نریندر مودی کی زہر افشانی

گیا بم دھماکوں کی دھمک ابھی تک فضاؤں میں موجود ہے اور ان سے ہونے والے خوف وہراس نے اب تک جان سکھا رکھی ہے کہنریندر مودی نے ایک نیوز ایجنسی ’’رائٹر ‘‘ کوپھر ایک زہر میں ڈوبا اورمسلم مخالف بیان دے دیا’’میں جنم سے ہندو وادی ہوں ‘ہندو ازم کی بقا میرا ملّی فریضہ ہے اس کے لیے مجھے چاہے خون کے دریا بہانے پڑیں ‘ میں وہ کروں گا ۔ گجرات میں جوکچھ ہوا اولا تو مجھے اس پر کو ئی افسوس نہیں ہے اور اگر تھوڑا بہت ہے تو وہ بس ایسے ہی جیسے کسی کتے کے مر نے پر ہوتا ہے ۔ سمجھ لیجیے کہ جس طر ح کار کے نیچے کو ئی کتا آجاتا ہے اس کے مر نے پر افسوس کم ہوتا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اس غلیظ جانور کی موت پر کوئی بھی افسوس نہیں کرتا‘ میں بھی 2002کے حالات کو اسی طرح دیکھتا ہوں جن پر افسوس کر نے کا کو ئی جواز نہیں ہوتا ․․․․․․بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ جو کچھ ہوا وہ بالکل صحیح ہوا ہے․․․․عمل کا رد عمل ہوتا ہی ہے گجرات میں وہی ہوا․․․․․․․․‘‘

نہ صرف رائٹر مودی کی اس گندگی سے آلودہ ہوا بلکہ مودی نے اپنے ’’دل کی بات‘‘ پہنچانے کے لیے ’’ٹوئٹر ‘‘ جیسیسوشل سائٹوں کو بھی داغ دار کر دیا اس طرح یہ زہرمودی نواز گجراتی اخبارات ’’ سندیس‘‘ اور’’ گجرات سماچار ‘‘نے اپنے صفحہ اول پر شائع کر کے پھیلانے میں مودی کی مدد کی ہے ۔مودی کی اس طرح کی زہر افشانی سے ملک کی فضائیں ایک بار پھر مسموم و مکدر ہو گئیں اور ایک بار پھر بی جے پی بلکہ مودی کا مسلم دشمن چہرہ ملک کے سامنے آگیا ہے۔مودی کا یہ بیان نہیں بلکہ ایٹم بم ہے جو ان مسلمانوں پر گرا ہے جو اس ملک سے عقیدت رکھتے ہیں مذہب انسانیت ان کا مذہب ہے ۔گجرات فساد ات کے زخم ان کے سینے چیررہے ہیں ۔مگر اس کی فرقہ پر ستوں کو کیا پر واہ‘ وہ تو آگ لگانے میں یقین رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خون بہانے کو ’’کار ثواب ‘‘گر دانتے ہیں۔

سیاسی لیڈران اور پارٹیوں کے علاوہ مودی کے اس بیان کی ہر اس شخص نے مذمت کی ہے جس کے سینے میں دھڑکتا دل ہے اور وہ انصاف و دیانت میں یقین رکھتا ہے ۔اس بیان کو پڑھ کر ہر کسی کے دل سے جو پہلی آواز نکلی وہ یہ تھی کہ ’’ہمیں توقع نہیں تھی کہ مودی اس قدر انسانیت سے گرجائے گا․․․․ہمیں احساس بھی نہیں تھا مودی اس طرح اول فول بکے گا۔مودی اس قدر اپنی اوقات سے گر جائے گا کہ وہ ’’انسانوں کے متعلق اس قدر گری سوچ رکھے گا۔

سیاسی تجزیہ نگار اور سماج کے حساس لوگ مودی کی اس طرح زہر افشانیوں کے تناظر میں کہہ رہے کہ یہ تو ابتدا ہے اس کی انتہا نہ جانے کتنی خطرناک ہوگی ۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی نے ملک میں آگ لگانے کی پوری تیاریاں کر لی ہیں۔اب وہ ہر اس خرمن کو جلادیں گے جس کا نام مسلمان ہوگا ۔اگر کو ئی یہ سمجھتا ہے کہ مودی مسلمانوں کے تئیں نرم رویہ رکھتے ہیں اور ان سے انھیں ہمدردی ہے تو وہ بھول میں ہیں یا جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں ۔مودی تو ایک’’ ناگ‘‘ ہے جسے لاکھ دودھ پلاؤ وہ مگر اس کا کام تو ڈسنا اور صرف ڈسنا ہے۔پھر چاہے اس کی زد میں ملک آئے یا قوم ‘وطن آئے یا عوام وہ کچھ بھی نہیں دیکھتا۔

اسی ’’رائٹر ‘‘کو دیے گئے انٹریو میں مودی کا ایک دو رخا بیان ملا حظہ کیجیے ۔

جب ان سے دریافت کیا گیا کہ 2002 کے ہولناک فسادات سے متعلق آپ کاکیا خیال ہے ؟اس کاجواب انہوں نے یہ دیا کہ ’’میری حکومت نے صحیح کام کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت لگا دی تھی ۔‘‘یہ ہے وہ ذومعنی بیان ۔جس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو کچلنے کے لیے(جو ان کے خیال میں صحیح کام ہوسکتا ہے) ان کی حکومت نے پورا زور لگادیا تھا ۔ یا پھر دنیاکو دکھانے کے لیے دوسرا مطلب یہ ہوسکتاہے کہ فسادات کو دبانے کے لیے حکومت نے پورا زور لگادیا ۔درحقیقت اس کا صحیح مطلب پہلا ہی ہے جس پر وہ آج بھی یقین رکھتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے دل میں رحم نام کی کو ئی چیز نہیں ہے۔اگر اس کے دوسرے معنی اور مطلب ہوتے تو مودی کب کا سفاکیت سے تایب ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتا ۔مگراس کی گردن توآج بھی تنی ہو ئی ۔اس کے منہ سے مسلم اقلیت کے لیے آج بھی شعلے نکلتے ہیں اور آج بھی اسے مسلمان دشمن دکھا ئی دیتے ہیں۔گجرات فسادات کو 12سال کا طویل عرصہ گذر گیا مگر مودی اور مودی وادی پولیس وانتظامیہ نے آج بھی گجراتی مسلمانوں پر زمین تنگ کر رکھی ہے۔

مودی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب گجرات کے فساد متاثرین کے زخم بھر نے کو آئے تھے ۔اس تازہ بیان نے ان کے زخموں کو پھر سے ہر ا کر دیاا ور وہ درد سے ایک بار پھر چیخ اٹھے ۔بی جے پی کے یہ تیور اور اس پرمرکزی حکومت کی مجرمانہ خاموشی جلتے پر تیل کاکام کر رہی ہے ۔ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ مودی جیسے بد زبان کا منہ زبان کھلنے سے پہلے ہی تو ڑدینا چاہیے تھا۔ اسے ریاست کا سربراہ ہونے کے بجائے جیل میں ہونا چاہیے تھا ۔مرکزی حکومت انسانوں کے قاتل مودی کو تخت پرنہیں دار پر چڑھاتی ․․․․مسلمانوں کی مظلومیت کا اس سے حساب لیتی ․․․․․ مگرافسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ معاصر حکومتوں نے اسے سبق سکھانے کے بجائے شہنشاہ بنا دیا۔اس ناگ کو آزاد چھوڑ دیا جس کی پھنکار میں بھی زہر ہے ۔اسے مسلمانوں کو ڈسنے کے لیے بے لگام چھوڑدیا ۔یہ کتنے افسوس اور ملکی سلامتی کے خلاف دھوکہ دھڑی کی بات ہے ۔آج بھی اگر مودی کی مذمت کررہی ہیں تو صرف زبانی جس کے نہ پیسے لگتے ہیں اور یا نہ اس میں کو ئی محنت کر نی پڑتی ہے۔میرا احساس تو یہ ہے کہ معاصر حکومتیں نیز مرکزی حکومت مودی کے اس بیان کی مذمت کر نے کے بجائے اس کے خلاف ملک میں فرقہ وارنہ ماحول بگاڑنے کے الزام میں ’’ایف آئی آر ‘‘درج کر واتیں تو اس کااثر زیادہ ہوتا ۔باتو ں کا کبھی اثر نہیں ہوتا ہے وہ تو منہ سے نکلتے ہی فنا ہوجاتی ہیں․․․․․․مگر ․․․’’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک․․․․‘‘․حکومتیں اپنی اسی چال پر بر قرار رہیں گی ․․قاتل کو شہہ دیتی رہیں گی اور وہ پورے ملک میں زہر اگلتا رہے گا۔ان حالات میں ایسا لگتا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی مودی کی شکل میں’’دوسرا اڈوانی‘‘ پیداکر رہی ہے جسے1992کے طرز پر ملک میں آگ لگانے اور مسلمانوں میں خوف وہراس پیدا کر نے کی ذمے داری سونپی جائے گی ۔ لیکن مودی ہو یا بی جے پی ایک بات یاد رکھیں اقوام و ملل کی تاریخ رہی ہے کہ غنڈہ گردی سے کبھی اقتدار نہیں ملا کر تا ۔نریندر مودی اور بی جے پی نے کواپنے ذہن میں جو سوچ رکھا ہے کہ مسلمانوں کو دھمکا کر اعلا ذاتوں کے عتاب کی دھمکی دے کر حکمرانی کر لیں گے یہ ان کی وہ تاریخ سازبھول ہوگی جس کا احساس بہت جلد ہوجا ئے گا۔ وہ دن لد گئے جب خوف و ہراس پیدا کر کے اقتدار حاصل کیا جاتا تھا اور مظالم ڈھاکراقلیتوں کو دبایا جاتا تھا۔اب ہندوستان میں کو ئی دوسرا گجرات نہیں بنے گا ۔اب کو ئی بابری مسجد نہیں گر ائی جا ئے گی اور نہ فرقہ پرستی کی آگ لگانے کی اجازت دی جائے گی۔اب اگر کو ئی طاقت ‘کو ئی سوچ اور کو ئی جماعت ایسا کر ے گی تو اسے منہ کی کھانی پڑے گی ۔

احساس
نہ صرف رائٹر مودی کی اس گندگی سے آلودہ ہوا بلکہ مودی نے اپنے ’’دل کی بات‘‘ پہنچانے کے لیے ’’ٹوئٹر ‘‘ جیسیسوشل سائٹوں کو بھی داغ دار کر دیا اس طرح یہ زہرمودی نواز گجراتی اخبارات ’’ سندیس‘‘ اور’’ گجرات سماچار ‘‘نے اپنے صفحہ اول پر شائع کر کے پھیلانے میں مودی کی مدد کی ہے ۔مودی کی اس طرح کی زہر افشانی سے ملک کی فضائیں ایک بار پھر مسموم و مکدر ہو گئیں اور ایک بار پھر بی جے پی بلکہ مودی کا مسلم دشمن چہرہ ملک کے سامنے آگیا ہے۔مودی کا یہ بیان نہیں بلکہ ایٹم بم ہے جو ان مسلمانوں پر گرا ہے جو اس ملک سے عقیدت رکھتے ہیں مذہب انسانیت ان کا مذہب ہے ۔گجرات فساد ات کے زخم ان کے سینے چیررہے ہیں ۔مگر اس کی فرقہ پر ستوں کو کیا پر واہ‘ وہ تو آگ لگانے میں یقین رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خون بہانے کو ’’کار ثواب ‘‘گر دانتے ہیں۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62266 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More