حمایت علی
ایک مغرور عیسائی نے مسلمان عورت کو تھپڑ مار ا تو اس خاتون نے روتے ہوئے
دہائی دی کہ ’’ہائے معتصم ! تم کہاں ہو ؟ ‘‘ جب خلیفہ معتصم باﷲ تک خبر
پہنچی تو اس کی سلطنت کے ایوان لرزنے لگے اور وہ پورے جاہ وجلا ل کے ساتھ
اس مظلوم عورت کی بے عزتی کا بدلہ لینے روم کے شہر عمودیہ پر حملہ آور ہو
اتھا۔
ایک وہ زمانہ تھا اور ایک آج کا دور ہے کہ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی (جسے
شرم وحیا سے عاری ،حوس اقتدار کے مارے ہوئے ایک ملعون نے چند ڈالروں کے عوض
فروخت کردیاتھا ) امریکی عقوبت خانے میں ناکردہ گناہوں کی سز ا کاٹ رہی ہے
اور ہماری حالت یہ ہے کہ حکومت کو تشکیل پائے ایک ماہ ہونے کو ہے مگرمجال
ہے کہیں سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ سامنے آیا ہو ۔خواہ وہ کابینہ
کے اجلاس ہوں یا نیشنل اور صوبائی اسمبلیوں کے فورم کسی ممبر میں بھی اتنا
احساس اور جرأت نہیں کہ ڈھنگ سے اپنی بہن اور بیٹی کا احتجاج ہی ریکارڈ
کروادیتے ۔بے حسی اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ ذلت
ہمارے پیچھے پڑ گئی ہے ۔اور رسوائی ہمار ا مقدر بن گئی ہے ۔
وہ 2003ء کا یک الم نصیب دن تھا جب عافیہ اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی
سے راولپنڈی کے لئے روانہ ہورہی تھی توا سے کراچی ایئر پورٹ سے پاکستانی
حکام نے گرفتار کرکے امریکی ایجنسیوں کے حوالے کردیا ۔5سال تک اسے پس پردہ
رکھا گیا ۔اس کے معصوم بچے تک اس سے چھین لیے گئے ۔حکومت پاکستان نے اسکے
بارے میں مسلسل لاعلمی کا اظہار کیا اور اس بات سے انکا ر کرتی رہی کہ اس
نے عافیہ نام کی کوئی لڑکی امریکیوں کے حوالے کی ہے ۔
پھر یہ ہو اکہ افغانستان سے رہا ہونے والی ایک انگریز صحافی خاتون نے راز
افشاء کیا کہ اس نے قید کے دوران جیل کے ایک کمرے سے کسی لڑکی کی دلدوز
چیخیں سنی ہیں ۔جسے بری طرح تشدد کانشانہ بنایا جاتاتھا ۔وہ یقینا عافیہ
صدیقی تھی ۔اس کے بعد احتجاج شروع ہوا ۔امریکیوں پر دباؤ بڑھنے لگا ۔تووہ
چار ونا چار عافیہ کوا مریکہ منتقل کرنے پر مجبور ہوئے ۔طے شدہ منصوبے کے
تحت اس پر مقدمہ چلا گیا ۔بودے ،بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزامات کی پاداش
میں اسے طویل سز ا سنادی گئی ۔اس کیس کی سماعت سے جہاں دنیا بھر میں انسانی
حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہوئیں وہیں امریکی نظام عدل کا وہ بھیانک
چہرہ بھی دنیا کے سامنے عیاں ہوگیا کہ جو دیکھنے میں تو روشن ہے مگر اس کا
اندرون چنگیز سے بھی تاریک تر ہے ۔10سال کا طویل عرصہ گزرگیا ۔ڈاکٹر عافیہ
سفید چمڑی والے بھیڑیوں کے نرغے میں ہے اور اس کی بہن ڈاکٹر فوزیہ عالم
اسلام کے حکمرانو ں سے التجائیں کررہی ہے کہ وہ اس کی بہن کی دہائی کے لئے
کوئی توانا آواز اٹھائیں ۔مگر حکمرانوں پر ایسی التجاؤں کا کوئی اثر نہیں ۔
شرم کا مقام ہے کہ ستاون اسلامی ملکوں کے حکمران اور فوجی جرنیل ،تیل اور
سونے سے لدے ہوئے عرب ممالک ،ایٹمی ٹیکنالوجی کا حامل پاکستان ،مگر ایک
مظلوم بیٹی کو امریکی چنگل سے چھڑانے کی سکت نہیں رکھتے ۔خصوصا پاکستانی
حکمرانوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اور عافیہ کی رہائی کے لئے کوئی
سنجیدہ کو شش نہیں کی بلکہ اگر کسی نے انکے سامنے سوال اٹھایا بھی تو
تاویلیں تراشتے رہے کہ حالات ساز گار نہیں ۔وسائل کا فقدان ہے ،اسلحہ کی
کمی ہے ،پتھر کے زمانے میں جانے کا خوف ہے ،امریکہ سے دشمنی نہیں لی جاسکتی
وغیر وغیرہ ۔
عافیہ تو امریکی جبر کے سامنے صبر کا پہاڑ بن کے کھڑی ہے ۔وہ تو استقامت کا
استعارہ بن چکی ۔اور وقت نے اس کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا ہے ۔مگر ڈیڑھ
ارب سے زائد مسلمان اور ان کے حکمران ،ذرا سوچ لیں کہ کل کو نیتوں کے احوال
جاننے والے رب نے پوچھ لیا کہ تم نے اسلام کی مظلوم بیٹی کے لیے کیا کیا
تھا ؟ تو ہمارے پاس سوال کا کیا جواب ہے ؟ |