امان رمضان

کراچی میں علاقہ قبضہ مافیاز کیجانب سے پر تشدد کاروائیوں کی بنا ءپر عوام میں خوف و ہراس کےساتھ ملک بھر میں دہشت گردی کی صورتحال نے مزید شدت اختیار کرلی ہے۔دہشت گرد ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پرواہ کئے بغیر جب چاہتے ہیں کسی بھی انسان کی جان لینے سے دریغ نہیں کرتے ،پولیس اہلکار ، سیاسی جماعت سے لیکر بے گناہ عوام کے قتل عام پر حکومتی اداروں کی نااہلی پر اسراےت میں داخل ہوتی جا رہی ہے اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کیجانب سے کارکردگی پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں ، جو باعث تشویش ہے۔حکومت کیجانب سے دہشت گردی کےخلاف قومی پالیسی کی کانفرنس اچانک ملتوی کردی گئی ، جو حیران کن ہے۔ملک بھر میں دہشت گردی کی سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مملکت کے ہر گوشے میں عوام نادیدہ قوت کی انتقامی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔حکومت کیجانب سے تمام پارلیمانی جماعتوں اور سیکورٹی اداروں کےساتھ مشترکہ حکمت عملی کےلئے کانفرنس طلب کرنا ، وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم بیمار ی کی تشخص درست سمت میں کرنے کے بجائے لاغر ریاستی رٹ کو اینٹی بائی ٹیک دیکر غیر موثر طرےقے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ، دہشت گردی کے وائرس کو جڑ سے ختم کرنے کے بجائے وقتی علاج پر تمام توانائی صرف کردےتے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردی کاوائرس ، نئی قوت کےساتھ اثر انداز ہوکر مزید نقصان پہنچاتا ہے۔پاکستانی نوجوان موجودہ حالات کی وجہ سے انتہائی ابتر نفسیاتی اور معاشی بد حالی صورتحال کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ۔ ماہ رمضان کی آمد کےساتھ ہی ملک میں دہشت گردی کی لہر نے عوام میں عدم تحفظ کے احساس کو دوچند کردیا ہے۔ملک کی ابترمعاشی صورتحال کے باعث ہر فرد کے چہرے پر شادمانی کی چمک، رمضان کی آمد پر مسرت اور ہر سحر و افطار پر اہتمام اور بچوں کی جانب سے خوشیوں بھری چہکاریں مفقود ہو چکی ہیں۔ رمضان کے آغاز پر ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ نماز کےلئے مساجد کی رونقیں ، عوام الناس کی طرف سے روزوں اور تراویح کے اہتمام سمیت وہ سب باتیں نظر آئیں گی جو ایک مسلم معاشرے میں نظر آتا ہے ، لیکن دہشت گردی کے ہاتھوں تباہ ہونے والے خاندانوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے کیونکہ اس کے گھر کا کفیل اس ماہ مقدس کے احترام کےلئے کی جانے والی تقریبات میں ان کے ہمراہ شامل نہیں ہوتا۔رمضان اللہ تعالی کی جانب سے مسلمانوں کےلئے سب سے بڑا انعام ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ میں اب ہر سال خونی رمضان سے امن و سلامتی کے اس دین کا چہرہ اصلاح کے نام پر فساد پیدا کرنے والوں کی وجہ سے مسخ ہوتا جارہا ہے۔بھتہ خوری ،منافع خوری ، چور بازاری ، گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے سبب رمضان جیسے متبرک مہینے کو " ناجائزکمائی کاسیزن"کا مہینہ قرار دیا جاتا ہے۔دہشت گردوں کے جو بھی مقاصد ہوں ، پاکستان اپنے غریبوں ، محنت کشوں اور کسانوں کی محنت و ایثار اور اللہ تعالی کے فضل و کرم کی وجہ سے ابھی تک سلامت ہے۔شر پسند عناصر اپنے مقاصد کے حصول کےلئے رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں بھی انسانی خون بہاتے رہیں گے ، کیونکہ ان کے مسلم دنیا کا قلعہ کہلانے والے ملک پاکستان کے دشمنوں کا آلہ کار ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔نیو ورلڈ آرڈر کو نئے معانی دے کر دنیا کا چہرہ بدل دیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ہم پاکستانی ہیں کہ ہماری زمیں بارود کی فصل اور خودکش بمباروں کی نسل پیدا کرنے لگی ہے اور ہمارے آسمانوں پر میزائل اگلنے والے ڈرون طیارے نمودار ہونے لگے۔یہ محض اتفاق ہو یا کسی طے شدہ اسکرپٹ کا ٹیکنالوجی شو۔ہمارا بہت کچھ اس کی نذر ہوگیا۔ماہ رمضان میں مخیر حضرات غریب غربا ءکو راشن یا امدادی سامان نقد کی صورت میں دےتے ہیں۔کاش ہمارے سرکاری ادارے اپنی کارکردگی اور رہنمائی کے دعوﺅں کو مخصوص ایام سے بڑھا کر اُس حد تک متعین کرلیں کہ وہ جان سکیں کہ اللہ تعالی اُن سے اِن کی حکمرانی کے ایک ایک لمحے کا حساب باریکی اور بے رحمی سے لے گا کیونکہ ریاست کو بطور امانت پانے والے خیانت کے مرتکب پائے جانے والے رب ذوالجلال کی سخت قوانین کی زد سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گے ۔ملک میں دہشت گردی کا سیلاب اس اٹھان کےساتھ ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔پانی کا سیلاب تو ایک دن اتر ہی جاتا ہے ، مگر دہشت گردی کی وجہ سے دکھوں کا سیلاب جو امڈ آیا ہے اس میں تاخیر سے سوائے نقصان کچھ حاصل نہیں ہوگا۔قدرتی وسائل سے مالا مال اس مملکت کے پشتوں کی حفاظت میں بے اعتنائی کی بہت سی کہانیاں بے نقاب ہوچکی ہیں ، ملک اب کسی بھی قسم کی نئی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ قیادت کا دعوی کرنے والوں کا اصل امتحان ماہ رمضان ہی ہے جس میں وہ اپنی اور قوم کی درست تربیت حاصل کرکے ریاست کو انصاف کے عین اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل ہوسکیں۔ہمیں اس موقع پر یہ سبق ضرور حاصل کرنا چاہیے کہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں اور امن و امان کے لئے مائشی اقدامات کو کافی سمجھا گیا تو اعتماد کا بحران بڑھ کر عوامی طوفان کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔کراچی سے لیکر خیبر پختونخوا تک امن و امان کی صورتحال پر مربوط اور عملی پالیسیاں ہی نتیجہ خیز ثابت ہوسکتیں ہیں۔لاپرواہی اور آسمانی مدد کے انتظار میں عوام کو تختہ مشق بنانے کے سلسلے کو مزید دراز کرنے کے بجائے اخوت ، امت واحدہ اور بلا تفریق خدمت کو عین عبادت سمجھ کر ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔پاکستانی قوم کا مزاج ، آمرانہ حکومتوں کی وجہ سے جمہوری اور برداشت کی سیاست سے نا آشنا ہے ، جیسے نو زائیدہ جمہوریت میں پنپنے کےلئے تمام سیاسی اکائیوں کو برداشت اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی پالیسی اپنانا ہوگی ، صوبائیت ، لسانیت اور فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کے بجائے ملی ، بھائی چارے اور اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ماہ رمضان ، امان کا مہینہ ہے ، جس میں ہر انسان کو امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے۔اس مہینے میں بھی اگر شدت پسندوں ، دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کی مانی مانیاں جاری رہیں اور حکومت سیاسی مصلحتوں و مفاہمتوں کے عمل سے گریز کی راہ اختیار نہیں کرتی تو بڑی واضح تفریق سامنے آجائے گی کہ مسلم اور غیر مسلم میں کیا فرق ہے ۔جس شخص یا ادارے یا گروپ میں احترام رمضان میں امان کا تصور نہ ہو اُس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور ان کےلئے کسی فتوی کی ضرورت۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744916 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.