میں کسے ای میل لکھ رہا ہوں اور ای میل بھیجنے کے لیے
کونسا سروس استعمال کر رہا ہوں؟ یہ ساری معلومات بلکہ اس سے بھی زیادہ
تفصیلات میٹا ڈیٹا کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
انٹرنیٹ صارف کی تمام تر تفصیلات نہ صرف محفوظ رہتی ہیں بلکہ ان کی مدد سے
صارف کے بارے میں درست اندازے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔ صارفین کو اس کا
اندازہ اُس وقت ہوتا ہے، جب وہ کسی تجارتی ویب سائٹس کو وزٹ کرتے ہیں۔ مثال
کے طور پر اگر کوئی انٹرنیٹ پر ایک صوفہ ڈھونڈ رہا ہو تو اس کے بعد کئی
ہفتوں تک اسے مختلف ویب سائٹس سے فرنیچر کی پیشکشیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔
یہ براؤزر میں موجود ٹریکنگ کوکیز کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ یہ کُوکیز صارف
کا وہ ڈیٹا جمع کرتی ہیں، جو اس نے انٹرنیٹ سرفنگ کے دوران استعمال کیا
ہوتا ہے۔
|
|
تجارتی ادارے اپنے صارفین تک بہتر انداز میں رسائی کی وجہ سے اس ٹریکنگ
سسٹم میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ خفیہ اداروں کی اس نظام میں دلچسپی
کی وجوہات بالکل ہی مختلف ہوتی ہیں۔ خفیہ ادارے بھی ای میلز کے تبادلے کی
کڑی نگرانی کرتے ہیں۔ کس نے، کسے اور کس وقت کیا لکھا، میٹا ڈیٹا میں ای
میل بھیجنے والے کے نام، پتے، وقت اور استعمال کیے جانے والے سرور سے متعلق
تمام تر تفصیلات محفوظ ہو جاتی ہیں۔
میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ ایم آئی ٹی کے ماہرین یہ جاننے کی کوشش میں لگے ہوئے
ہیں کہ میٹا ڈیٹا کے ذریعے کسی بھی انٹرنیٹ صارف کے بارے میں کس قدر
معلومات اکٹھی کی جا سکتی ہیں۔ اس ادارے نے اپنی انٹرنیٹ ویب سائٹ پر ’ NSA
yourself‘ کے نام سے ایک ٹیسٹ پیج بنایا ہے۔ اس پر گوگل اکاؤنٹ رکھنے والے
کسی بھی شخص کو یہ موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ صرف ای میل
کے تبادلے سے میٹا ڈیٹا اس کے بارے میں کیا کچھ جان جاتا ہے، یعنی بہت کچھ۔
اس سے یہ خطرہ جنم لیتا ہے کہ اگر خفیہ ادارے کسی شخص کی نگرانی کر رہے ہوں
اور آپ کو اس کی جانب سے کوئی ای میل موصول ہوتی ہے تو آپ بھی ان اداروں کی
نظروں میں مشکوک ہو جاتے ہیں، چاہے آپ نے اُس ای میل کا ایک لفظ بھی نہ
پڑھا ہو۔
|
|
روزمرہ کے معمولات میں انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران صارف نہ چاہتے ہوئے بھی
اپنی بہت سی نشانیاں چھوڑ جاتا ہے۔ دوسری جانب جو شخص سماجی رابطے کی ویب
سائٹس استعمال کرتا ہے، وہ صرف اپنا نجی ڈیٹا ہی نہیں بلکہ مستقبل کے
منصوبوں اور اپنے آئندہ پروگرام اور سرگرمیوں کے بارے میں بھی تمام تر
تفصیلات ان اداروں کے حوالے کر دیتا ہے۔ |