دنیا کی کوئی قوم تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی، تحقیق ، تصانیت اور معلومات کو نظر
انداز کر کے ترقی نہیں کر سکتی نہ ہی عالمی برادری میں کوئی باوقار مقام حاصل کر
سکتی ہے ۔ آج کا دور معیشت کا دور ہے اور معیشت کی بنیاد علم پر ہے ۔ دور جدید کی
معیشت کو ’’نالج اکانومی‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ دنیا کی جن قوموں نے عالمی برادری
میں باوقار مقام حاصل کیا ہے انہوں نے علم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی اولین
ترجیحات میں رکھا ۔ انسانی ذرائع کی ترقی پر بھرپور توجہ دی ۔ تعلیم کے معیار کو
بہتر سے بہتر بنایا اور معیار تعلیم تک ہر ایک کی رسائی کے حق کو تسلیم کیا اسے
عملی طور پر نافذ کیا۔ معیاری تعلیمی اداروں کے دروازوں کو صرف اشرافیائی طبقے تک
ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اسے عام کر دیا اور علم حاصل کرنے کے کسی خواہشمند ، پیاس
اور تڑپ رکھنے والے پر محض وسائل کی کمی کی وجہ سے علم کے دروازے بند نہیں کئے ۔
چین، جاپان، جرمنی، سنگاپور ،امریکہ، ملائیشیا، ترکی، برطانیہ ، فرانس وغیرہ اس کی
مثالیں ہیں۔ جب مسلمان عروج پر تھے علم ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ تحقیق ان کی غذا
تھی، ایجادات ان کی تفریح کا سبب تھیں، کتب خانے ان کا افتخار تھے ، علماء اور
دانشور بادشاہوں سے زیادہ عزت و توقیر پاتے تھے اور شاید یہی سبب تھا کہ مسلمانوں
نے یورپ اور افریقہ کے بیشتر حصوں پر چھ سو سال حکمرانی کی ، برصغیر میں 300سال ،
وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ ، افغانستان ان کے زیر نگیں تھے۔ اہل یورپ ان کے شاگرد تھے
اور ان کے سامنے ادب سے زانوئے تلمذ ہوتے تھے ۔مسلمان علماء سے اپنی نسبت کو فخر سے
بیان کرتے ۔ جب یورپ کے شہروں لندن اور پیرس کی گلیوں میں کیچڑ تھا اس وقت مسلم
اسپین علم اور تحقیق کا مرکز تھا۔ جب یورپ میں علماء، سائنسدان اور دانشوروں کو
پھانسیاں دی جا رہی تھیں۔ قید و بند اورجلا وطنی کی سزائیں دی جا رہی تھیں اس وقت
مسلمان اہل علم کی راہوں میں پلکیں بچھاتے،انہیں سرآنکھوں پر بٹھاتے تھے لیکن پھر
مسلمانوں کے زوال کی ابتداء علم کے زوال سے شروع ہوئی جب تحقیق کا راستہ ترک کر کے
تفرقہ کی راہ اپنائی تو زوال کا سفر تیز ہو گیا ۔ جب علم پر وسائل خرچ کرنے کے
بجائے لگژری اور پرتعیش اشیاء پر دولت اڑائی جانے لگی تو وہ اپنی توقیر کھو بیٹھے ۔
ایک وقت تھا کہ سندھ علم ، تحقیق، تصانیف اور تدریس کا مرکز تھا۔ مشرق وسطیٰ اور
ایشیائی ممالک سے تشنگان علم یہاں آتے ، زانوائے تلمذتہ کر کے ماہرین علوم و فنون
سے علم حاصل کرتے اور پھر اپنے اپنے ملکوں میں علم کو پھیلاتے ۔ کسی بھی ملک یا قوم
کے زوال کی ابتداء ’’علم کے زوال‘‘ سے ہوتی ہے ۔ جاپانی کہاوت ہے ’’مچھلی سر کی
جانب سے سڑنا شروع ہوتی ہے ۔ جو قومیں غوروفکر اور تحقیق کا دامن چھوڑ دیتی ہیں وہ
اندھی تقلید ، توھم پرستی اور جہالت کے اندھیروں میں گم ہو کر تاریخ کی نظروں سے یا
تو اوجھل ہو جاتی ہیں یا عبرت کا سامان بن جاتی ہیں۔ انگریز نے برصغیر پر قبضے کے
بعد یہاں کے مسلمانوں کو اپنی تہذیب ، علم کے سرچشموں سے غافل کرنے کے لئے انگریزی
زبان کو سرکاری اور دفتری زبان بنا کر ’’معاش‘‘ کو اس سے منسلک کر دیا جبکہ دوسری
جانب جاگیرداروں ، وڈیروں اور اشرافیہ کا ایک وفادار اور نمک خوار طبقہ پیدا کیا
گیا جو انگریز سرکار کے سامنے بھیگی بلی لیکن اپنے زیر اثر علاقے کے عوام کے سامنے
فرعون اور جلاد تھے جو عوام کو اپنا غلام ، تابعداراور نوکر سمجھتے تھے ۔ جاگیردار
اشرافیہ کا یہ ٹولہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ علم کی راہوں کے مسافر کبھی بھی
ذہنی غلام بن کر نہیں رہ سکتے اس حصول علم کی حوصلہ شکنی کی گئی اور پاکستان بننے
کے بعد بھی اقتتدار کے ایوانوں پر یہی طبقہ غالب اور قابض رہا اور علم کے دروازے
محض اشرافیہ تک محدود رکھے گئے ۔ سندھ جو علماء، محدثین ، مفسرین، محققین ، شاعروں،
ادیبوں اور دانشوروں کی سر زمین تھی اپنے بے پناہ ٹیلنٹ، صلاحیت اور قابلیت کے
جواہر کے باوجود تعلیم کے معاملے میں دوسرے علاقوں سے پیچھے رہ گیا۔ سندھ میں
تعلیمی پسماندگی، طبقاتی نظام تعلیم کی وجوہات کا تعین کر کے اس کا سد باب کرنا
ہوگا کیوں کہ ہم اس وقت عالمی دیہہ میں رہ رہے ہیں۔ آج کا دور عالمی مسابقت کا دور
ہے اور مقابلاتی سرحدیں اب کسی ایک شہر،صوبے، جغرافیائی خطے تک محدود نہیں ہیں اس
لئے اب یہاں روایتی سست روی اور بیوروکریٹک رویوں اور فرسودہ سوچ کے ذریعے تبدیلی
نہیں لائی جا سکتی۔ آج کی تعلیم ٹیکنالوجی سے وابستہ ہو چکی ہے اس لئے اب چار
دیواری سے محروم ، جبرو استحصال کی فضا میں تعلیم کے بیج کو بوکر بہتر نشوونما کی
توقع نہیں کی جا سکتی۔ اب ٹیلنٹ کے بیج کو میرٹ کی زرخیز زمین درکار ہے ، حوصلہ
افزائی کی کھاد، توجہ اور پذیرائی کا ماحول درکار ہے ،جس گاؤں یا علاقے میں شرح
خواندگی کم ہو وہاں کے وڈیرے اور منتخب نمائندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے ، منتخب
نمائندوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے علاقے میں علم کے فروغ ، کتاب اور قلم
کلچر کو فروغ دیں ۔ میڈیا کے ذریعے ان علاقوں کی نشاندھی کی جائے جہاں شرح خواندگی
کم اور تعلیمی معیار سست ہے اور وہاں کے منتخب نمائندوں کو جوابدہ بنایا جائے ۔ یہ
امر نہایت افسوسناک ہے کہ سندھ تعلیم کے میدان میں پنجاب سے بہت پیچھے ہے ۔ یونیسکو
کی رپورٹ کے مطابق 28لاکھ بچے جو سندھ کے پانچ سے سات سال کے بچوں کا 46فیصد ہیں
اسکول نہیں جاتے ۔ 38فیصد بچے جو اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں وہ چھٹی جماعت کے بعد
تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔پاکستان میں کل 15ہزار 9سو 96اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت
نہیں اورسندھ میں ایسے اسکولوں کی تعداد 10 ہزار 7سو 22ہے جو اس طرح کے کل پاکستانی
اسکول کا 67فیصد ہیں۔ پاکستان میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے 53ہزار تین سو
89اسکول ایسے ہیں جن کی چار دیواری نہیں جن میں سندھ کا حصہ 24ہزار ہے جو کل ایسے
اسکولوں کا 45فیصد ہے ۔ پاکستان میں 54ہزار آٹھ سو سات اسکول ایسے ہیں جہاں پینے کا
پانی دستیاب نہیں جبکہ سندھ میں ایسے اسکولوں کی تعداد 24ہزار پانچ سو 59ہے جو کل
اسکولوں کا 45فیصد ہے ۔ پاکستان میں 57ہزار سات سو 34اسکولوں میں بیت الخلاء یعنی
لیٹرین نہں ہیں جن میں سندھ کے اسکولوں کی تعداد 21ہزار چھ سے 64ہے جو کل ایسے
اسکولوں کا 37.5فیصد ہیں پاکستان کے 96ہزار دو سو 23اسکول جو بجلی کی سہولت سے
محروم ہیں ان میں سندھ کے اسکولوں کی تعداد41ہزار 230ہے جو کل ایسے اسکولوں کا
43فیصد ہیں۔ اب کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اس طرح کی بنیادی سہولیات سے محروم اسکولوں
کے طلباء وطالبات کو بیکن ہاؤس سٹی اسکول اور ’’اے ‘‘ اور ’’او‘‘ لیول کے اشرافیائی
تعلیمی اداروں کے ساتھ مقابلاتی سطح پر لایا جائے ۔ میرٹ کا گلہ تو وسائل اور
معیاری تعلیم تک عام انسانوں کے بچوں کی پہنچ سے دور کر کے گھونٹ دیا گیا ۔ ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح دواؤں پر لکھا ہوتا ہے کہ تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور
رکھیں، اس طرح اشرافیہ نے بھی شاید یہ طے کر رکھا ہے کہ معیاری تعلیم اور تحقیق کے
دروازے غریبوں ، ہاریوں ، کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں کیوں کہ
اس سے وہ شعور کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور اشرافیہ ، جاگیرداراور
سرمایہ داروں کی اجارہ داری کے لئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ سندھ میں پرائمری سطح
پر پانچ ہزار ایک سو 85اسکول ایسے ہیں جہاں تدریسی سرگرمیاں انجام نہیں دی جا رہیں۔
سندھ میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے وسائل کے ضیاع کو روکنا ہوگا۔ تعلیمی
اداروں میں اوطاق بنانا ، جانوروں کو باندھنا، سیاسی تنظیموں کا اسلحہ خانہ بنانا
قومی جرم تصور کیا جانا چاہیے ۔ اقوام متحدہ نے 189ممالک کے لئے ہزارئیے ترقی
پروگرام (ایم ڈی جی) کے نام سے 8اہداف مقرر کئے تھے اور ان اہداف کو 2015ء تک حاصل
کرنا تھا۔ ان اہداف میں سے اکثر اہداف میں سندھ پاکستان بھر میں پیچھے ہیں۔ پرائمری
تعلیم کے حصول کے لئے 2015ء تک سو فیصد کا ہدف حاصل کرنا ہے جبکہ سندھ صرف 53فیصد
تک کامیابی حاصل کر سکا ہے ۔ شرح خواندگی کا ہدف 88فیصد رکھا گیا جبکہ سندھ میں یہ
59فیصد ہے ۔ تعلیم کے حوالے سے جنس مساوات اشاریہ یعنی لڑکے اور لڑکیوں کو مساوی
سطح پر تعلیم کے مواقع دینے کے اعتبار سے کراچی 0.94اشاریہ کے ساتھ سب سے بہتر جبکہ
کشمور 0.48کے ساتھ سب سے کم سطح پر ہے ۔ سندھ کا اشاریہ 0.77ہے ۔ سندھ میں تعلیم کے
لئے مختص کئے جانے والے 80فیصد وسائل اساتذہ کی تنخواہوں پر خرچ ہو جاتے ہیں جبکہ
تعلیمی ترقیاتی بجٹ بہت کم ہوتا ہے ۔ اس سال حکومت نے لاڑکانہ، رتو ڈیرواور دیگر
علاقوں میں نئے کالجز ، گرلز کیڈٹ کالجز کے قیام کے لئے رقم مختص کی ہے جو خوش آئند
ہے لیکن حیدرآباد جو سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے اسے ابھی تک یونیورسٹی سے محروم رکھا
گیا ہے جو بہت بڑی زیادتی ہے ۔ تعلیم سب کا مساوی حق ہے اور اس سے کسی بھی شہر ،
قصبے ، گاؤں کو محروم نہیں کرنا چاہیے سندھ میں تعلیم کا فروغ اس وقت تک ممکن نہیں
جب تک تربیت یافتہ اساتذہ طلب کے اعتبار سے تیار نہ کئے جائیں۔ اس وقت تربیت یافتہ
اساتذہ کی شدید قلت ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ کے ہر ضلعے ، قصبے میں اساتذہ
کی تربیت ، مزید تعلیم کے لئے معیاری تربیتی ادارے قائم کئے جائیں۔ اساتذہ کو
سہولیات کی فراہمی ، ان کا معیار زندگی بہتر بنانے ، ان میں احساس کمتری کے خاتمے
کی کوششیں کئے بغیر تعلیم کے معیار میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ اساتذہ کو نہایت
ہی آسان اقساط پر رہائش فراہم کی جائیں، ان کے بچوں کے لئے خصوصی وظائف مقرر کئے
جائیں انہیں میڈیکل اور ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات دی جائے ۔ رعایتی نرخوں پر بجلی
فراہم کی جائے اس سے معاشرے میں استاد کی اہمیت واضح ہو گی اور اساتذہ احساس کمتری
میں مبتلا نہیں ہونگے اور پوری یکسوئی ، تندھی اور بھرپور توانائی کے ساتھ قوم کے
نونہالوں کو تعلیم دے سکیں گے ۔ سندھ کے نوجوانوں میں کس قدر بھرپور ٹیلنٹ اور
صلاحیت ہے اس کی مثال شاداب رسول بڑیو کی ہے جو خیر پور کے پاک ترک اسکول میں نویں
جماعت کا طالب علم ہے ۔ اس طالب علم نے صنعتی فضلے کو چائے کی مدد سے کارآمد بنانے
کے لئے ایک مقالہ لکھا اور اسے بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کے لئے نیو یارک بھیجا
جہاں اس کے مقالے نے دنیا بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ اس ہونہار طالب علم کو
نیو یارک یونیورسٹی نے ایک کروڑ روپے کا اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ ایک اور
مثال اسمعیل جوکھیو گوٹھ کی انعم فاطمہ کا ہے جس نے کچی آبادی میں رہ کر اپنی محنت
، صلاحیت اور لیاقت کی بدولت اسکالر شپ پر بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کیا اور
اب ہارورڈ یونیورسٹی کے سمر کیمپ پروگرام میں شرکت کے لئے روانہ ہو رہی ہے ۔ سندھ
میں تعلیم کو عام کرنے کے لئے تعلیمی اوقات کے دوران وڈیو گیمز کی دکانوں اور مراکز
پر پابندی عائد کرنا ہونگی، جھونپڑی ہوٹلوں کی کڑی نگرانی کرنی ہو گی کہ یہ ہوٹل
سندھ کے لاکھوں نوجوانوں کے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل پر
نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ون وہیلنگ کرتی ہے جبکہ ان نوجوانوں کی اکثریت سولہ سال
یا اس سے بھی کم ہوتی ہے ۔ ان کے پاس لائنسس بھی نہیں ہوتا اس لئے 18سال سے کم عمر
کے نوجوانوں پر موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کی جائے ۔ سگریٹ ، پان ، گٹگا ،
چھالیہ ، سٹی وغیرہ کی فروخت پر سختی سے پابندی عائد کی جائے اور 18سال سے کم عمر
نوجوانوں کو ان اشیاء کی فروخت کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں ۔ ملک میں
1300نوجوان یومیہ سگریٹ نوشی کے عادی ہو رہے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد سندھ کے
نوجوانوں کی بھی ہے ۔ نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی عادت ترک کرانے اور انہیں سگریٹ
اور دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال سے روکنے کے لئے مذہبی رہنما، علماء و دانشور ،
تعلیمی ادارے ، میڈیا اپنا بھرپور کردار ادا کرے ۔ منشیات فروشوں کو سزائے موت دیکر
اس کی تشہیر کی جائے ، منشیات کے عادی نوجوانوں کو مفت طبی سہولیات مہیا کی جائیں۔
جیلوں میں موجود نوجوانوں کی اصلاح پر کام کیا جائے اور انہیں ہنر مند بنایا جائے
انہیں تعلیم جاری رکھنے کے مواقع دیئے جائیں تو سندھ میں تعلیم کی حالت بہتر ہو
سکتی ہے ارو سندھ کے نوجوان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں نمایاں کارہائے نمایں
سرانجام دے سکتے ہیں۔ |