وطنِ عزیز میں تعلیمی انحطاط

گھریلو مصروفیات کی بنا پر میں عموماََ تقریبات میں شمولیت سے گریز ہی کرتی ہوںلیکن ”غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ“ کے اربابِ اختیار نے اتنے اصرار اور تکرار سے مدعو کیا کہ انکار کی گنجائش ہی باقی نہ بچی ۔تقریب میں جا کر مجھے احساس ہوا کہ اگر نیت میں خلوص اور عزم صمیم ہو تو انسان مالی مشکلات کے باوجود ، کشکولِ گدائی تھامے بغیر بھی محیر العقول کارنامے سر انجام دے سکتا ہے۔میری چونکہ ساری زندگی دشتِ درس و تدریس کی سیاحی میں گزری ہے اِس لیے بطور معلم تدریسی عمل میں میری دلچسپی فطری امر ہے۔ لیکن اِس سے بھی بڑھ کر دینِ مبیں میں علم کی اہمیت پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ میرے خیال میں حصولِ علم ہر مسلم مر د و زَن کا فرضِ عین ہے اور تکمیلِ دیں تحصیلِ علم کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔

فُرقانِ حمید میں درج کر دیا گیاکہ رَب کو جاننے والے اُس کے عالم بندے ہیں۔میرے آقا کا فرمان ہے کہ ایک عالم ہزار عابدوں سے زیادہ وقیع ہے۔تشکیلِ پاکستان کے متعلق حضرتِ قائدِ اعظم نے زور دے کر فرمایا ”ہمیں ایک ایسا زمین کا ٹکڑا درکار ہے جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں “۔ وہ قطعہ زمیں توربّ ِ کردگار نے ہمیں پاکستان کی صورت میں عطاکر دیا لیکن بد قسمتی سے اِس ”اسلامی تجربہ گاہ “ میںہر حکومت نے کم ترین توجہ تعلیم و تعلم پر ہی دی ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تشنگی علم گھٹتے گھٹتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔دور دراز دیہاتوں اور قصبوں کا تو بُرا حال ہے ہی لیکن شہروں میں بھی بیشمار بچے سکول جانے کی بجائے محنت مزدوری کرتے نظر آتے ہیں ۔آج بھی پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے اڑھائی کروڑ بچوں کی تعلیم اربابِ اختیار کوئی توجہ نہیںدے رہے ۔علم سے بیزاری کا یہ عالم ہے کہ ہماری رہبری کا دعویٰ کرنے والے جعلی ڈگریوں کا سہارا لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور پکڑے جانے پرآجکل عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں لیکن کسی جعلساز کی پیشانی عرقِ ندامت سے تَردکھائی نہیں دیتی۔

سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے ”پڑھا لکھا پنجاب“کا سیاسی نعرہ تو لگادیا لیکن عملی طور پر ہواکچھ بھی نہیں ۔ہمارے خادمِ اعلیٰ صاحب نے دور دراز علاقوں میں خطیر رقم صرف کرکے دانش سکولوں کا اجراءکیا جن میں صرف غریب اور نادار بچوں کوجدید تقاضوں کے مطابق مفت تعلیم دی جاتی ہے ۔یہ اقدام یقیناََ لائقِ تحسین ہے ،لیکن اگر اِن دانش سکولوں پر صرف کی جانے والی رقم پہلے سے موجودگورنمنٹ سکولوں کی حالتِ زار بہتر بنانے میں صرف کی جاتی تو کیا دانش سکولوں سے کہیںبہتر نتائج برآمد نہ ہوتے ؟۔شاید خادمِ اعلیٰ یہ سمجھتے ہوںکہ مفلس و نادار بچے صرف دور دراز علاقوں میں ہی پائے جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنے بچوں کو اِن دانش سکولوں میں تعلیم دی جا رہی ہے اُس سے ہزار گُنا زیادہ ایسے بچے تو شاید صرف لاہور ہی میں مِل جائیں جن کے نانِ جویں کو ترستے والدین اُنہیں اعلیٰ پائے کے پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں ناقص معیارِ تعلیم سے بد دِل ہو کر والدین نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رُخ کیا جس کی بنا پر تعلیم دھندا بن کے رہ گئی۔ اب یہاں علم فروشی کا یہ عالم ہے کہ گلی گلی ایسے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھُل چکے ہیںجن کے ہاتھوں بچوں کا تعلیمی مستقبل برباد ہو رہا ہے ۔ایسے ہی ایک تعلیمی ادارے میں ، مَیں نے دسویں کلاس کو پڑھانے والے ایک اُستاد سے اُس کی تعلیمی استعداد کے بارے میں پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ وہ میٹرک کا امتحان دے رہا ہے۔میں نے حیرت سے کہاکہ آپ تو خود میٹرک کو پڑھا رہے ہیں۔اِس سے پہلے کہ ٹیچر جواب دیتا ، ادارے کے پرنسپل صاحب بول اُٹھے ”دراصل ٹیچرمیٹرک کے طلباءکو صرف وہی مضامین پڑھا رہا ہے جو وہ پاس کر چکا ہے“۔۔۔۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ شہروں میں ایسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھرمار ہے لیکن حکومت نے اِن کے سدّ ِ باب پر کبھی توجہ نہیں دی۔ رہی معروف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات تو اُن کی فیس، غریب تو رہے ایک طرف ، مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہے ۔یکساں نظامِ تعلیم کا شور سبھی مچاتے ہیں لیکن کسی حکومت نے یکساں نظامِ تعلیم کے لیے کبھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایاجس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ایسے اداروں کے مالکان ہمیشہ حکومتوں کے دست و بازو بن کر رہتے ہیں اور اکثر اسمبلیوں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔

اِس تعلیمی انحطاط میں اگر کوئی شخص ، ادارہ یا این جی او خلوصِ نیت سے تعلیم و تعلم کی بہتری کے لیے کوشاں ہو تو اُس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے روحِ رواں وقاص انجم جعفری اور اُن کے رفقائے کار بحرِ علم کے موتی چُن چُن کر پورے پاکستان کے ایسے علاقوں اور ایسے بچوں پر نچھاور کر رہے ہیں جہاں جہالتیں سایہ فگن تھیں۔ اِس ٹرسٹ نے پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے ایسے دور دراز علاقوں کا انتخاب کیا جہاں آج بھی رابطہ سڑکوں کی بجائے بَل کھاتی کچی پگڈنڈیاں ہیں۔ٹرسٹ کو دور دراز دیہاتوں میں جہاں مناسب عمارت نہیں ملی ، وہاں کچے مکانوں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔

1996ءسے جہدِ مسلسل میں مصروف یہ لوگ لائقِ تحسین ہیں جنہوں نے اپنی شبانہ روز کاوشوں سے لگ بھگ ساڑھے تین سو سکول قائم کیے اور آج پچاس ہزار بچے وہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کی غالب اکثریت مفت تعلیم حاصل کر رہی ہے ۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں بچوں کو اعلیٰ معیارِ تعلیم اور دینی بنیادوں پر ذہن سازی کرنے والا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ٹرسٹ خصوصی بچوں کو نارمل بچوں کے ساتھ زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے جو میرے خیال میں خصوصی بچوں کی نشوونما کا موثر ترین ذریعہ ہے۔جہالت کے اندھیروں میں علم کی شمعیں روشن کرنے والے اِس ٹرسٹ کی کارکردگی اِس مختصر سے کالم میں سموئی نہیں جا سکتی لیکن یہ طے ہے کہ اگر اسی مشنری جذبے سے آراستہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے ادارے قائم ہوتے رہے اور مخیر حضرات اُن کی سر پرستی بھی فرماتے رہے تو وطنِ عزیز میں جہالت کے اندھیروں کو انتہائی سرعت سے دور کیا جا سکتا ہے ۔دِل سے دُعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے اکابرین کے عزم کو جواں رکھے ۔میں مخیر حضرات سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ دِل کھول کر نادار بچوں کی تعلیم کے لیے مالی معاونت فرمائیں۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 872 Articles with 573929 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More