خداراہ ہوش کے ناخن لیں

سوال اس چیز کا نہیں کس کی حکومت آئی یا کس کی نہیں کس نے عوام سے جھوٹ بولا کہاں دھاندلی ہوئی سوال یہ ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں ہر روز اس ملک میں آخر ہو کیا رہا ہے سب کا سب الزام تو سیاستدانوں کو نہیں دیا جا سکتا ہماری بھی کچھ غلطیاں ہیں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لیتا ڈرون اٹیک میں بھی کوئی کمی نہیں آئی صرف اخباری مذمتوں سے تو کام چلنے وا لا نہیں ہے حکمت عملی بنانی ہو گی اور مظبوط حکمت عملی کیوں ملک خداداد پاکستان کی خودمختیاری کا مسلہ ہے اور اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو کل کو خدا نخواستہ حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں اور زمہ دار کون ہو گا تب کس کو قصور وار ٹھہرایں گے ہم سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ رشتے ناطے دوستیاں اپنی جگہ ابھی تک تو ہم نئے پاکستان اور روشن پاکستان کے نعروں سے بائر نہیں نکل سکے ملک کی وہ عوام جس کو دو وقت کا کھانا بھی سکھ سے نصیب نہیں ہوتا وہ جئیے بھتو کے نعرے لگاتی نہیں تھکتی اگر ہم نے اپنی آنے والے نسلوں کو بہترین مستقبل دینا ہے تو ہمیں آج کچھ کرنا ہو گا ۔انتخابات میں کہاں دھاندلی ہوئی کس کو جتوایا گیا کس کو ہروایا گیا ان کہانیوں سے اب کچھ حاصل نہیں ہونے والا انتخابی نظام ہمارا اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ یہاں اگر آپ ایک امیدوار کو ٹوٹل 100ووٹوں میں سے 80ووٹ دے دیں تو شاید مقابل امیدوار 90ووٹ لے کر جیت چکا ہو عجب نظام کی غظب کہانیاں ہیں یہاں عوام جو طاقت ہے اب فیصلہ اس کو کرنا ہے کہ اس نے کرپٹ سیاسی نظام کو بچانا ہے یہ ملک کو ،اس کو سیاسی وابستگیاں عزیز ہیں یا اپنے بچوؓ کو مستقبل غور و فکر کی ضرور ت ہے اور سخت غور فکر کی ہم معجزوں کا انتظار کرنے لگے ہیں اور تاریخ شاید ہے کہ جو بھی قوم معجزوں کا انتظار کرنے لگتی ہے تو تباہ و برباد ہو جاتی ہے تباہی و بربادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔یا ملک خداداد حاصل کر نے کے ہمارے اباو اجداد نے آگ اور خون کے دریا عبور کیے ہیں لاکھوں شہدا کا خون شامل ہے اس ملک کی جڑوں میں ایک عظیم سوچ اور فلسفہ کار فرما ہے اس لی ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ملک کے ایک سرکاری ملازم سے لے کر اعلیٰ افسران رشوت پر پلتے ہوں جہاں ملک کے حکمران اپنے فرائض میں کوتائی برتیں جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو اور وہاں ہر جگہ بے حیائی کو فروغ دیا جائے ۔سیاستدان اپنے عزیز و اقارب کو نوانے میں مصروف عمل ہیں ،کرپشن کی ہر روز ایک نئی کہانی سامنے آگئی ہوتی ہے سیاسی کارکن اپنے لیڈر کی بات کو حرف آخر سمجھ کر مرنے یا مارنے کی پالیسی اپنا لیتے ہیں اس لیے ضرور ت اس امر کی ہے کہ ہم سیاسی ،وابستگیوں سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ لے آگے بڑئیں کیوں کہ یہ وقت تنقید ،و تعریف کا نہیں سب کے بے لاگ احتساب کا وقت ہے سب کا بے لاگ احتساب ہو نا چاہیے کیوں کہ جب تک ایسا نہیں ہو گا ہم بہتری کی طرف نہیں جا سکتے وزیر آعظم سے لے کر ایک عام شخص تک سب کا احتساب ہو نا چاہیے ،آج ہمارے معاشر میں دو طبقاتی نظام تعلیم نافذ ہے اس کا خاتمہ بے حد ضروری ہے ورنی ایک خاص طبقے کے لوگ ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکیں گے اور یہ سراسر ظلم و نا انصافی ہو گی ۔اﷲ کرے کہ ہم اس معاشر میں مثبت تبدیلی کے لیے کچھ اہم پیش رفت کر سکیں اختتام ایک کہانی سے کہ  ایک دفعہ کا زکر ہے کہ کسی ملک میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی رعایا میں سے کوئی بھی شخص کبھی اپنا کوئی مسلہ لے کر حغل کروانے بادشاہ سلامت کے پاس نہیں آیا ایک دن بادشاہ نے کہا کہ میں کیسا بادشاہ ہوں آج تک رعایا میں سے کوئی بھی شخص میرے پاس اپنی کوئی شکایت لے کر نہیں آیا تو آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس سے شہر کے لوگ اپنی شکایت لے کر میرے پاس آئیں اس نے شہر میں داخل ہو نے والے پل اپنے کچھ لوگ کھڑے کر دیے اور کہا جو بھی شخس یہاں سے شہر میں داخل ہو اس کو دس دس کوڑے مارو سو کوڑے مارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن کوئی بھی شخص اپنی شکایت لے کر بادشاہ کے پاس نہیں آیا بادشاہ بڑا حیران تھا پھر ایک بن یوں ہوا کہ گاؤ ں کے لوگ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی بادشا ہ سلامت ہماری ایک پریشانی کا حل کر دیں تو بادشاہ نے کہا بتاؤ تمہاری کیا پریشانی ہے تو انہوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت شہر میں داخل ہونے والے پل پر جو لوگ ہمیں کوڑے مارنے کھڑے ہیں تو ازراہ کرم ان کی تعداد میں کچھ اضافہ کردیں کیوں کہ ہمیں کوڑے کھانے کے لیے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے جب کوڑے مارنے والے لوگ زیادہ ہوں گے تو اس سے ہمارا ٹائم بچ جائے گا ۔
akhlaq ahmd rana
About the Author: akhlaq ahmd rana Read More Articles by akhlaq ahmd rana: 23 Articles with 19529 views i am Akhlaq ahmed rana .here in neelum valley azad kashmir .

Akhlaq ahmed rana
03558153899
[email protected]
.. View More