جب تیونس میں اُٹھنے والی’عرب
بہار‘ کی لہرنے مصر کا رُخ کیاتو حسنی مبارک کے ظلم و بربریت کے خلافت برپا
ہونے والی اِس بغاوت کی لہر میں اسلام کا رنگ گہرا تھا۔ لوگ مسجدوں سے نماز
پڑھ کر اِن مظاہروں کا حصہ بنتے، تکبیر کی صدائیں بلند ہوتیں اور مظاہرین
کا مرکز ’التحریر سکوائر‘ مسجد کا سماں پیش کررہا ہوتا۔ لاکھوں کے اِس مجمع
میں کلمہ طیبہ والے سیاہ وسفید اسلامی جھنڈے نمایاں ہوتے جو اِس بات کو
ظاہر کرتے تھے کہ یہ مظاہرین فقط ظلم وبربریت پر مبنی مبارک حکومت کا خاتمہ
ہی نہیں چاہتے بلکہ وہ اسلام کانفاذ بھی چاہتے ہیں۔ چنانچہ مصر کے مسلمانوں
کی استقامت کے سامنے یہ ڈکٹیٹر ٹھہر نہ سکااور اُس کی جگہ فوجی کونسل نے
ملک کا اقتدار سنبھال کر ملک میں نئے انتخابات کرادئیے جس میں پچھلے
80سالوں سے متحرک ایک اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے حمایت یافتہ محمد
مرسی نے 52فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ یوں حسنی مبارک کے تیس سالہ
آمریت کے خاتمے کے ساتھ مصر میں اسلامی جمہوریت قائم ہوگئی۔ بظاہر اسلامی
شکل وصورت کی حامل اِس حکومت کے اقتدار میں آنے سے تاثر یہی ملا کہ شاید
مصر کے مسلمانوں کے دل کی آواز سنی گئی، حتیٰ کہ پاکستان میں کچھ لوگوں نے
قرآن وسنت کی بنیاد پر پرکھے بغیر خوشی کے مارے مٹھائیاں بھی تقسیم کیں کہ
مصر کے اندر ایک اسلامی انقلاب آچکا ہے۔ تاہم برسوں کی آمریت کے مقابلے
میں’اسلامی جمہوریت‘فقط ایک سال قائم رہی اور فوجی بغاوت کے ذریعے یہ نام
نہاد خیالی جمہوریت آنکھ جھپکتے ہی ختم کردی گئی۔ یہ فوجی بغاوت اس بہانے
کی گئی کہ یہ اقدام ’’قومی اور مذہبی اداروں کی تذلیل ‘‘ اور ’’شہریوں کو
ڈرانے دھمکانے ‘‘ کو روکنے کے لیے ہے۔ حالانکہ اخوان اور مرسی حکومت اسلام
کے نفاذ کے حوالے سے اعتدال پسند کہلوانا پسند کرتے تھے اور اسلام کا
تدریجاً نفاذچاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ 27ستمبر2012کومحمد مرسی کا یہ بیان
تما م میڈیا کی زینت بنا کہ مصر بدستور سیکولر ملک کی حیثیت سے برقرار رہے
گا۔ چنانچہ مرسی حکومت امریکہ سے فوجی امداد لیتی رہی، آئی ایم ایف سے سودی
قرضوں کا حصول جاری رہا، شراب پر پابندی نہ لگائی گئی۔ تاہم اِس موقع پر
’’اعتدال پسند اسلام‘‘ کے خلاف امت کے شدید غم و غصے کو امریکہ نے استعمال
کیا اور یہ کہہ کر اسلام کے متعلق منفی تاثر دیا کہ یہ لوگ قوم کے امور کو
سنبھالنے میں ناکام رہیں ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس بات کے باوجود ہوا کہ مرسی
حکومت نے نہ تو اسلام کو نافذ کیا اور نہ ہی وہ اختیار و اقتدار کے حقیقی
مالک تھے۔ ان تمام واقعات نے اس بات کو بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت کردیا ہے
کہ پچھلی حکومت کے تمام دورِاقتدارمیں اصل طاقت فوج کے پاس تھی اور صدر اور
اس کا گروہ محض ایک کٹھی پتلی تھے جس کی ڈوریاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں
میں تھیں اور اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے کفر کا سردار امریکہ تھا جس کے احکامات
کے مطابق یہ کام کرتے تھے۔ لہٰذامریکی ایجنٹوں نے مرسی حکومت کو اپنے مفاد
کے لیے استعمال کیا اور پھر ان کے متعلق کہا کہ یہ اس قابل نہیں ہیں اور یہ
نعرہ دیا گیا کہ اسلام پسندوں کی حکمرانی سے جان چھڑاؤ اور اس نعرے نے
معاشرے کے ایک حصے کو متاثر بھی کیا۔ آخر مصر میں اسلام کے نفاذ کے حوالے
سے اخوان المسلمون 80سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آنے کے باوجود ناکامی
سے کیوں دوچار ہوئی؟ اِس کی وجہ جمہوریت کا وہ نظام ہے جس کے ذریعے اخوان
اسلام کے نفاذ اور تبدیلی کی خواہاں ہے، اِس سیکولر نظام کے ذریعے اسلام کی
حکمرانی کا قیام ناممکن ہے۔ اِس نظام کا پرچار کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ
اپنے نظریے کے بل بوتے پر فقط عوامی الیکشن کے ذریعے جب وہ اقتدار تک
پہنچتے ہیں تو وہ حکمران بن جاتے ہیں اور انہیں عوام الناس کے علاوہ کسی
اور کو اپنے نظریے پر قائل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
اُس ملک میں ایک طاقت ور طبقہ موجود ہوتا ہے جنہیں اسٹیبلشمنٹ کے نام سے
جانا جاتا ہے،جسے اپنے نظریے پر قائل کرنے کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
تاہم اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کرنا جمہوریت کے
نظام کی مجبوری ہے، لیکن ایسی صورت میں اصل حکمران وہی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے
اور وہ جب چاہے عوام کی منتخب حکومت کو اقتدار سے الگ کردیتی ہے۔ یہی
معاملہ مصر میں ہوا کیونکہ اخوان کی قیادت کا حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے
کے بعد ہونے والے الیکشن میں حصہ لینے کا مطلب اُس وقت کے اصل حکمران فوجی
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اِس بات کی رضا مندی تھی کہ مصر کا سیکولر سٹیٹس برقرار
رہے گا۔ وہی فوجی اسٹیبلشمنٹ جو حسنی مبارک کی باقیات میں سے تھی اور جن کا
سیکولر ہونا اور امریکہ کا اتحادی ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں تھا۔ اخوان
نے اُس اسٹیبلشمنٹ کے اندر اسلام کے نظریے کے حوالے سے کام کرنا ضروری نہیں
سمجھا بلکہ اُن کے سیکولر نظریے کو تسلیم کرکے فقط اقتدار میں آنے کو اپنی
کامیابی تصور کیا۔ یوں نا تو وہ اسلام کے نفاذ میں کامیاب ہوسکی اور نہ ہی
زیادہ دیر اقتدار میں ہی رہ سکی۔ انہوں نے الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ
کے ساتھ جو پیش آیا تھا اس سے سبق حاصل نہیں کیا تھا ،جنہیں الیکشن میں دو
تہائی اکثریت حاصل ہونے کے باوجود فوج نے چلتا کردیا تھا۔ چنانچہ جمہوریت
تبدیلی کا وہ طریقہ ہے جس میں اقتدار مکمل اختیار کے بغیر اور کمپرومائز پر
مبنی ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے اسلام کے نفاذ میں ناکامی ایک طبعی امر ہے۔ جبکہ
اسلام کی حکمرانی قائم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ اور راستہ ہے اور اس کے
علاوہ کوئی دوسراطریقہ نہیں۔ اور یہ راستہ رسول اللہ ﷺ کا ہے کہ جب انھوں
نے ایسی حکمرانی کوقبول کرنے سے انکار کردیا تھا جو نامکمل اور اختیار کے
بغیر تھی اور انھوں نے اس کرپٹ نظام کا حصہ بھی بننے سے بھی انکار کردیا
تھا جو اسلام کے احکامات سے مکمل متناقص تھا۔ اصل طریقہ صبر و استقامت کے
ساتھ امت میں خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے مکمل نفاذ کی فرضیت کی آگاہی
پیدا کرنا اور بغیر کسی کمپرومائز کے مکمل نصرۃ(مدد) کا انتظار کرنا ہے۔ یہ
اس صورت میں ہوگا کہ جب اسلام کے مضبوط افکار کو کفریہ افکار کے خلاف
مضبوطی سے پیش کیا جائے جس کے نتیجے میں ایک شدید فکری ٹکراو پیدا ہو بالکل
ویسے ہی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ اسلامی افکار کو کمزور کر کے
اورانھیں کفریہ غیر اسلامی افکار کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرنے سے یہ
منزل حاصل نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ ایک سیاسی جہدوجہد کی ضرورت ہے جو اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور منصوبوں کو با لکل ویسے ہی
بے نقاب کرے جیسا کہ رسول اللہﷺ کیا کرتے تھا ۔اور ایسا اس صورت میں نہیں
ہوسکتا کہ آپ اپنے ملک کے سیاست دانوں،میڈیا اور دانشوروں میں موجود مغربی
کفار کے ایجنٹوں کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کے
ذریعے خلافت اور شریعت کے لیے عوامی رائے عامہ پیدا ہو گی تا کہ افواج میں
موجود مخلص افسران جو حامل نصرۃ ہیں وہ اسلام کی بنیاد پر اس دعوت کے ساتھ
جڑ سکیں۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ فوج ہی وہ ادارہ ہے جن کے پاس حقیقی طاقت
موجود ہے ۔ چنانچہ اِس طریقہ کار کے ذریعہ حکمران وہ سیاسی قیادت ہی ہوگی
جو خلیفہ کا منصب سنبھالے گی جبکہ فوج کا کام ملک کی سرحدوں کا دفاع اور
شرپسندوں کا قلع قمع ہوگا اور وہ حکومت میں شراکت دار نہیں ہوگی۔ یعنی
تبدیلی کے لیے فقط لوگوں کے اندر اسلام کے نفاذ کے حوالے سے رائے عامہ کا
موجود ہونا اور بغیر کسی کمپرومائز کے اہل نصرہ کا سیاسی جدوجہد کی حامل
قیادت سے مل جانا کافی ہے۔ اہل فکر کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ اگر مصر میں
تین لاکھ لوگ اور مسلح افواج مل کر ایک سیکولر ڈکٹیٹر شپ قائم کرسکتے ہیں
تو خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے نفاذ کے لیے یہی طریقہ کار کیوں نہیں
اپنایا جا سکتا؟ |