اصل مقصد انسدادِ دہشت گردی کے
قوانین کو سخت بنانا تھا، بھارت میں قائم ہونے والی حکومتیں باغیوں سے
نمٹنے کے لیے ما ورائے عدالت اقدامات کرتی رہی ہیں، وزارتِ داخلہ کے سابق
انڈر سیکریٹری آر وی ایس منی کا بیانِ حلفی گجرات کے عشرت جہاں جعلی
انکاؤنٹر کیس میں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن اور انٹیلی جنس بیورو آمنے
سامنے، تفتیشی افسر ستیش ورما حکومت کو تخریب کار ٹھہرانے کے موقف پر قائم،
مرکزی وزارتِ داخلہ نے بیانِ حلفی بدل دیا
نئی دہلی (فارن ڈیسک / این این آئی) بھارت کی وزارتِ داخلہ کے سابق انڈر
سیکریٹری آر وی ایس منی نے یہ انکشاف کرکے کھلبلی مچادی ہے کہ پارلیمنٹ اور
ممبئی پر حملے خود حکومت نے کرائے تھے اور ایسا کرنے کا بنیادی مقصد انسدادِ
دہشت گردی سے متعلق قوانین کو مزید سخت کرنا تھا۔ عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس
کے تفتیشی افسر اور وزارتِ داخلہ کے دو بیاناتِ حلفی پر دستخط کرنے والے آر
وی ایس منی نے عدالت میں جمع کرائے جانے والے ایک بیانِ حلفی میں انکشاف
کیا ہے کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی مشترکہ ٹیم کے رکن ستیش ورما نے
انہیں بتایا تھا کہ2001میںپارلیمنٹ ہاؤس اور 2008 میں ممبئی میں ہونے والے
حملے بھارتی حکومت کی سازش کا نتیجہ تھے۔ ان حملوں کا مقصد انسدادِ دہشت
گردی کے قوانین میں ترامیم کرکے انہیں مزید سخت کرنا تھا۔ آر وی ایس منی کے
مطابق انہیں ستیش ورما نے بتایا تھا کہ 2001میں نئی دہلی میں پارلیمنٹ پر
ہونے والا حملہ بدنام زمانہ قانون پوٹا (پریونشن آف ٹیررسٹ ایکٹیویٹیز)
ایکٹ کے وضع کئے جانے اور 2008میں ممبئی میں ہونے والے حملے یو اے پی اے (ان
لا فل ایکٹیویٹیز پریونشن ایکٹ) میں ترامیم کرکے اسے مزید سخت بنانے کا سبب
بنے۔ آر وی ایس منی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شمالی اور شمال مشرقی
ریاستوں میں ماؤ نواز باغیوں اور دیگر علیٰحدگی پسندوں نے حکومت کا ناک میں
دم کر رکھا ہے۔ ان پر قابو پانے کے لیے بھارت میں قائم ہونے والی تمام
حکومتیں ماورائے آئین اقدامات کرتی رہی ہیں۔ واضح رہے کہ بھارتی پارلیمنٹ
پر حملے کے بعد پاکستان سے ملحق سرحد پر فوج لگاکر جنگ کا ماحول پیدا کردیا
گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے افضل گورو کو عدم ثبوت کے باوجود اس کیس میں
پھانسی دے دی گئی تھی۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے الزام میں اجمل قصاب کو
پھانسی دی گئی۔ بھارت نے ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے
کہا تھا کہ منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی اور حملہ آور بھی پاکستان ہی سے
آئے تھے۔ پارلیمنٹ اور ممبئی پر حملوں کے بعد بھارتی حکومت کو انسدادِ دہشت
گردی کے قوانین سخت بنانے کا موقع ملا اور مقبوضہ کشمیر میں فوج کے آپریشن
کو قانونی جواز نصیب ہوا۔ ممبئی حملوں کے بعد یو اے پی اے کے نام سے نیا
قانون لایا گیا۔ ستیش ورما اب جونا گڑھ (گجرات) کے پولیس ٹریننگ کالج کے
سربراہ ہیں۔ انہوں نے اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے موجودہ لینڈ اینڈ
ڈیویلپمنٹ آفیسر آر وی ایس منی کے بیان پر تبصرے سے انکار کردیا ہے۔ ان کا
کہنا ہے کہ اب تک انہیں یہ نہیں معلوم کہ ان سے کسے کیا شکایت ہے۔ ٹائمز آف
انڈیا نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سارا جھگڑا جون 2004 میں احمد
آباد کے نزدیک ہونے والی اس پولیس مقابلے کی تفتیش کے دوران کھڑا ہوا جس
میں گجرات پولیس نے عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھیوں امجد علی، ذیشان گوہر
اور جاوید شیخ کو کالعدم لشکر طیبہ کے مشتبہ کارکن قرار دے کر قتل کردیا
تھا۔ اب یہ مقابلہ سرکاری سطح پر جعلی قرار دیا جاچکا ہے اور متعلقہ پولیس
افسران کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔ گجرات پولیس نے انٹیلی جنس بیورو
(آئی بی) کی اس رپورٹ کو بنیاد بناکر انکاؤنٹر کیا تھا کہ ذیشان گوہر، امجد
علی اور جاوید شیخ مبینہ پاکستانی باشندے ہیں اور ان کا تعلق کالعدم لشکر
طیبہ کے اس ماڈیول (گروپ) سے ہے جو گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو قتل
کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے
تفتیش کے بعد اپنی رپورٹ میں عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھیوں کی پولیس
مقابلے میں ہلاکت کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے مقابلے کو جعلی ٹھہرایا تھا۔
اگست 2009 میں مرکزی وزارتِ داخلہ نے اپنے بیانِ حلفی میں آئی بی کی اِن
پُٹ کا حوالہ دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ آئی بی نے عشرت جہاں اور اس کے
ساتھیوں کو کالعدم لشکر طیبہ کا رکن قرار دیا تھا۔ جب گجرات حکومت نے اس
پولیس مقابلے کو درست ثابت کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ کےپہلے بیانِ حلفی اور
اس میں آئی بی کی اِن پُٹ کو استعمال کیا تو ستمبر 2009 میں مرکزی وزارتِ
داخلہ نے دوسرے بیانِ حلفی میں موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ آئی بی نے اپنی
اِن پُٹ میں عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کو حتمی طور پر کالعدم لشکر طیبہ
کا رکن قرار نہیں دیا تھا بلکہ محض شبہ ظاہر کیا تھا۔ آر وی ایس منی نے
اپنے سینئرز کو لکھا ہے کہ ستیش ورما نے عشرت جہاں کیس میں غلط بیانی پر
مبنی بیانِ حلفی پر دستخط کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا تھا۔ ان سے کہا گیا
تھا کہ وہ اِس بیان پر دستخط کریں کہ مرکزی وزارتِ داخلہ کے پہلے بیانِ
حلفی میں آئی بی کے دو افسران کی بھی اِن پُٹ شامل تھی جبکہ فی الواقع ایسا
نہیں تھا۔ آر وی ایس منی کے مطابق ستیش ورما نے بتایا کہ مرکزی وزارتِ
داخلہ کے پہلےبیانِ کا مسودہ تیار کرنے والے افسر راجیندر کمار پر دباؤ بڑھ
گیا ہے کیونکہ عشرت جہاں انکاؤنٹر کی راہ ہموار کرنے سے حوالے سے اس پر
گجرات حکومت سے ساز باز کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ سی بی آئی اس کے خلاف
بھی فردِ جرم عائد کرسکتی ہے۔ |