اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں

مورخہ ٥ جون ٢٠٠٩ کو جناب ارشاد احمد حقانی صاحب کے ایک کالم میں مندرجہ ذیل نظم جو جناب امیر الاسلام ہاشمی صاحب کی ہے پیش کی گئی ملاحظہ فرمائیے :

دہقان تو مرکھپ گیا اب کس کو جگائوں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلائوں
شاہین کا ہے گنبد شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرد مایہ کو اب کس سے لڑائوں

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

ہر داڑھی میں تنکہ ہے تو ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب زوق یقین سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

شاہین کا جہاں آج بھی کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے مجاہد کی ازاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

مر مر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

(اوپر کے سطروں میں کہیں نظم نگار کا اشارہ میاں صاحب کی طرف تو نہیں جو گندی سیاست میں مزید گندگی پھیلانے حرم جیسی پاک صاف جگہہ چھوڑ کر پاکستان کی سیاست میں اپنا حصہ بٹورنے آن دھمکے اور مرحوم جناب محترم میاں شریف صاحب جو ایسی جگہ اللہ کو پیارے ہوئے جہاں دم نکلنا اور جہاں دفن ہونا ہر مسلم کے لیے اعزاز ہے مگر بے چارے میاں شریف مرحوم کہ جنکی اولاد نے ان کے جسد خاکی کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے پاکستان بھیج دیا تاکہ اس پر کچھھ سیاسی غل غپاڑہ اور شور و غوغا کرکے کچھ سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکیں)
بیبانی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی ازاں سے
اس بندہ مومن مو میں اب لائوں کہاں سے
وہ سجدہ، زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو!
اک بار تھا، ہم چھٹ گئے اس بار گراں سے

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے، زاتوں کے، نسب کے
اگتے ہیں تہہ سایئہ گل، خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا، مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

ًمحمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مر، مر کے جئے جاتے ہے، جی، جی کے مرے ہے

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

دیکھو تو زرا محلوں کے پردوں کا اٹھا کر
شمشیروں سناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیر امم سو گئی طائوس پہ آکر

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

مکاری و عیاری، غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو!
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں


کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن

اقبال! ترے دیس کا کیا حال سنائوں

اوپر دی گئی تحریر کو خود مطالعہ کرنے کے لیے لنک حاضر خدمت ہے

https://jang.com.pk/jang/jun2009-daily/05-06-2009/col1.htm

اور نظم کے دوران ( ) بریکٹ میں تبصرہ اس خاکسار کی طرف سے ہے نظم نگار کی طرف سے نہیں ہے چوٹ لگ جانے پیشگی کی معزرت چاہتا ہوں

اوپر کی نظم کیا کہیں اپنا حال اپنی زبان سے پیش کر رہی ہے۔ اتنی حق پرستی اور اتنی سچائی پر نظم نگار کو خراج تحسین اور اگر ہمیں مزکورہ باتیں بری لگیں چاہے حق ہی کہا گیا ہو تو تف ہے ہمارے زوق، ہمارے شعور اور ہمارے ضمیر پر۔
آپ کا خادم
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 503773 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.