بطور طالبعلم سیاسیات تاریخ کی
کتابوں میں ہمیں ایک ایسا نام ملا ہے جس ے پڑھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے
ملک کے بیشتر سیاستدان ایک اطالوی مفکر کے فلسفے پر کاربند ہیں۔ وہ نام ہے’
نکولو میکاولی‘۔میکا والی کا مختصرسا تعارف ’ میکا ولی‘ ایک اطالوی
سیاستدان اور مفکر تھا۔وہ ۹۶۴۱ میں اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہوا کلرک
کے عہدے سے کام کا آغاز کرنے والا یہ شخص سفارتکار کے عہدے تک بھی براجمان
رہا۔بطور ایک مفکر میکاولی نے شہرہ آفاق کتاب ’دی پرنس‘ لکھی۔اس کتاب میں
میکاولی نے اخلاقیات کو سیاست سے الگ کر دیا۔اس کے نزدیک صرف مفاد کو ہی
عزیز رکھا جائے۔اپنی کتاب میں وہ یہاں تک کہتا ہے کہ حکمرانوں اور
سیاستدانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اقتدار کے لئے ہر قسم کا ناجائز حربہ
استعمال کیا جائے مکاری سے کام لیا جائے اور بے ایمانی کو اپنا اصول بنایا
جائے۔ میکاولی حکمرانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ ضرورت کے تحت مختلف حیلوں
بہانوں سے وعدہ خلافی بھی کرنی چاہیے‘‘۔ اب اگر ہم اپنے حکمرانوں پر نظر
دوڑائیں تو ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان سیاستدانوں خصوصا ’’لوٹوں‘‘نے
لازمی کہیں سے بھی میکاولی کے فلسفے کو سیکھا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ملک میں الیکشن بھی ایک نظریہ پر لیا جاتا تھا اور
نمائندگان بھی اپنی اپنی جماعتوں کے نظریات عوام کے سامنے پیش کرتے تھے۔اور
عوام بھی بھی اپنے نظریے پر ووٹ کاسٹ کرتی تھی لیکن اس وقت کوئی نظریہ کوئی
فلسفہ نہیں رہا۔ سیاستدانوں نے میکا ولی کی طرح ہر طرح عوام کو بیوقوف
بنایا ہے ۔ کسی پارٹی کی کوئی اہمیت نہیں رہی جس کی وجہ پارٹی کے لیڈران
خود ہیں جس پارٹی کی مخالفت میں ہمارے سیاستدان بھر پور مخالفت کر تے رہے
ہیں الیکٹرانک میڈیا کا سہارا لے کر پارٹی لیڈران کے بارے زبان درازی کرتے
رہے ہیں ۔ آج انہی پارٹیوں کے ٹکٹ لے کر عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں نہ کوئی
کارل مارکس کا سوشلسٹ ہے نہ مصطفیٰ کمال جیسا قوم پرست نہ مسلم لیگی
نظریاتی ہے نہ بھٹو کے نظریات کا حامی بس سب اپنے مفاد کو آگے رکھ کر عوام
کو مزید دھوکہ دینے کے چکر میں ہیں اور اس میں وہ پہلے کی طرح کامیاب ہو
جائیں گے۔کیونکہ ہماری قوم کی یہی بدقسمتی رہی ہے۔ ہم لوگ بھول جاتے ہیں
اور انہی لوگوں کو اپنا مسیحا سمجھ کے پھر اگلے پانچ سال گالیاں نکالتے
ہوئے گزاردیتے ہیں۔
قاتل لیگ کا الزام لگانے والے آج قاتل کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ سابقہ حکومتی
ادوار میں اعلی وزارتوں پر براجمان رہنے والے ملک کی خارجہ پالیسی چلانے
والے ملک میں تبدیلی لانا چاہ رہے ہیں۔وقت کے آمر کے ساتھ حکومتی عیاشیاں
کرنے والے آج پھر جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔یہ کون سا نظریہ ہے جس پر
ووٹ مانگے جارہے ہیں۔پہلے یہ لوٹے بہت چھوٹے ہوتے تھے لیکن ان پارٹی لیڈران
کو کیا لقب دیں جو لوٹوں سے بھی بہت آگے نکل گئے ہیں۔یہ کس پارٹی کے لوگ
ہیں کوئی ایک پارٹی تو بتائی جائے کسی ایک نظریے کا ذکر تو کیا جائے۔ جب
حکومت میں وزارتوں پر براجمان تھے یہ حکمران تو اس وقت ملک کی خارجہ پالیسی
کہاں تھی جو اب یہ تبدیل کرنے جارہے ہیں۔توانائی کا بحران تو ہمارے ملک میں
پہلے بھی تھا چار سال حکومت میں رہ کے ان لوگوں نے ٹھیک نہیں کیا تو یہ اب
۲سالوں میں کیسے ٹھیک کریں گے؟ کون سی تبدیلی لانا چاہ رہے ہیں اگر خود
نااہل ہو رہے ہیں تو اپنے خاندان والوں کو ٹکٹ دلوا رہے ہیں کیا ان کے
علاقے میں ان سے بہتر اور کوئی الیکشن لڑنے کے قابل نہیں ہے۔کیا یہ کسی
غریب کی حمایت نہیں کر سکتے؟کسی اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو آگے نہیں لا
سکتے؟کیا انہیں نے بم دھماکوں میں مرنے والے لوگوں کے لواحقین اور ورثاء کو
ملازمتیں دی ہیں؟کیا ان کے دکھ درد میں شریک ہوئے ہیں؟ ن لوگوں کو صرف اپنے
مفادات عزیز ہیں انہیں دوروں کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہمارے سیاستدانوں
نے سیاست اور حکمرانی کو ایک کاروبار بنایا ہوا ہے یہ اسمبلیوں میں بیٹھنا
حکومت میں رہنا یہ ایک بزنس سمجھتے ہیں ۔ یہ محنت ایک بار کرتے ہیں پھر
پانچ سال اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں سیاست اور حکومت کو یہ لوگ کاروبار اور
اپنی جائداد تصور کرتے ہیں بھلا جائداد میں کوئی کسی کو وارث بناتا ہے جس
طرح کاروبار اور جائداد میں اپنی اولاد اور اپنے رفقاء وارث ہوتے ہیں اسی
طرح ہمارے ملک کی حکمرانی کے لئے بھی ان مفادپرست سیاستدانوں کی اولادیں ہی
وارث ہیں۔ سیاست اور حکمرانی کو یہ لوگ اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے والے ہیں
اور عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔اگر میکاولی اس دور میں ہوتے تو وہ بھی
ان لوگوں کو اپنا استاد تسلیم کرتے۔پاکستان کو اپنی وراثت سمجھنے والے یہ
صرف اپنی ذات کے لئے سوچتے ہیں۔پانچ سال جس پارٹی کے بارے میں زبان درازی
کرتے رہے اس وقت اسی پارٹی کے تحت الیکشن لڑنے والے کس منہ سے ووٹ مانگ رہے
ہیں۔
جو سیاستدان کسی نظریہ کا قائل نہیں اسے منافق ہی کہا جائے ۔ اور جو نظریہ
پاکستان کا مخالف ہے وہ تو سب سے بڑا منافق ہے۔نظریہ پاکستان تو ہم
پاکستانیوں کے لئے ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔کیونکہ یہ نظریہ اسلام سے معر ض
وجود میں آیا اسی نظریے کی بدولت ہمارا ملک پاکستان قائم ہوا۔لیکن افسوس کا
مقام ہے کے نظریہ پاکستان کی مخالفت عروج پر ہے۔اور یہ منافقت پاکستان بننے
سے شروع ہوئی اور آج اس گروہ کے لوگ زیادہ متحرک ہیں۔نظریہ پاکستان صرف چند
سیاسی جماعتوں تک محدود ہے۔اور کسی کے منشور میں اس نظریے کی کوئی اہمیت
نہیں ہے۔نظریہ پاکستان ، پاکستان کے آئین میں درج ہے لیکن پھر بھی اس نظریے
کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔مفاد پرستی اور منافقت نے ہمارے ملک کی جڑیں
کھوکھلی کر دی ہیں۔
کیا اس الیکشن میں مفاد پرست سیاستدان شکست خوردہ نہیں ہوتے تو پھر۔یہ
سمجھیں نظریات کی شکست یقینی ہے۔اس میں ہم لوگ پھر خود ہی یپنے کیے کے ذمہ
دارہیں۔ اب ہمیں خود فیصلہ کرنا ہوگا اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے
خود کو تبدیل کرنا ہوگا ہمیں جذبات سے کچھ لمحہ فرصت لینی ہوگی پھر ہم درست
فیصلہ کر پائیں گے۔ہم نے ان مفاد پرستوں کو شکست دینی ہے تو ہمیں اپنے ووٹ
کا صحیح استعمال کرنا ہوگا۔اگر آج ہم نے دوبارہ غلطی کی تو اگلا وقت ہمیں
کچھ کرنے کا موقع نہیں دے گا پھر ہم دوبارہ گرداب میں پھنس جائیں گے۔اور یہ
لٹیرے ہمیں نہیں چھوڑیں۔اس الیکشن میں اکثریتی ووٹ یوتھ کا ہے اور نوجوانوں
نے خود صحیح قیادت منتخب کرنی ہے۔ آج سوچنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے اگر فیصلہ
درست نہ کر پائے تو کل پھر بھگتنا ہے۔ کیونکہ
’’وقت کا مفتی کا فتوی ہے یہ ازل سے لمحوں نے خطا کی ہے صدیوں نے سزا پائی‘‘۔ |