اختیارت مصطفی ﷺ

علامہ مفتی سید مبشر رضا

میرے آقا ﷺقاسم ہیں
اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي
(بخاری،کتاب العلم،باب من یرد اللہ خیرا یفقھہ فی الدین،رقم الحدیث ۶۹،)

اللہ تعالیٰ مجھے دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔
حدیث سے ماخوذ مسائل
1 قاسم ابتداء ۔عطاء انتہاء کا فلسفہ
2 عطاء و تقسیم مطلق ہے ۔
3 حیاتِ ظاہری و حیاتِ برزخی کی قید کے بغیر ہے ۔
4 تقسیم کی کمی و زیادتی غیر معلوم ہے ۔
میرے آقا ﷺزندہ ہیں
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ النَّفْخَةُ وَفِيهِ الصَّعْقَةُ فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ يَقُولُونَ بَلِيتَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ
(سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ،باب فضل یوم الجمعۃو لیلۃ الجمعۃ،رقم الحدیث ۸۸۳)
(تفرح ابواب الجمعة،باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة(باب: جمعے کے دن اور اس کی رات کی فضیلت)حدیث نمبر : 1047)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اسی میں «نفخة» دوسری دفعہ صور پھونکنا) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے (پہلی دفعہ صور پھونکنا، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔“صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے۔ (یعنی آپ کا جسم) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں۔“

حدیث سے ماخوذ مسائل
1 جمعہ کے دن پڑھا ہوا درود میرے آقاﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے ۔
2 انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ۔

دوسری حدیث پاک میں ہے :
حياتی خير لکم و مماتی خير لکم.
(سنن نسائی، ج : 1، ص : 189)
میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔

اسی طرح فرمایا تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر برے ہوں تو میں تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائرہ ماذونیت میں مختار کل ہیں۔ دائرہ ماذونیت سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذن اور اختیار دیا گیا ہے۔

بعض کلمات کا اطلاق بعض مقامات میں مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلاً لفظ کل جب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہو گا تو حقیقی معنی میں ہو گا مگر جب یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مقرب بندہ کے لیے استعمال ہوگا تو اضافی معنی میں ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مختار کل کا لفظ اسی معنی میں مراد لیا جاتا ہے۔ جب یہی لفظ کل مخلوق کے لیے ہو تو اس کے اطلاقات درجہ بدرجہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک چیز کسی دوسری چیز کے مقابلے میں کل ہے تو وہی چیز کسی دوسرے کے مقابلے میں جزو بھی ہوسکتی ہے۔

انسانی علم جتنا بھی لامحدود اور وسیع ہوجائے وہ ماکان اور وما یکون کی حدود کے اندر ہی رہتا ہے، اس سے آگے اس کی حدیں ختم ہو جاتی ہے۔ یہی کل انسانی علم جب حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں رکھا جائے گا تو مخلوق کا سارا علم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے میں جزو ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم تمام مخلوق کے مقابلے میں کل ہو گا۔ مگر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کل علم معبود الٰہی کے مقابلے میں لایا جائے گا تو یہ جزو ہوگا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سارے اختیارات آپ علیہ السلام کے دائرہ ماذونیت میں ہیں، جس میں آپ مختار کل ہیں۔

اختیارت دو قسموں کے ہیں
تکوینی:زندہ و مردہ کرنا ،حاجت پوری کرنا
تشریعی:کسی فعل کو حلال و حرام کرنا

تکوینی
یَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوۡا ؕ وَ لَقَدۡ قَالُوۡا کَلِمَۃَ الۡکُفۡرِ وَ کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِسۡلَامِہِمۡ وَ ہَمُّوۡا بِمَا لَمۡ یَنَالُوۡا ۚ وَ مَا نَقَمُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ اَغۡنٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضۡلِہٖ
یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (تو کچھ) نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کا کلمہ کہا ہے اور یہ اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور ایسی بات کا قصد کر چکے ہیں جس پر قدرت نہیں پا سکے اور انہوں نے (مسلمانوں میں) عیب ہی کونسا دیکھا ہے سوا اس کے کہ خدا نے اپنے فضل سے اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی مہربانی سے) ان کو دولتمند کردیاہے؟

ابوھریرہ کا حافظہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ قَالَ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ
(بخاری کتاب العلم ۱۱۶،باب حفظ العلم)
دوہزاریا اس سے زائد روایت کرنے والے حضرات کی تعداد مرویات
(۱) حضرت ابوہریرہؓ پانچ ہزار تین سو چوہتر ۵۳۷۴
(۲) حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب دو ہزار چھ سو تیس ۲۶۳۰
(۳) حضرت انس بن مالک دو ہزار دو سو چھیاسی ۲۲۸۶
(۴) حضرت عائشہؓ صدیقہ دو ہزار دو سو دس ۲۲۱۰

چاند کے ٹکڑے
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً فَأَرَاهُمْ الْقَمَرَ شِقَّتَيْنِ حَتَّى رَأَوْا حِرَاءً بَيْنَهُمَا
(بخاری،کتاب المناقب، ۳۵۷۹،باب انشقاق القمر)
سورج الٹے پاوں پلٹے چاند اشارے سے ہو چاک
اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہﷺ کی

تشریعی
روزہ کا کفارہ معاف
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ قَالَ مَا لَكَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا قَالَ لَا قَالَ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لَا فَقَالَ فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لَا قَالَ فَمَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ فَقَالَ أَنَا قَالَ خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ
(بخاری،کتاب الصوم ۱۸۰۰،باب اذا جامع فی رمضان)
دونمازوں کی اجازت
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُصَلِّي إِلَّا صَلَاتَيْنِ فَقَبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ
(مسند احمد ۱۹۴۰۴،کتاب اول مسند البصریین)
قرآن کو حق مہر مقرر کر دیا
اَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ إِنَّهَا قَدْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي فِي النِّسَاءِ مِنْ حَاجَةٍ فَقَالَ رَجُلٌ زَوِّجْنِيهَا قَالَ أَعْطِهَا ثَوْبًا قَالَ لَا أَجِدُ قَالَ أَعْطِهَا وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ فَاعْتَلَّ لَهُ فَقَالَ مَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَقَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ
(بخاری،کتاب فضائل القرآن ۴۶۴۱،باب خیرکم من تعلم القرآن)
براء بن عاذب کو سونے کی انگوٹھی پہننے کی اجازت
مُحَمَّدُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ رَأَيْتُ عَلَى الْبَرَاءِ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ وَكَانَ النَّاسُ يَقُولُونَ لَهُ لِمَ تَخَتَّمُ بِالذَّهَبِ وَقَدْ نَهَى عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْبَرَاءُ بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ غَنِيمَةٌ يَقْسِمُهَا سَبْيٌ وَخُرْثِيٌّ قَالَ فَقَسَمَهَا حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْخَاتَمُ فَرَفَعَ طَرْفَهُ فَنَظَرَ إِلَى أَصْحَابِهِ ثُمَّ خَفَّضَ ثُمَّ رَفَعَ طَرْفَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ ثُمَّ خَفَّضَ ثُمَّ رَفَعَ طَرْفَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ أَيْ بَرَاءُ فَجِئْتُهُ حَتَّى قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَخَذَ الْخَاتَمَ فَقَبَضَ عَلَى كُرْسُوعِي ثُمَّ قَالَ خُذْ الْبَسْ مَا كَسَاكَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ
(مسند احمد،۱۷۸۶۱،باب اول مسند القوفیین،باب حدیث براء بن العاذب)
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
وقد اقامه الله مقام نفسه فی امره ونهيه واخباره و بيانه.
(ابن تيميه، الصارم المسلول علی شاتم الرسول : 41)
اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امر، نہی اور خبر دینے اور بیان کرنے میں اپنا نائب مقرر کیا ہے۔

امام احمد رضا کا حتمی فیصلہ
احکام الہٰی کی دو قسمیں ہیں : تکوینیہ مثل احیاء واماتت وقضائے حاجت ودفع مصیبت وعطائے دولت ورزق ونعمت وفتح وشکست وغیرہا عالم کے بندوبست۔

دوسرے تشریعیہ کہ کسی فعل کو فرض یا حرام یا واجب یا مکروہ یا مستحب یامباح کردینا مسلمانوں کے سچے دین میں ا ن دونوں حکموں کی ایک ہی حالت ہے کہ غیر خدا کی طرف بروجہ ذاتی احکام تشریعی کی اسناد بھی شرک۔قال اللہ تعالٰی اَمۡ لَہُمۡ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَہُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا لَمۡ یَاۡذَنۡۢ بِہِ اللّٰہُ ؕ۔اللہ تعالٰی نے فرمایا: کیا ان کے لیے خدا کی الوہیت میں کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے واسطے دین میں اورراہیں نکال دی ہیں جن کا خدا نے انہیں حکم نہ دیا۔
اوربروجہ عطائی امور تکوین کی اسناد بھی شرک نہیں ۔
قال اللہ تعالٰی :فالمدبرات امرًا۔قسم ان مقبول بندوں کی جو کاروبارعالم کی تدبیر کرتے ہیں ۔

یہ مضمون خطاب کرنے لیے لیے ہنٹس کے صورت میں ہے مقررین ان مضامین کی مذید وضاحت بیان کر سکتے ہیں
semi
About the Author: semi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.