میاں صاحب کا تیسرا،اور عوام۔۔۔
(Muhammad Shahid Yousuf Khan, )
ملک کی تاریخ میں یہ پہلی بار
ہو رہا ہے کہ ہ میاں محمد نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ ملک کے منتخب
وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ان کو مبارک ہو۔ لیکن یہ کامیابی عوام کی مرہون
منت ہے۔میاں صاحب فرماتے رہے ہیں کہ ہمیں کبھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی
ورنہ ملک کی حالت تبدیل ہوتی اس لئے قوم نے میں صاحب کو اپنی اور ملک کی
حالت بدلنے کا وقت دیا ہے۔اگر اس مرتبہ بھی میں صاحب قوم کی حالت نہ بدل
سکے تو بقول شیخ رشید ’’میاں صاحب کی حکومت دو سال بڑی مشکل سے کر پائے
گی‘‘۔میاں نواز شریف صاحب اس سے پہلے ایک مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے
اور دو بار وزیراعظم بھی رہے لیکن مدت پوری نہیں کر پائے جبکہ ان کے چھوٹے
بھائی میاں محمد شہباز شریف دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں جنہوں نے
اپنے گڈ گورننس کو قائم رکھا بہت سے مسائل کا مقابلہ کیا اور عوام میں
مقبول ہوئے ان کی گڈ گورننس حالیہ الیکشن میں ان کی کامیابی کی وجہ بنی ہے۔
میاں صاحب کی مدبرانہ سوچ نے مخالفین کو حکومت بنانے سے پہلے ہی خاموش
کرادیا۔عمران خان نے الیکشن کمپین کے دوران میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں
لیا اور ان کا زیادہ ٹارگٹ میاں نواز شریف ہی تھے لیکن میاں صاحب نے سب
تلخیاں بھلا کر عمران خان کی عیادت کی اورملکی مسائل کے لئے مل کر چلنے کا
عہدکیا۔چین کے وزیراعظم کی آمد پر زرداری صاحب سے بھی ون ٹو ون ملاقات کی
اور دوسرے سیاسی رہنما ابھی ملتے رہے ہیں۔میاں صاحب نے تو مشرف کی جیل
دیکھنے کے بہانے چک شہزاد سے باہر سے بھی گزرے اور سب جیل کی زیارت فرمالی۔
مئی 2006 کو لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان
میثاق جمہوریت نامی معاہدہ ہوا تھا جس کی رو سے کوئی بھی شخص تیسری مرتبہ
وزیراعظم بن سکتا ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو تو تیسری مرتبہ وزیراعظم بننا
نصیب نہ ہوا اور نہ ہی اپنی جماعت کی کرپٹ حکومت دیکھنا نصیب ہوئی۔محترمہ
نے بھی میاں صاحب کی طرح پہلے اپنی مدت پوری نہیں کی تھی۔لیکن بدقسمتی سے
پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سال بھی مکمل کر لئے ہیں۔ اس بار تو حالات پچھلے
ادوار سے بہت کٹھن تھے لیکن زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کامیاب رہی۔زرداری
صاحب نے اپنوں کو بھی راضی کئے رکھا اور دوسروں کو بھی۔میاں صاحب کو اس
معاملے میں تھوڑی تبدیلی کرنی ہوگی وہ یہ کہ اپنوں کو راضی کرنے کی بجائے
قوم کو راضی کرنا ہوگا ۔پیپلز پارٹی نے ۵ سال اپنی قربانیوں کے عوض لئے
لیکن ان قربانیوں کا حق ادا نہیں کر پائے۔پیپلز پارٹی نے جس بھٹو خاندان کے
نام پر ووٹ لئے اس کے ساتھ وفا نہ کی ایک تو بھٹو خاندان کے قاتل آج تک
گرفتار نہیں ہوئے دوسرا یہ کہ بھٹو خاندان چاہے ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوں
یا ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو پوری زندگی غریب عوام کے لئے لڑتے رہے
اور جان تک دے دی۔جس روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ بھٹو نے لگایا تھا اس کی
پارٹی نے اس نعرے کی تکمیل نہ کی۔بھٹو کی نام لیوا پیپلز پارٹی نے پانچ سال
مکمل کئے لیکن غریبوں کے لئے کوئی عملی اقدامات نہ کئے جوپیپلز پارٹی کی
شکست کی وجہ بنی۔
یہ حقیقت بجا ہے کہ میاں برادران نے اتنی قربانیاں نہیں دیں جتنا بھٹو
خاندان نے دی ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو اپنے دونوں بیٹوں اور اکلوتی بیٹی کے
ہمراہ گڑھی خدا بخش میں ابدی نیند سو رہے ہیں ان کے نام لیوا تو موجود ہیں
لیکن ان کے خوابوں کی تعبیر پوری کرنے والے نہیں ہیں۔پاکستان کا ایٹمی
ٹیکنا لوجی بنناذوالفقار علی بھٹو کا خواب تھا جس کی تعبیر جنرل ضیاء الحق
نے کی اور میاں نواز شریف سے اس خواب کی تکمیل کی محترم ڈاکٹر عبدالقدیر کی
محنت اور اﷲ کی مدد سیمیاں صاحب نے 28 مئی 1998کو ایٹمی دھماکے کیے اور
پاکستان کو ایک دشمنوں سے محفوظ کرلیا لیکن دشمن اب بھی شیطانی چالوں میں
مصروف ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹونے آخری وقت جیل میں گزارا اور میاں نواز شریف
اور ان کے خاندا ن نے پاکستان کی جیل کی بجائے ملک بدری اختیار کر لی
اورسعودی عرب میں پر سکون زندگی کو ترجیح دی۔اس میں میاں صاحب کی خوش قسمتی
بھی ضرور تھی اور آج میاں صاحب کو اس کا پھل ملا ہے۔آج میاں نواز شریف صاحب
کو جلا وطن کرنے والا آمر خود ساختہ جلا وطنی کے بعد اپنے ہی گھر میں قید
ہے۔یہ تو جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق ہے۔مشرف صاحب کا ایسا حال ہوا ہے
کہ وہ لوگ جو اسے کئی مرتبہ باوردی صدر بنانا چاہتے تھے وقت کے ساتھ بدل
گئے اور کبھی ملاقات یار کا شرف حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔اس وقت
کے آمر کا ساتھ دینے والے پھر کچھ عرصہ جمہوریت کی کشتی میں سوار رہے لیکن
کامیاب نہ ہوئے اور اب بھی یہ لوگ پرانی چالوں میں مصروف ہوں گے۔
جس دن ناکام حکومت کے پانچ سال مکمل ہوئے اسی دن جمہوریت کے بھی پانچ سال
پورے ہوئے۔سیاسی مفکرین نے بد ترین جمہوریت کو بہترین آمریت سے بہتر قرار
دیا ہے اور زرداری صاحب نے جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا ہے۔پانچ
جمہوری سال مکمل ہونے پر یہ کریڈت آرمی،عدلیہ اور سیاسی قوتوں کو جاتا
ہے۔میڈیا نے بھی اچھا رول ادا کیا لیکن کہیں گڑ بڑ بھی ضرور کی۔ہاں البتہ
میڈیا نے سیاسی جماعتوں کی کمپین اور الیکشن میں ووٹ کی قیمت کا احساس ضرور
دلایا اور سیاسی پارٹوں کے منشور کو بھی واضح کیا جس سے عوامی شعور میں
اضافہ ہوا اور ووٹوں کی شرح فیصد ماضی کی نسبت قدرے زائد رہی۔جبکہ اس کے بر
عکس سوشل میڈیا فیس بک وغیرہ تعلیم یافتہ طبقہ کے زیراستعمال ہے جہاں
نوجوانوں نے اپنی پارٹیوں کی کمپین چلانے کے علاوہ انتہائی ناشائستہ زبان
استعمال بھی کی ۔جس کا فائدہ کی بجائے نقصان ہوا اورووٹ بڑھنے کی بجائے
نفرتوں میں اضافہ ہوا۔
میاں نواز شریف اب حکومت بنانے جارہے ہیں اور اس بار تقریباً نئی اپوزیشن
کا سامنا کرنا پڑے گا۔پچھلے ادوار میں میاں صاحب کو پیپلز پارٹی اپوزیشن
لیڈکرتی رہی اور اس بار پیپلز پارٹی قومی نشستوں میں تحریک انصاف سے کچھ
آگے ہے لیکن حزب اختلاف کا رول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اب اگر عمران
خان نے بطور اپوزیشن لیڈر کام کیا تو میاں صاحب کوایک مظبوط اپوزیشن کا
سامنا کرنا پڑے گا۔اس وقت ملک عزیز میں اہم مسائل دہشت
گردی،لوڈشیڈنگ،غربت،بے روزگاری،مہنگائی اور معاشی مسائل ہیں۔اگر ان تمام
مسائل میں سے صرف دو مسائل دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیا گیا تو
باقی مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے۔دہشت گردی کے لئے سب جماعتوں کو مل کر
لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا جس میں طالبان سے مزاکرات کرنے ہونگے جس کا میاں
صاحب پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں اور طالبان کی طرف سے بھی اچھا رسپونس ملا
ہے۔دوسرا مسئلہ لود شیڈنگ کا ہے جس کے لئے کالا باغ ڈیم کا بنانابہت ضروری
ہے اور بھی چھوٹے ڈیم بنانے چاہیئں ۔پانی و بجلی کے وزیر جناب مصدق ملک نے
برملا یہ کہا ہے کہ واپڈا بھی کرپشن کا مرکز بنا ہوا ہے اور اسے کنٹرول
کرنے کے لئے بہتر حکمت عملی اپنانی ہوگی۔بجلی کا مسائل حل ہوتے ہی روزگار
میں بھی یقینی طور پراضافہ ہوگا اور غربت میں بھی کمی ہوگی۔عوام اس بار
اچھی امیدمیں ہے کہ ملک کو نیا بنانے کی جبائے پہلے والے ہی کو ریپئر کیا
جائے اور مضبوط بنایا جائے جس کے لئے عوام نے میاں صاحب کو تیسرا موقع دیا
ہے اب میاں صاحب کو چاہئے کہ اس قوم کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کریں
تاکہ کل اﷲ کی عدالت میں بھی سُرخرو ہوں ۔ |
|