ماموں نے ایک دکان دار سے ملاتے
ہوئے بتایا یہ آپ کے مرحوم خالو کے ہم سبق ہیں، دونوں نے ایک ساتھ حفظِ
قرآن کی تکمیل کی ہے۔ ظاہری شکل وصورت سے کسی طرح حافظ قرآن دکھائی نہیں دے
رہا تھا،عمر پچاس ساٹھ کے پیٹے میں ہوگی۔ ڈرتے ڈرتے استفسار کیا، کیا آپ نے
واقعی قرآن حفظ کیا ہے؟ انہوں نے فخریہ انداز میں کہا، جی یقیناً! آپ کو
کوئی شک ہے؟ دوبارہ دریافت کیا، آپ کو یاد ہے، یا بھول گئے؟ انہوں نے سینہ
مزید چوڑا کرتے ہوئے کہا، بھلا قرآن بھی بھلانے کی چیز ہے آپ کی دعا سے اب
بھی پہلے کی طرح یاد ہے۔ ہمیں خوشی کے ساتھ تعجب بھی بہت ہوا، اتنا عرصہ
مسجد ومدرسہ کے ماحول سے کٹ کر کاروباری لین دین سے جڑ کر بھی قرآن کی
امانت سینہ میں سنبھالے ہوئے ہیں، عین الیقین کے لیے ہم نے عرض کیا، کیا
میں آپ کا امتحان لینے کی جسارت کرسکتا ہوں، اتنا کہنا تھا کہ بے چارے کا
رنگ اڑگیا، بہرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں گننے لگا۔
آپ اپنی گلی محلے کا سرسری جائزہ لیں، اﷲ معاف فرمائے درجنوں ایسے حافظ
ملیں گے جنہوں نے پورے سال قرآن شریف کو ہاتھ تک نہ لگایا ہوگا۔ آپ یقین
نہیں کریں گے میں ایک ایسے حافظ قرآن کو ذاتی طورپر جانتا ہوں جو اب ناظرہ
قرآن پڑھنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ ماہ مبارک چند دن کے فاصلہ پر ہے، اسے
ماہِ قرآن بھی کہا گیا ہے، نزولِ قرآن کی تکمیل اسی مہینے میں ہوئی ہے۔ اس
بابرکت مہینے کی فضیلت سے ہر مسلمان واقف ہے۔ ایک حدیث شیف میں ہے کہ رمضان
کے استقبال کے لیے جنت سال کے شروع سے زیب وزینت کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا: چنانچہ جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے
جنت کے درختوں کے پتوں سے حورعین کے سر پر ہوا چلتی ہے، تو حوریں (رمضان کی
آمد کا ادراک کرکے) کہتی ہیں اے ہمارے پروردگار! اپنے (روزہ دار) بندوں میں
سے ہمارے لیے شوہر بنادے، ان سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں
ہم سے ٹھنڈک پائیں۔ (شعب الایمان۔ مشکوٰۃ المصابیح) اس فضیلت والے مہینہ کی
برکت سے نفل کا ثواب عام مہینوں کے فرض کے برابر ہوتا ہے، ثواب کا اجر عام
دنوں سے ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے۔ صحیحین کی روایت کے مطابق اس مہینہ میں
جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے بند کردیے جاتے ہیں اور شیطانوں
کو قید کردیا جاتا ہے۔
احادیث میں حافظ قرآن کے یلے متعدد فضائل وارد ہوئی ہیں۔ قیامت کے دن حافظ
قرآن سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور بہشت کے درجے چڑھتا جا۔ حافظ قرآن کو ایک
خاص قسم کا تاج پہنایا جائے گا جو اس کے حفظ قرآن پر انعام ہوگا۔ حافظ قرآن
کی ان دس عزیزوں کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی جن پر جہنم کی آگ واجب
ہوچکی ہوگی۔ جہاں ایک طرف قرآن یاد کرنے پر اتنے اعزازات وانعامات ہیں تو
دوسری طرف اس کے بھلادینے پر سخت وعید بھی ہے۔ قرآن حفظ کرنا اتنا مشکل
نہیں جتنا اسے یاد رکھنا نازک مسئلہ ہے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان
ہے کہ قرآن کی خبرگیری کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے،
قرآن سینوں سے اتنی جلد نکل جاتا ہے کہ اونٹ بھی اتنی جلدی اپنی رسی سے
نہیں نکلتا۔ (بخاری ومسلم)
ماہِ رمضان حافظ قرآن کے لیے بہترین مہینہ ہے۔ دینی ماحول، ثواب کی طرف
میلان اور رب ذوالجلال کے انعام واکرام کی بارش ہوتی ہے۔ اس قرآن کے مہینہ
کو قرآن کے لیے وقف کیا جائے، اگر پورے مہینہ اپنی مصروفیات سے فرصت ملتی
ہے تو کیا کہنے، بصورت دیگر وقت ضایع کرنے کی بجائے قرآن یاد کرنے میں
لگایا جائے۔ ہمارے اکابر نے صرف رمضان کے تیس دنوں میں مکمل قرآن حفظ کیا
ہے، دن کو یاد کرتے رات کو تراویح میں سناتے۔ اگر وہی تڑپ، لگن اور جذبہ
موجود ہو تو کوئی مشکل نہیں۔ اگر حافظ قرآن ماہ رمضان کو بھی غنیمت نہ جان
کر قرآن یاد نہیں کرتا تو پھر خاکم بدھن پوری زندگی اسے قرآن یاد کرنا نصیب
نہ ہو۔ |