حضرت محمد ﷺکا فرمان کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا
پڑے تب چین کا سفر انتہائی مشکل اور دشوار گزار تھا۔دین اسلام نے علم حاصل
کرنے کو بہت اہمیت دی ہے۔حضرت آدم کو بھی سب سے پہلے علم سے ہی روشناس
کروایاگیا دونوں جہانوں کے وارث رحمت اللعالمینﷺ کو بھی غار حرا میں سب سے
پہلے پڑھنے کا ہی حکم ہوا۔کسی بھی معاشرے میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل
ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز بھی تعلیمی انقلاب سے ہی ممکن
ہوسکا ہمارا ملک لٹریسی ریٹ کے حوالے سے204ممالک کی لسٹ میں185ویں نمبر پر
ہے اور قومی آمدنی کا 2فیصد بھی تعلیم پر خرچ نہیں ہورہا جبکہ کم از کم
8فیصد خرچ ہونا ضروری ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہر حکومت نے اپنے طور پر
تعلیم کے حوالے سے بہت سی کاوشیں بھی کیں ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام روز
بروز پستی کی طرف جارہا ہے جبکہ حکومتی سطح پر سکولوں کالجز پر بے بہا فنڈز
خرچ کئے تھے اب بھی بہت سارے سکول اور کالجز بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں
اساتذہ کی کمی، عمارات، چار دیواری،باتھ رومز پینے کے صاف پانی کی عدم
دستیابی جیسے مسائل کا شکار ہیں ۔میٹرک تک مفت کتابوں کی فراہمی کبھی بھی
وقت پر نہیں ہوسکی جس سے طلبا و طالبات کا بہت سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے
لیکن ہر سال حکومتی دعوں کے باوجود اس پر کوئی بہتری نہیں ہوسکی اب سرکاری
سکولوں اور کالجز میں کوالیفائڈ سٹاف موجود ہے لیکن ان سے مکمل استفادہ
حاصل نہیں کیا جارہا جبکہ پرائیویٹ سکولز کالجز کی طرف طلبا و طالبات
کارجحان زیادہ ہے سرکاری سکولز اور کالجز میں پڑھنا غریبی کی علامت سمجھا
جاتا ہے حالانکہ معیاری اساتذہ سرکاری سکولوں میں تعینات ہیں جبکہ پرائیویٹ
سکولوں میں اس معیار کے اساتذہ کرام بھی موجود نہیں ہیں اس کے لئے حکومت
تمام محکمہ تعلیم کے افسران کواپنے بچوں کو سرکاری سکولوں اور کالجز میں
تعلیم دلوانے کا پابند کرے اس سے سرکاری سکولوں میں پڑھنے کا رجحان بچوں
میں بڑھ جائے گا دوسرا افسران زیادہ دل جمی سے سرکاری سکولوں اور کالجز میں
بنیادی سہولتوں کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ان کے اپنے بچے
جو ادھر ہی پڑھ رہے ہوں گے ۔سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین
اپنے بچوں پر دھیان نہیں دیتے کیونکہ ان کے اپنے بچوں کے حوالے سے کوئی خاص
اخراجات نہیں ہورہے انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے بچے روزانہ سکول اور
کالج جاتے ہیں یا نہیں جس کی وجہ سے وہ بچے اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر کوئی
خاص توجہ نہیں دے رہے اس پر والدین کو بھی توجہ دینے کی بہت ضروری ہے۔ہمارے
تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے امیر لوگوں کے بچے اے
لیول،پرائیویٹ سکولز اور کالجز میں کچھ اور سرکاری میں بھی مختلف،سب سے
پہلے تو تعلیمی نظام ایک ہونا چاہیے اور وہ نظام جو حقیقت کے نزدیک ہو
ہمارے بچے جو کچھ پڑھ رہے ہوتے ہیں عام زندگی میں ان کی بہت کم ضرورت محسوس
ہوتی ہے۔تعلیمی نظام کو ملک بھر میں ایک کرنے کے لئے ہر مکتبہ فکر کے افراد
کی رائے ضرور لینی چاہیے جس کے لئے ملک بھر میں سیمینار کروائے جائیں وہ
سیمینار اسلام آباد،چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور ضلع و تحصیل سطح پر
منعقد کئے جائیں اس کا اہتمام وزارت تعلیم کرے جس میں شعبہ تعلیم کے
ملازمین،وکلا،طلبا و طالبات،سول سوسائٹی،علما کرام،صحافی،ریٹائرڈ
ملازمین،خواتین سمیت دیگر شامل ہوں اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے ان
سیمیناروں سے حاصل ہونے والی تجاویز پر عمل کرکے تعلیمی انقلاب لایا جاسکتا
ہے۔ اساتذہ کرام کو مقامی سطح پر ریفریشر کورس بلا امتیاز کروائے جائیں
جبکہ میٹرک کی تعلیم حاصل کرکے پڑھانے والے مرد و خواتین اساتذہ کو اب
ریٹائر کردینا چاہیے موجودہ حالات میں ایسے لوگ بچوں کو کیا تعلیم دے سکیں
گے جبکہ ان کے مقابلے میں آج کے ایجوکیٹرز ایم اے،ایم ایس سی ہیں جو بہتر
طریقے سے پڑھا سکتے ہیں دور دراز کے علاقوں کے سکولوں اور کالجز میں مقامی
پڑھے لکھے نوجوان خواتین و افراد کو تعینات کیا جائے جو اپنے علاقے میں
بہتر طریقے سے ٹیچنگ کرسکیں گے۔موجودہ حکومت کوسب سے مشکل تجویز جو دینا
چاہتا ہوں وہ صرف ذاتی انا اور پسند ناپسند کی وجہ سے مسترد نہیں ہونی
چاہیے۔تعلیمی شعبہ میں جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عمران خان کی خدمات سے
استفادہ کرنا چاہیے یہ دونوں حضرات اس شعبے میں بہت کچھ کرنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں۔امید ہے جناب وزیر اعظم میاں نواز شریف اگر واقعی تعلیمی شعبے
میں کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں توان گزارشات کو مدنظر رکھیں گے۔ |