امت مسلمہ سے ہالبروک کا استفسار اور ہماری خاموشی
(M. Furqan Khan, Karachi)
گزشتہ دنوں مورخہ پانچ جون دو ہزار نو کو روزنامہ جنگ میں رچرڈ ہالبروک کا ایک
بیان نظر سے گزرا اب تو قومی بے حسی و بے غیرتی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان کا بیان پڑھ
کر ہنسی آئی توجہ رہے جہاں شرم آنی چاہیے تھی وہاں ہنسی آئی۔
https://jang.com.pk/jang/jun2009-daily/05-06-2009/main.htm
پاکستان اور افغانستان کیلیے امریکی صدر بارک اوباما کے خصوصی نمائندہ رچرڈ ہالبروک
نے کہا کہ
“امریکی کی تمام تر ہمدردیاں، تعاون اور مدد متاثرین مالاکنڈ کے ساتھ ہیں۔ امریکی
مصیبت کی اس گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے اور متاثرین کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔۔۔۔
(مزید کہتے ہیں)۔۔۔۔۔ سوات متاثرین کیلئے سب سے زیادہ امداد امریکہ نے دی یورپ اور
مسلم ممالک کہاں ہیں۔ امریکا نے متاثرین کی بحالی اور مدد کیلئے بحالی اور مدد
کیلیے جن تین سو ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے اس میں مزید اضافے کی کوشش
کریں گے“
کس طرح رچرڈ بالبروک نے یورپ کو اور مسلم ممالک کو للکارا ہے (یورپ تو خیر ہے کفار
کا ٹولہ ) مگر شاباش ہے ہمارے مسلم ممالک کی بے غیرتی و بے حسی کو (اجتماعی ناکہ
انفرادی) کہ کس طرح ایک معمولی امریکی عہدے دار چوٹ کر گیا اور ہماری مزہبی بے حسی
کو اجاگر کر گیا اور ہم چپ ہیں کیا کریں کر بھی کیا سکتے ہیں۔
زرا غور طلب بات یہ ہے کہ ملک کی وہ جماعتیں جو اپنے آپ کو نمبر ایک اور نمبر دو
اور وہ جماعتیں جو اسلام کے نام پر سیاست کرتیں ہیں اور جنہوں نے پاکستان کی سیاست
میں آکر اربوں ڈالر بنائے ہیں کیا انہیں اتنی بھی شرم نہیں کہ قومی غیرت و حمیت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے کہ چند کروڑ جنکے دعوے ہمارے ملک کے چوٹی کے سیاستدان کرتے ہیں کہ
آج ہم نے بیس لاکھ اور آج تک ہماری پارٹی نے ٥ کروڑ دے دیے ہیں سوات و مالاکنڈ کے
متاثرین کی بحالی کے لیے۔
غیرت مندوں اب تک ملک کی سیاسی و (نام نہاد) مزہبی جماعتوں نے کتنی رقم جمع کر کے
اپنے پریشان حال بھائیوں کو جنہیں ہمارے ملک کی اکثر بے غیرت جماعتوں نے نام نہاد
نظام عدل جیسے مکروہ آڑڈینس کو پاس کروا کر اپنے ہاتھوں اپنوں کو عزاب و مصیب میں
ڈال دیا اور اب متاثرین کے حقوق و بحالی کے نام پر سیاست چمکا رہے ہیں۔
کبھی زلزلے کے متاثرین کے لیے کافروں کی طرف ہاتھ پھیلائے جاتے ہیں (مصیبت جو اللہ
کی طرف سے آئی ) اور کبھی نفاز شریعت کی آڑ میں جاہل لوگوں کی حمایت و سرپرستی کر
کے پچیس تیس لاکھ لوگوں کو بھکاری بنا رکھ چھوڑا (یہ مصیبت اپنے ہاتھوں کی کمائی
ہوئی تھی ناکہ اللہ کی طرف سے مصیبت و عزاب)
اگر غیرت مندوں کو معلوم ہے تو شاباش ہے وگرنہ زرا حساب لگا کر اور گن کر بتایا
جائے کہ ملک بھر کی سیاسی، مزہبی، سماجی، فلاحی جماعتوں اور ملک بھر کے غیور عوام
نے نے اپنے بھائیوں اور اپنے ہم وطنوں کے بحالی اور امداد کے نام پر کل کتنی رقم اب
تک جمع کی ہوگی۔ کسی نے ٥ کروڑ کسی نے ١٠ کروڑ اور کسی نے ٥ لاکھ اور کسی نے کچھ
کسی نے ٹی وی پروگرامز کی آڑ میں چند کروڑ (جو لیے عوام سے جاتے ہیں اور دیے اپنے
چینلز کی پرموشن کے لیے اپنے چینل کی طرف سے دیے جاتے ہیں) اگر کل ملا لیں تو شائد
چند ارب یعنی ٢ یا چار ارب روپے اور امریکہ جس کی دشمنی میں ہم سب الحمداللہ بڑے
آگے ہیں وہ ایک ہی حملے میں چوبیس ارب روپے یعنی تین سو ملین امداد دے رہا ہے اور
کیا ہم میں بحیثیت قوم اتنی غیرت و حمیت نہیں کہ ہم امریکہ اور کافروں سے کہہ دیں
کہ نہیں چاہیے ہمیں تمہاری خیرات مگر ٹھریے کیسے کہہ دیں ہمارے ملک کی اکثریت (بشمول
مزبہی جماعتوں) امریکہ امداد کے نام پر ہی تو اپنی سیاست چمکاتی ہے۔
شرم ہم کو مگر نہیں آتی ہم امریکی گندم کھاتے اس کی خیرات پر ہمارے ملک کی معیشت کا
دارومدار ہے اور اس کی ہاں میں ہاں ملائے بغیر ہمارے ملک میں کوئی ترقیاتی کام اور
کوئی حکومت نہیں چل سکتی اور ہم ہیں کہ اس کو برا بھلا بھی کہہ رہے ہیں اور اس کا
کھا بھی رہے ہیں
یعنی پہلے بزرگ کہتے تھے
کہ منہ کھائے تہ آنکھ شرمائے
مگر ان بزرگوں کو کیا پتا تھا کہ آنے والی نسلوں میں ہمارے جیسے بے غیرت بھی ہونگے
جو جس کا کھائیں گا اس پر غرائیں (دکھاوے کے طور پر ہی سہی تاکہ عوام میں سیاست چمک
کر کی جائے) گے بھی اور اپنے بچے بھی اسی ملک میں پڑھوائیں گے اور اپنے عوام کو
مرنے کے لیے اس ملک میں چھوڑ کر (خود وزیراعلی شہباز شریف صاحب اپنا اور اپنے بچوں
کا علاج کرواتے ہیں لندن میں اور پنجاب کے اسپتالوں کا دورہ کر کر کے غیر حاضروں کو
برطرف کرنے اور صحت کا معیار بہتر بنانے اور عوام کی صحت کے لیے مزید اقدامات پر
زور دیتے ہیں شرم تم کو مگر نہیں آتی منافقوں کے سرداروں) ظالم و کافر و فاجر ممالک
کے دورے کر کے مزے اڑاتے ہیں۔
اور کیا کہوں شرم شائد ہی آئے کوئی الفاظ سے شرم تھوڑی آتی ہے یہ تو تربیت و کردار
کی پختگی سے آتی ہے جو قوم میں ناپید ہے۔ |