رمضان المبارک کی عظمت و برکت
اہلِ ایمان پر آفتابِ نیم روز کی طرح روشن وعیاں ہے۔اس ماہِ سعید میں اہلِ
ایمان عظیم روحانی انقلاب سے آشنا ہوتے ہیں ،ہرطرف عبادت و ریاضت اور حسن
سلوک کا ماحول ہوتاہے،مسلمان فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام بھی کرتے
ہیں،کیوں نہ ہو کہ آقائے کونین صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس ماہ میں نیکیوں کا
ثواب کئی گنازیاد ملنے کی بشارت دی ہے۔اس کے علاوہ رمضان المبارک میں اہل
ایمان کے لیے دین اسلام نے بہت سے نیک مواقع اور صالح اعمال کے ذرائع
مہیاکیے ہیں،جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمان نیکیوں کاذخیرہ اپنے نامۂ اعمال
میں جمع کر لیتے ہیں۔اس سلسلے میں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
رمضان المبارک میں کچھ مخصوص علامات (symbols)ہیں جو نیکیاں کمانے کے
بہترین اور آسان ذرائع ہیں جیسے سحری،بیس رکعات تراویح،افطاروغیرہ سے متعلق
احادیث میں فضائل وارد ہوئے ہیں۔ان میں تراویح کو ایک خاص مقام حاصل ہے،جس
کے ذریعے بندگانِ خدا ’’قیام اللّیل‘‘کی لذت کومحسوس کرتے ہیں اور ساتھ ہی
تلاوت و سماعتِ قرآن مجید کی سعادت بھی نصیب ہوتی ہے۔
رمضان المبارک اور قرآن مجید میں گہرا باہمی ربط ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:شَہْرُ
رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ۔(البقرۃ:۱۸۵)’’ رمضان کامہینہ
جس میں قرآن اُترا‘‘(کنزالایمان)اس لیے دونوں میں ربط و تعلق سے انکار نہیں
کیا جاسکتا۔شاید تعلق ہی کی وجہ ہے کہ ماہِ رمضان شریف میں اہل ایمان بڑے
ذوق و شوق سے تلاوتِ قرآن کی طرف رغبت پاتے ہیں۔خوب خوب تلاوت ہوتی
ہے۔خصوصاً تراویح میں کم از کم ایک مرتبہ قرآن پاک ختم کیا جاتا ہے،جس کی
ترغیب و تلقین ملتی ہے اور سیرت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی ثبوت ملتاہے
کہ آقاے دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ رمضان المبارک میں ایک
مرتبہ ختم قرآن پاک فرماتے۔جس سے پتا چلتا ہے کہ رمضان المبارک میں ایک
مرتبہ قرآن پاک ختم کرنا سنتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔اس کے علاوہ جتنا
بھی تلاوت کا اہتمام کیا جائے نیک کام ہے۔مگر آج کل یہ بات دیکھنے میں آرہی
ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ختم قرآن کرنے اور ثواب کمانے کے چکر میں تلاوتِ
قرآن سے متعلق بہت سی بے احتیاطیوں کا شکار ہوکر ثواب کی بجائے گناہ مول لے
لیتے ہیں۔مثلاً سب سے عام برائی یہ پائی جاتی ہے کہ لوگ اس سرعت
اورتیزرفتاری سے تلاوت کرتے ہیں کہ قرآن پاک کے مخارج اور صفات کی ادائیگی
بہت مشکل سے ہوتی ہے،اکثر لوگ جلدی میں ’’ا،ع،س،ش،ص،ج،ذ،ز،ض اور ق،ک ‘‘کے
درمیان تمیز اور فرق نہیں کرپاتے جس سے ’’لحن جلی‘‘واقع ہوتاہے اور لحن جلی
سے قرآن کی تلاوت کرنااور سننادونوں حرام ہے۔(حاشیہ معرفۃالتجویدص۵)یہ فاش
غلطی ان ائمہ سے بھی سرزد ہوجاتی ہے جوتراویح میں اتنی جلدی جلدی قرآن
پڑھتے ہیں کہ یعلمون تعلمون کے علاوہ مشکل ہی سے کچھ سمجھ میں آتاہے۔ایسوں
کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کریں اوربلاوجہ خوداور دوسروں کا گناہ اپنے سر نہ
لیں۔قرآن پاک کا یہ حق ہے کہ اسے اچھی طرح ٹھہرٹھہر کرپڑھاجائے۔ارشاد ربانی
ہے:وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیلْاً۔ (سورۂ مزمل: ۴)’’اور قرآن خوب ٹھہر
ٹھہر کر پڑھو۔‘‘(کنزالایمان)اس لیے ضروری ہے کہ تراویح اور خاص طور پرشبینہ
تراویح میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے ورنہ ثواب کی جگہ گناہ کاارتکاب
ہوگا۔واضح رہے کہ ان غلطیوں کا قوی امکان مروجہ (شارٹ کٹ)چھ دن،آٹھ دن اور
دس دن کی تراویح میں ہوتا ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ اچھی آوازاوربہترین لہجہ میں
پڑھناکمال نہیں بلکہ صحیح تلفظ اور اصولِ قرأت کو ملحوظ رکھ کر پڑھناکمال
ہے اور سعادت مندی بھی۔صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رضوی علیہ الرحمہ
فرماتے ہیں کہ: ’’خوش خواں کو امام بنانانہ چاہیے بلکہ ’درست خواں‘ کو امام
بناناچاہیے۔ ‘‘(بہارشریعت حصہ چہارم،ص۲۷۴)یہ بات محض ائمہ پر لاگو نہیں
ہوتی بلکہ قرآن پاک کے تمام پڑھنے والوں کے لیے درس عبرت ہے۔
اسی طرح اگر تلاوتِ قرآن پاک کے ساتھ ساتھ معتبرومحتاط ترجمہ و تفسیرِقرآن
کے مطالعہ کی عادت ڈالی جائے توہماری زندگی میں روحانی اور علمی انقلاب
پیدا ہوسکتا ہے۔فکروشعورمیں بالیدگی اورپختگی پیداہوسکتی ہے……انگریزی کا
مقولہ ہے کہ:something is batter then nothing(کچھ نہیں سے تھوڑابہت بہتر
ہے۔)اور معلمِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے تویہاں تک ارشاد فرمایا:اَحَبَّ
الَاعْمَالِ اِلَی اللّٰہِ اَدْوَمُھَا و اِن َقلّ(مسلم،باب فضیلت عمل)(اﷲ
کے یہاں وہ عمل محبوب ہے جو مستقل ہو اگرچہ کم ہو) اس سلسلے میں یہ کیا
جاسکتا ہے کہ روزانہ کم از کم ایک رکوع کی تلاوت کے ساتھ ترجمہ
وتفسیر(مثلاً کنزالایمان مع خزائن العرفان )کے ساتھ کلامِ ربانی کو سمجھنے
کی کوشش کی جائے اگر کوئی دشواری درپیش ہوتومعتبر علماسے رابطہ کرکے مددلی
جاسکتی ہے۔اس طرح تلاوت کے ساتھ ساتھ علم دین سیکھنے کا بھی ثواب ملتارہے
گا۔ |