زندگی میں کوئی مقام حاصل کرنا اتنا اہم نہیں ہے جتنا اس مقام کو قائم رکھنا اہم
ہے دنیا میں بہت سی ایسی
شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے دنیا میں عظیم المرتبت نام کمایا
اور وہ انتہائی اعلی مقام پایا ہے جس نے انہیں لازوال کامیابیوں سے اس طرح ہمکنار
کیاکہ وہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے
یہی دستور بھی ہے کہ جو جس قدر محنت کرتا ہے اسی اعتبار سے دنیا میں مقام بھی حاصل
کر لیتا ہے
'انسان وہی کچھ پاتا ہے جو کجھ چاہتا ہے' بشرطیکہ اپنی چاہتوں کے حسب حال اپنی
قوتیں صرف کرنے کا متحمل بھی ہو
زندگی میں بلند معیار زندگی اور اچھا مقام حاصل کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے
مگر سب کا مقدر ایک جیسا نہیں سب کا معیار زندگی اور مقام ایک جیسا نہیں ہوتا کیوں
۔۔؟ آخر کیوں نہیں ہے۔۔؟
دنیا دارالعمل ہے یہاں انسان جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی ثمر پاتا ہے اور ثمر اتنی
آسانی سے حاصل ہو جانے والی شے نہیں ہے اس کے لئے سخت محنت اور جہد مسلسل درکار ہے
تب کہیں جا کر انسان کو اپنی
محنت اور لگن کے مناسب حال ثمر میّسر آتا ہے
اپنی آرزوؤں کی تکمیل اور کامیابی کی منزل پانے کے لئے انسان لگن اور محبت کے ساتھ
اس وقت تک مخلص نہیں ہوتا جب تک اسے اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہو جائے
اور یہ یقین کہاں سے آتا ہے 'دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر' یقین کی دولت عشق کی
مرحون منت ہے جب تک آپ کے دل میں اپنے مقصد کے لئے عشق جاگزین نہ ہوجائے یقین کی
دولت ہاتھ نہیں آتی اور مشکوک دل وسوسوں کی آماجگاہ ہے جہاں وسوسے ہوں وہاں عمل کی
رفتار بہت سست پڑ جاتی ہے کہ وسوسے انسان کو آنے والے خطرات کے پیش نظر راہ کی
دشواریوں سے ڈراتے ہیں اور راہ کی دشواریوں کا انسان کے عمل کی رفتار کو سست بلکہ
کبھی کبھی تو ساکت بھی کر دیتا ہے یہ سکوت اور یہ سکتہ زندگی نہیں بلکہ موت ہے اور
جب موت واقع ہو جائے تو کیسی کامیابی اور کہاں کا عمل۔۔۔ ؟
سست روی یقین کے لئے زہر قاتل کی حثیتیت رکھتی ہے جو انسان کو بیزاری کا شکار کر کے
اپنے مقصد سے منحرف کرتے ہوئے کامیابی کی منزل سے بہت دور لے جاتی ہے، کامیابی کے
راستوں سے ناکام لوٹ جانا انسان کو مایوسی کی ایسی گہری کھائی میں گرا دیتا ہے کہ
جہاں انسان اپنی پہچان تک کھو بیٹھتا ہے، گمنامی کا یہ داغ انسان کو ایسے کرب میں
مبتلا کر دیتا ہے کہ جس کے نتیجے کے طور پر اکثر کم ہمت انسان خود اذیتی کا شکار
ہوکر خود کو تباہ وبرباد کر لیتے ہیں جسے اپنی بربادی کی پرواہ نہ ہو وہ دوسروں کو
بھی خوشحال یا آباد نہیں دیکھ سکتا اور یہی چیز انسان میں حسد اور اس سے پیدا شدہ
دیگر کئی منفی رجحانات پیدا کرتا ہے جو انسان اور انسانیت کے لئے خطرے کا پیش خیمہ
ثابت ہوتی ہے
ناکامی و نامرادی کسی انسان کو خود کو بھی بے چین رکھتی ہے اورایسا انسان اپنی منفی
سوچ اور منفی رویوں سے دوسروں کی زندگیوں کو بھی اجیرن کرنے کے جتن کرتا رہتا ہےکسی
بھی انسان یہی منفی طرز عمل اسے ایک دن ذلت و رسوائی کی ایسی گہری کھائی میں اتار
دیتی ہے جہاں کوئی اسکا پرسان حال نہیں ہوتا ایسا انسان خود فراموشی کا شکار ہو کر
اپنی پہچان تک کھو بیٹھتا ہے
ایسی صورتحال میں کچھ پست ہمت انسان ذلت و رسوائی کی زندگی سے تنگ آکر نشہ کی عادت
کو اپنی زندگی بنا لیتے ہیں یا پھر خودکشی کر کے موت کو گلے لگا لیتے ہیں لیکن ایسے
انسان کی موت بھی انہیں سکون نہیں دے سکتی بلکہ وہ دوسروں کے لئے محض عبرت کا نشان
بن جاتے ہی
ناکامی کی ذلت و رسوائی کی تباہی سے خود کو بچانے کے لئے انسان کو جس چیز کی ضرورت
ہے وہ ہے یقین کی دولت، یقین انسان کوزندگی میں کبھی بھی اور کسی بھی حالت میں
مایوس نہیں ہونے دینا یقین اور مایوسی دو متضاد کیفیات ہیں جو کسی بھی دل میں ایک
ساتھ نہیں پنب سکتیں جس دل میں مایوسی ہے وہاں یقین نہیں اور جہاں یقین ہوگا وہاں
مایوسی پر نہیں مار سکتی
مگر وہ کیا چیز ہے، وہ کیا جذبہ ہے، وہ کونسی قوت ہے جو انسان کے دل کو یقین کی
دولت عطا کرتی ہے
جو چیز انسان میں یقین پیدا کرتی ہے وہ ہے 'عشق' جی ہاں یہ عشق ہی ہے جو انسان کو
یقین کی دولت عطا کرتا ہے جو انسان کو ہمہ تن سرگرم عمل اور متحرک رکھتا ہے
یہ عشق کیا ہے۔۔۔؟ عشق جنون ہے عشق جذبہ ہے، عشق تحریک ہے، عشق زندگی ہے لیکن جب
عشق کے متعلق اس قسم کی منفی روایات جیسے 'عشق اندھا ہے'، 'عفشق کمینہ' یا 'کم بخت
عشق' سماعتوں سے ٹکراتی ہیں تو دل دکھتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اس وقت تکلیف ہوتی
ہے
اللہ کے بندو عشق تو وہ روشنی ہے جو گمشدہ راستوں میں بھی چراغ بن کر بھٹکے مسافروں
کی رہنمائی کرتا ہے تو پھر عشق اندھا کیسے ہو سکتا ہے، کمینہ پن تو ایک منفی رجحان
ہے ایک پست رویہ ہے جبکہ عشق انسان کے اندر سے ہر قسم کے منفی رجحان کا خاتمہ کر کے
انسان کو بلندیوں کی جانب لے جاتا ہے تو پھر عشق کمینہ چہ معنی دارد، عشق خوش بختوں
کی میراث ہے جس نے عشق اختیار کیا اس کے بخت کا ستارہ لازوال روشنی سے تا حیات
جگمگاتا رہتا ہے تو کیا یہ کم بخت عشق کا نعرہ توہین عشق نہیں
اب ذرا اصل موضوع کی طرف آتے ہیں بات ہو رہی تھی 'دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر'
تحریر کا مقصد یہی ہے کہ انسان کے لئے عشق کی اہمیت کے پیش نظر اپنے ہرمقصد میں،
اپنے کام میں بہترین نتائج کے لئے اپنے مقام کے لئے اپنے دل میں عشق کو جگہ دیں یہ
عشق ہی ہے جو آپ کے دل کو ہر قسم کے اندیشوں، خدشات سے پاک کرتا جو آپ کی کامیابی
کے راستے کی رکاوٹ بن سکتے ہیں جو آپ کے حوصلے اور ہمت کو پسپا کر سکتے ہیں یہ عشق
ہی ہے جو انسان کےدل کو یقین کی دولت سے مالا مال کرتا ہے یقین ہی انسان کو ہر دم
آمادہ عمل رکھتا ہے عشق انسان کو کسی بھی نوعیت کے خطرات و مشکلات سے نبرد آزما
ہونے کی قوت عطا کرتا ہے
عشق وہ جذبہ وہ جنون وہ تحریک ہے جو انسان کو ہمہ تن مصروف عمل رکھتا ہے اور یہ
تحریک ہی زندگی ہے کہ ساکن جسم تو ناکارہ مردہ اور بے جان ہے عشق و عمل ہی زندگی کی
تحریک ہے
جب کسی دل میں عشق جاگزین ہو جائے تو پھر انسان میں جراءت و بہادری اور کچھ کرگزرنے
کا حوصلہ خودبخود پیدا ہو جاتا ہے اور پھر چاہے منزل کے راستوں کا سفر بظاہر کتنا
ہی دشوار گزار کیوں نہ ہو انسان کے بڑھتے قدم رکتے نہیں بلکہ انسان عشق کا دامن
تھام کرمنزل کےتمام راستوں کی دشواریوں کو چیرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے اس
منزل تک جو انسان کی زندگی کا محورو مرکز ہے
ایک انسان قوت عشق سے وہ مقام پیدا کرتا ہے جو نا صرف فرد واحد کی ذات تک محدود ہے
بلکہ وہ مقام عشق کی منزل پر پہنچ کر دوسروں کے لئے روشنی کا استعارہ ثابت ہوتا ہے
ایسا استعارہ اور روشنی کا مینارہ کہ جس کی روشنی بجھتے چراغوں میں بھی زندگی کی
روح پھونک سکتی ہے عشق کی یہ روشنی دور کہیں اندھیرے میں جلتی روشنی کی مانند ہے جو
بھٹکے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھانے کے لئے چراغ کا کام دیتی ہے
آخر میں اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ‘دیار عشق‘ وہ حسیں وادی ہے کے جس کے حسن و
کرشمہ سازی میں کھو جانے والا انسان خود کو پا لیتا ہے اور جو خود کو پا لیتا ہے وہ
کل کائنات کو اپنا بنا لیتا ہے سو دل کے کورے کاغذ پہ عشق کی مہر ٹبت کر لیں اور
دیکھیں کہ در دل سے داخل ہونے والے اس دیار میں آپ کو اپنی کھوئی منزل کا نشان کیسے
ملتا ہے آپ اپنا کھویا مقام کیسے حاصل کرتے ہیں |