میرے ایک قریبی دوست شا ہد سے
میری ملا قا ت کا فی عر صہ بعد ہو رہی تھی ،گپ شپ شروع ہو گئی ۔بچپن میں
سکو ل کے دنوں کی یا دیں تا زہ ہو ئیں ،اور ان با توں کا تذکرہ ہوا جو
معصوم بچپنے میں انجا نے میں ہواکرتی ہیں ،شا ہد کچھ اندر سے پریشا ن نظر آ
رہا تھا مگر مجھے وہ ایسے مطمئن کر رہا تھا جیسے میں کچھ نہیں جا نتا کہ
اسے کسی سنگین پریشا نی کا سا منا ہے با توں ہی با توں میں، میں نے اسے
ٹٹولا تو اس نے اپنا دکھ شیشے کی طرح میرے سا منے واضح کر ڈالا ،میں نے بھی
اپنی تما م تر توجہ اس پر مبذول کر دی،کہنے لگا شا ف تم تو جا نتے ہو کہ
میری کتنی خواہش تھی کہ میری چھوٹی بہن سا ئرہ میٹر ک سے آ گے پڑھے کم از
کم'' ایم بی بی ایس'' کر کے نا دار اور بے سہارا لو گوں کا سہا را بنے ،تو
اس میں مز ئقہ ہی کیا ہے میں نے گرم لہجے میں اس سے کہا ،کہنے لگا ظالم معا
شرے والوں کی ستم ظریفی کی بدولت وہ بھی روایتی رسم و رواج کی بھینٹ چڑ ھ
گئی اور تمام خواب ادھورے کے ادھو رے رہ گئے ،میں نے استفسا ر کیا کہ ایسی
کیا برا ئی ہے معا شرے میں جو سا ئرہ میٹرک سے آ گے نہ پڑھ سکی : معاشرے
والوں کا اپنے گھر میں بسنے والی صنف نا زک کے تقدس ،وجود اور عزت و تکریم
کو بھو ل جا نا میرے خوابوں کو چکنا چور کر گیا اس مرتبہ اس کے لہجے میں غم
و غصہ ایک سا تھ تھا اس کا یہ جواب سن کر میں اور متجسس ہو گیا کہ ایسی کیا
خرابی ہے جس نے اس کے گھر پر پا بندی عا ئد کر رکھی ہے کہ اس کی بہن میٹرک
سے آ گے نہ پڑھ سکے جبکہ اس وقت پا کستا ن میں عورت کو ملنے والی آ زادی
اور حقوق کے چرچے تو ملکوں ملکوں ہیں ۔۔۔! کہنے لگا سائرہ روزانہ سکول سے
گھررکشہ پر آ تی تھی ایک روز رکشہ والے نے چھٹی کی تو پا پا کو جا نا پڑا
جب وہ سکول کے گیٹ پر پہنچے تو ان کے قد موں تلے زمین پھسل گئی ،کیو نکہ
وہا ں طرح طرح کے مَن چلے کھڑے لڑکیوں پر طرح طرح کی آ وازیں کَس رہے تھے
اور جو بیچا ری اکیلی تھیں ان کا با قا عدہ تعاقب کیا جا رہا تھا اور اس
طرح گر لز سکو لوں اور کا لجوں کے سا منے او با شوں کا تا نتا بند ھا رہنا
معمو ل کی با ت ہے یہ امر میرے والد کو اس حد تک نا گوار گزرا کہ اس دن سے
لیکر آ ج تک سا ئرہ سکو ل کا منہ تک نہ دیکھ پا ئی ۔۔۔۔۔!
شا ہد کی یہ با ت سن کر میرے قدموں سے زمین کھسک رہی تھی یو ں محسوس ہو رہا
تھا کہ جیسے سینکڑوں ''سا ئرہ''جیسی لڑکیاں زیور ِ تعلیم سے محروم رہ جا تی
ہیں۔۔۔۔۔!اور جیسے یہ صدائیں بلند کر رہی ہیں کہ بد نظری کی وجہ سے ہم
تعلیم کا فریضہ ادا کرنے سے محروم رہیں ۔۔۔!
قا رئین محترم! یہ ضمیر شکن با ت ہے جس پر ہم غور نہیں کر تے ،نہ جا نے
کتنی ما ئیں اپنی پھو ل جیسی بیٹیوں کو غیرت کے نا م پر زیور تعلیم سے
آراستہ کیے بغیر بیا ہ دیتی ہیں اوروہی بیٹی جب ماں کے درجہ پر فا ئض ہو تی
ہے تو بچو ں کی منا سب انداز میں تعلیم و تربیت نہیں کر پا تی اور معاشرہ
پھر وہی کا وہی رہ جا تا ہے کیو نکہ ما ں ہی پہلی درس گا ہ ہو تی ہے یہیں
سے بچے کی بہتر انداز میں پر ورش ہو تی ہے تو وہ ملکی جڑیں مظبوط کر نے کے
قا بل ہو تا ہے ۔۔۔!ایک عظیم جنگجو نے اپنے نو عمر بیٹے کو پیلی مرتبہ سپہ
سا لا ر بنا کر بھیجا ۔۔۔وقت گزرا اور ایک د ن افواہ پھیلی کہ سپہ سالا ر
میدان جنگ چھوڑ کر بھا گ نکلا ہے و ہ عظیم جنگجو اپنے بیوی کے پا س گیا اور
کہا : تمہا را بیٹا میدان جنگ چھوڑ کر بھا گ گیا میری برسوں کی بنا ئی عزت
خاک میں ملا دی،اس عظیم ماں نے کہا نہیں میں نہیں ما نتی،جنگجو نے جواب دیا
یہی حقیقت ہے ۔دونوں میں با ت شدید بحث میں بدل گئی اور معا ملا یہاں تک
پہنچ گیا کہ ماں نے کہا تم مجھے طلا ق دے دو مگر میں یہ تسلیم نہیں کر سکتی
کہ میرا بیٹا میدان جنگ چھوڑ کر بھا گ گیا ہے پھر کچھ دنوں بعد اس نو عمر
سپہ سا لا نے اپنے با پ کو قا صد کے ہا تھ پیغام بھیجا کہ ہم نے دشمن کو
شکست دے دی ہے اور راستہ نا ہموار ہو نے کی وجہ سے تا خیر ہو ئی ۔۔۔۔۔۔!
جنگجو نے بڑی حیرانگی اور تعجب کے سا تھ پو چھا کہ تم اتنے اعتما د کے سا
تھ کیسے کہتی تھی ،تمہیں اتنا اعتماد کس بنیاد پر تھاعظیم ماں نے جواب دیا
:مجھے اپنی کی گئی تعلیم و تربیت پر اعتماد تھا کیو نکہ میں نے اس میں کو
ئی کسر نہ چھو ڑی تھی اس لئے مجھے یقین تھا کہ میرا بیٹامیدان جنگ میں سینے
پر تیر گھا ئے گا مگر میدان چھوڑ کر نہیں بھا گے گا۔۔۔! اس امر سے اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ عظیم سپہ سا لا صرف پڑھی لکھی اور زیورِ تعلیم سے آ
راستہ ما ئیں ہی پیدا کر سکتی ہیں۔۔۔۔!
لیکن یہاں پر صو ر ت حا ل مختلف ہے ہم تو خو د اپنے پا ؤں پر کلہا ڑی ما
رہے ہیں ہم لوگو ں نے تو خود اپنی اولاد کو دوسروں کی زندگیاں تبا ہ کرنے
کی اجا زت دے رکھی ہے ،کیا اب والدین کے پا س اتنا اختیا ر بھی نہیں رہا کہ
وہ اپنی اولاد کو اس امر کی مما نعت کر سکیں کی کسی کی ماں،بہن،بہو اور
بیٹی کو بری نظر سے نہیں دیکھنا ،کیا اب صنف نازک اپنی زندگی کو محدود کر
دے۔۔۔۔۔۔۔۔۱خدارااپنے بچوں کو سکولوں اور کالجوں کے سا منے گھنٹوں کھڑے
رہنے اور صنف نازک کے تقدس کو پامال کر نے سے روکیں۔۔۔!
مدد چا ہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخہ کی بیٹی |