طب یونانی جسے طب اسلامی بھی کہا جاتاہے‘ کے تحت
جڑی بوٹیوں سے علاج کی افادیت زمانہ قدیم سے مسلمہ ہے۔ترقی پذیر اور ترقی
یافتہ دونوں ممالک ہی اب اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جدید اینٹی بایوٹک
ادویات کی افادیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتالیکن ان کے استعمال سے
بعض اوقات انسانی جسم پر سخت مضراثرات پڑتے ہیں جن سے تکلیف میں کمی کی
بجائے مزید اضافہ ہوجاتاہے یا کوئی اور بیماری آلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج
اس ایٹمی دور میں پوری دنیا کے لو گ دوبارہ جڑی بوٹیوں کے فطری اور بے ضرر
علاج کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں کیونکہ طبِ یونانی( اسلامی )یا ہر بل سسٹم آف
میڈیسن میں ادویات کا استعمال موسم‘عمر اور مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے
کرایاجاتاہے جس کی وجہ سے ان دیسی ادویات کے کسی قسم کے مضر اثرات نہیں
ہوتے۔ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کی رپورٹ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی بے
پناہ ترقی کے باوجود دنیا کی 86فیصد آبادی ہربل ادویات استعمال کر رہی ہے
جبکہ اقوام متحدہ کے فنڈبرائے آبادی کے مطابق پاکستان کی 76فیصد آبادی
مختلف امراض کے سلسلے میں طب یونانی کی جڑی بوٹیوں کی ادویات کا استعمال
کرتی ہے۔سال 2009دنیا بھر میں ہربل میڈیسنزکے حوالے سے انتہائی سود مند
رہااس سال کے شروع میں ہی عالمی ادارہ صحت نے تسلیم کیا کہ جڑی بوٹیاں موثر
ذریعہ علاج ہیںعالمی ادارہ صحت نے مزید کہا کہ روایتی ادویات دورِ حاضر کی
بیماریوں کا موثر علاج ہیں‘لہٰذا انہیں صحت کی ابتدائی دیکھ بھال میں شامل
کیا جانا چاہئے۔
روایتی ادویات جدید دور کے رہن سہن کے انداز سے جنم لینے والی بیماریوں
مثلاً ذیابیطس‘دل کے امراض اور ذہنی بیماریوںکو دُور کرنے میں بھی مدد دے
سکتی ہیں۔اس وقت جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دواو ¿ں کی مارکیٹ اربوں ڈالر تک
پہنچ چکی ہے اور اُن میں سے بہت سی ادویات کو یہ جانے بغیر فروخت کیا جارہا
ہے کہ ان میں کون کون سے اجزا ءشامل ہیں اور اس کے کیا اثرات ہوسکتے
ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ روایتی ادویات کو صحت کی دیکھ بھال کے
جدید نظام میں ضم کرنے سے سائنسی تحقیق کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس بات کو
یقینی بنایا جاسکے گا کہ انہیں نظرانداز نہ کیا جائے اور انہیں محفوظ اور
موثر طور پر استعمال کیا جائے۔اس وقت پاکستان‘ بھارت‘ سری لنکا‘ برما‘ چین
اور بنگلا دیش سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس طریقہ علاج کو سرکاری
سرپرستی حاصل ہے ۔جرمنی میں بچوں کا علاج جڑی بوٹیوں سے کیا جارہا ہے‘ اس
سلسلے میں وہاں سونف کا استعمال کثرت سے کیا جاتاہے۔سعودی عرب میں جڑی
بوٹیوں کے دواخانے ”عطارہ“کے نام سے چل رہے ہیں اور مدینہ یونیورسٹی میں طب
اسلامی کا ایک باقاعدہ شعبہ تدریس وتحقیق موجود ہے۔برطانیہ میں کئی فرمیں
مختلف جڑی بوٹیوں سے دمہ‘ کھانسی‘ یرقان‘ پتھری اور بواسیر سمیت کئی اور
امراض کے علاج کے لئے ادویات تیار کررہی ہیں۔ روس اور چین میں سرطان ‘بلند
فشار خون‘ آنتوں ومعدے کے امراض اور دل کی شریانوں میں خون کے انجماد کو
روکنے کے لئے جڑی بوٹیوں کا استعمال کیاجارہاہے۔ان کی مسلمہ افادیت کے پیش
نظراب یہ ادویات یورپ میں بھی ایکسپورٹ ہو رہی ہیں۔ دماغی امراض کے لئے
لہسن سے” روسی پنسلین“ نامی دواتیار کی گئی ہے۔امریکہ میں جگہ ‘جگہ قدرتی
خوراک کے اسٹور قدرتی جڑی بوٹیاں بھی فراہم کر رہے ہیں۔ان میں ملٹھی‘ تلسی
اور گاﺅزبان سے کف سیرپ تیار کئے جاتے ہیںجو امریکہ میں ایلوپیتھک کف سیرپ
کی بہ نسبت زیادہ مقبول ہیں۔پیٹ کے امراض کے لئے سونف‘ الائچی اور پودینہ
سے تیار کردہ”ہربل ٹی“ کا استعمال امریکہ کے گھر گھر تک پہنچ چکا ہے‘ اسی
طرح جو کی ہر بل ٹی بہت پی جاتی ہے۔
پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں سرکاری و غیر سرکاری اور نجی
ایلوپیتھک ہسپتالوں اور کلینکوں کے قیام کے باوجود آج بھی پاکستان کے دُور
دراز علاقوں اوردیہاتوں کی واضح اکثریت (عالمی اداروں کے مطابق 76%)عام اور
پیچیدہ ومہلک امراض مثلاََ یرقان‘ کالا یرقان (ہیپاٹاٹئس بی‘ سی ‘وغیرہ)
جگر کے امراض‘ دمہ‘ کالی کھانسی‘ السر اور معدے کے دیگر امراض کے لئے
اطبائے کرام سے رجوع کرتی ہے ۔اگرچہ ملک کے طول وعرض میں ایسے نام
نہادحکماءبھی موجود ہیں جو غیر تربیت یافتہ ہونے کے باوجود لوگوں کی
زندگیوں سے کھیل رہے ہیں‘ یہ عطائی حکماءقانون میں سقم کی وجہ سے گرفت میں
نہیں آتے۔ بہرحال ملک میں کوالیفائیڈ اور سند یافتہ اطباءکی بھی کمی نہیں۔
حکومت یونانی طریق علاج کو قواعدو ضوابط کے تحت منظم اوراس طریق علاج میں
در آنے والی خامیوں کو دُور کر کے عوام کے مسئلہ صحت کو حل کرنے کے لئے ایک
بنے بنائے نیٹ ورک سے استفادہ حاصل کر سکتی ہے اور اس کا دائرہ کار دیہاتوں
تک بڑھا سکتی ہے جہاں ایلوپیتھک ڈاکٹر جانے سے کتراتے ہیں۔
اس وقت جبکہ فیڈرل ہیلتھ ٹاسک فورس اور دیگر ادارے و متعلقہ افرادنیشنل
ہیلتھ پالیسی کی تشکیل اور اس کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دے رہے ہیں‘انہیں یاد
رکھنا چاہئے کہ قومی صحت پالیسی کے ثمرات پاکستانی عوام ‘خصوصاً دیہاتی
آبادی علاقوں میں صرف اس صورت میں پہنچ سکیں گے جب نیشنل ہیلتھ پالیسی میں
طب یونانی کو بھی شامل کیا جائے گا۔ حکومت سے اپیل ہے کہ طب یونانی طریقہ
علاج کو سرکاری سرپرستی میں ترقی دینے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیںاور طب
یونانی اور اس کی صنعت دواسازی کو فروغ دیا جائے۔ اس سے پاکستان اپنا قومی
مسئلہ صحت حل کرنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔ |