سورۃ البقرہ:۔ کے ایک تا پانچ
رکوع سے میرے فہم کے مطابق
کلام اللہ سی کتاب دنیا میں نہیں
قرآن پر ایمان ہو تو یہ باکردار لوگوں کے لے ہدایت بیان کرتا ہے-
مگر دنیا میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو خود کو مسلم بتاتے ہیں مگر وہ کلام
اللہ کے انکاری ہوتے ہیں ایسے لوگ اپنے اطراف میں فساد برپا کرتے رہتے ہیں
جب ان سے کہا جاتا ہے فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے
ہیں-
ایسے لوگ اپنے آپ پر ایمان رکھتے ہیں اور شرارت اور سرکشی میں بہک جاتے ہیں-
جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آتے ہیں وہ خوش نصیب ہوتے ہیں اور ان کی خالق
سے تجارت نفع والی ہوتی ہے-
انکاری مادی مفاد کی بنا روحانی طور پر اندھا گونگا اور بہرا ہوتا ہے-
انسان اگر خالق کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے تو کامیاب ہوتا ہے اور
باکردار انسان کے لے خوشخبری ہے کے وہ آئندہ کی زندگی میں بھی کامیاب ر ہے
گا-
خالق نے زمین وآسمان کی تخلیق کی زمین سے رزق اور آسمان سے بارش برسائی-
اگر انسان پھر بھی تسلیم نہیں کرتا تو قرآن کی طرز پر ایک سورۃ تحریر کرئے
جو وہ نہیں کرسکتا آج کے جدید دور میں بھی انسان کلام تحریر کرنے کے لائق
نہیں ہوا-
باکردار لوگ جب کوئی اقرار وعدہ کرتے ہیں تو اس پر قائم رہتے ہیں اپنے عزیز
رشتے دار سے ربطہ ختم نہیں کرتے اور اپنے اطراف میں فساد نہیں کرتے ۔
جولوگ ایسا نہیں کرتے وہ نقصان میں ہیں-
انسان اس زمین پر ایسی مخلوق ہے جو رائے کا اظہار کرتی ہے سوچتی ہے اپنی
پسند سے اپنے کام کو انجام دیتی ہے مگر اس کا ایک دائراہ ہے اور وہ اس
دائرے میں رہتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرئے تو اپنے اطراف اپنے جیسے ساتھیوں
کے ساتھ زندگی کا سفر انجام تک لے جا سکتا ہے-
انسان خالق کی نعمتوں کو یادکرئے اپنے اقرار کو پورا کرئے اور اپنے خالق سے
ڈرے حق اور باطل کو نہ ملائے سچائی کو جان بوجھ کر نہ چھپائے-
اپنے اطراف ایسے معاشرے قائم کرے جو اصلاح پر ہوں اور مسلسل ارتقاء کرتا
رہے - |