رکھتے ہیں مثلاً مائیکروفون، جی پی ایس ریسیور، ایسلرومیٹر (اسراع پیما)، وائی فائی انٹینا وغیرہ۔ لیکن انہی آلات کے ذریعے کسی فرد کی جاسوسی بھی ممکن ہے۔
 

image

جان ہیریسن اینٹی وائرس پروگرام بنانے والی مشہور کمپنی، سیمنٹک (Symantec)میں ماہر ہے ۔وہ بتاتا ہے ’’کسی زمانے میں ہر قسم کے شرانگیز پروگرام (Malaware) صرف کمپیوٹروں میں ملتے تھے، مگر اب وہ سمارٹ فونوں میں بھی داخل ہونے لگے ۔ مثال کے طور پر ریموٹ ایسیس ٹراجن!‘‘ یہ ٹراجن ہارس ( remote-access Trojans)سمارٹ فون اور آپریٹنگ سسٹم استعمال کرنے والے سبھی آلات کو جیمز بانڈ میں تبدیل کر ڈالتے ہیں۔ وہ پھر پاس ورڈ چراتے، وڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ کرتے حتیٰ کہ حملہ تک کر ڈالتے ہیں۔ سمارٹ فون ہیکروں کے حملے سے بھی محفوظ نہیں۔

چند ماہ قبل امریکی شہر، نیوجرسی میں واقع رٹگرز یونیورسٹی(Rutgers University) کے محققوں نے انوکھا تجربہ کیا۔ انہوں نے سمارٹ فونوں پر روٹ کٹ (rootkit)حملے کیے جو کامیاب ثابت ہوئے۔ نتیجتاً ہر سمارٹ فون کمرے یا کسی بھی جگہ جاری گفتگو خفیہ طور پر ریکارڈ کرنے لگا۔ محقق سمارٹ فون میں ایسا شرانگیز پروگرام انسٹال کرنے میں بھی کامیاب رہے جو فون کے جی پی ایس ریسور کی مدد سے استعمال کنندہ کی حرکات نوٹ کرتا اور اپنے مالک کو بھجواتا ہے۔

محققوں کا کہنا ہے کہ سمارٹ فون کے شرانگیز پروگرام زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ کمپیوٹر تو ایک جگہ ہی رہتا ہے، جبکہ انسان سمارٹ فون ساتھ لیے پھرتا ہے۔ ایک متاثرہ کمپیوٹر تو صرف دفتر یا گھر ہی میں گفتگو ریکارڈ کرتا ہے۔ لیکن سمارٹ فون ان تمام ’’ٹاپ سیکرٹ‘‘ میٹنگوں کی تفصیل ریکارڈ کرسکتا ہے جو خفیہ مقامات میں انجام پائیں۔
 

image

اگر آپ کے پاس راز موجود نہیں، تب بھی سمارٹ فون کی جاسوسی آپ کو مصیبت میں مبتلا کر سکتی ہے۔ پچھلے سال امریکی فوج کے کمپیوٹر سائنس دانوں نے ایسا جاسوس تھری ڈی سافٹ وئیر ایجاد کیا جو سمارٹ فون کے آپریٹنگ سسٹم میں گھس جاتا ہے۔ وہ پھر کیمرے کی تصاویر کے ذریعے فون کے چاروں طرف مناظر کا تھری ڈی نقشہ تیار کرتا ہے۔ مذید براں بذریعہ ایسلرو میٹر جگہوں کی سمت بندی تشکیل دیتا ہے۔ ’’پلیس ریڈر‘‘(PlaceRaider) نامی یہ سافٹ وئیر پھر کمرے یا جگہ کا نقشہ اور دیگر مقامات بیرونی سرور کو بھجواتا ہے۔ ظاہر ہے، امریکی فوج نے یہ سافٹ وئیر دشمنوں یا دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے تیار کیا۔ مگر یہ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگا، تو وہ قیامت ڈھا دیں گے۔

پلیس ریڈر کی مدد سے ان کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ سمارٹ فون رکھنے والے کسی بھی شخص کے گھر یا دفتر کا تھری ڈی نقشہ تیار کرسکیں۔ پلیس ریڈر میں سہولت بھی موجود ہے کہ کوئی شے مثلاً میز پر رکھی دستاویز یا کھلی الماری کو بڑا کر کے دکھا سکے۔ یوں چور ڈاکو آپ کے گھر یا دفتر کا تھری ڈی نقشہ بنا کر باآسانی حملہ کرسکیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر وہ آلہ جو انٹرنیٹ یا جی پی ایس یا ہائی فائی سے منسلک ہو، اس کے ذریعے آپ کی جاسوسی کرنا ممکن ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ایسے تمام آلات میں ملتی جلتی برقی آلات نصب ہوتے ہیں۔ سمارٹ فون کے علاوہ ان میں ٹیبلٹ، سمارٹ ٹی وی، کیبل ٹی وی، گیمنگ کونسول اور سمارٹ گھریلو الیکٹرونکس (ریفریجریٹر، بجلی کے میٹر وغیرہ) شامل ہیں۔

غرض ہائی فائی، ٹچ نظام اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز نے انسانی زندگی آرام دہ تو بنا دی۔ لیکن شرپسند انہی کے ذریعے نہ صرف آپ کی جاسوسی کرسکتے ہیں بلکہ چاہیں تو مالی نقصان بھی پہنچا دیں۔ اس لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی آلات سوچ سمجھ اور دیکھ بھال کر ہی استعمال کریں۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Recent headlines about PRISM — the U.S. government program that allows security officials to spy on people’s Internet activity — confirm what conspiracy theorists have long been foretelling: Big Brother is watching. But is the government the only one keeping tabs on what you search for, watch and discuss with friends? The truth is, there are others out there — businesses, advertisers, scammers — hoping to line their pockets by collecting your personal data.