باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی آخری حصہ

نہ جانے اس قلب میں ایسی کیا خوبی ہے۔ کہ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اپنی ہی ریاست کا خود بادشاہ ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دماغ کے خلئے کام کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ اس کے حکم کا محتاج نہیں ہے۔صبح شام اپنی ایک ہی رفتار سے اپنے آقا روح کی موجودگی کا بگل بجاتا رہتا ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ہی کی طرح کے دوسروں کے سینوں میں بگل بجانے والے کس حال میں ہیں۔ اسے صرف اپنے حال ہی کا فکر ہے۔ جو دوسروں کے متعلق جاننے والا تھا ۔وہ خود اپنے آپ سے چھوٹ رہا تھا ۔کمانڈ اور اتھارٹی کا نرالا امتزاج ہے ۔ایک جسم تو دوسرا روح کی کمانڈ کرتا ہے ۔دونوں میں سے جس کی کمانڈ ختم ہو جائے۔ تو مکمل سکوت طاری ہو جاتا ۔لیکن یہاں ایک بات تو طے ہے۔قلب کو دماغ پر فوقیت ہے۔ کیونکہ اباجی کا ایک نظام تو بالکل مفلوج ہو چکا تھا ۔مگر قلب کی کمانڈ اور اتھارٹی مکمل موجود تھی ۔اگر قلب کا کنٹرول ختم ہو جائے تو دماغ اپنی کسی طاقت کے بل بوتے پر بھی نہیں بچ سکتا ۔

اسے اب اندازہ ہو چکا تھا کہ ذہن کے بل بوتے پر زندگی جینے والے دراصل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ زندہ وہی رہتے ہیں جو اپنے قلب کی کمانڈ اور اتھارٹی کو سمجھ لیتے ہیں اوراب اس کے اندر یقین کامل پیدا ہو چکا تھا کہ یہ جسم و دماغ اسی مٹی سے جو بنے ہیں مٹی کی ہی ترغیب رکھتے ہیں ۔

قلب کی طاقت ہی دراصل روح کی طاقت ہے۔ جس کے سامنے دماغ اپنی پوری طاقت کے ساتھ بھی کمزور ہے ۔
اس لئے وہ اباجی کی بیماری کو دماغ سے نہیں قلب سے قبول کرچکا تھا اور اسی قوت کو بروئے کار لا کر اس منزل کا مسافر بننا چاہتا تھا ۔جہاں سفر کرنے والے بدنی مسافر ایک دو ہی پڑاؤ کے بعد لوٹ جاتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کی بیماریوں سے اس کے علم میں صرف میڈیسن کے متعلق ہی اضافہ نہیں ہوا ۔بلکہ جسم اور روح کے باہمی تعلق کی گتھیاں بھی کافی سلجھنے لگیں۔ ہر بار وہ کیوں کے سوال پر اٹک جاتا۔ جب تک اسے وہ جواب ملتا ایک نیا کیوں، پھر اس کے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا اور پھر کیوں کیوں کی تکرار نے اسے بہت سے سوالوں کے جوابات سے آگاہ کر دیا ۔جو شائد کتابوں سے حاصل کبھی بھی نہ ہو پاتے۔ اس کے ذہن میں یہ تاثر ابھر جاتا کہ کیسے ممکن ہے کہ اس مختصر زندگی میں قرآن پاک کو سمجھ کراللہ تعالی کو پڑھنے سے ہی پالیا جائے ۔کیونکہ خود اس کی اپنی جوانی کے ایام صرف اللہ تعالی کے ایک حکم پر مبنی آیات پر عمل کرنے سے ہی گزر گئی اور مکمل قرآن پاک سمجھنے اور عمل کرنے میں شائد اسے ایک ہزار برس سے بھی زیادہ کاعرصہ درکار ہو گا ۔لیکن پھر بھی وہ مطمعن نہیں تھا ۔تنہائی میں اباجی کے پاؤں پکڑتا اور معافی مانگتا ۔کہ جو کوتاہی اس سے رہ گئی ہو۔ وہ معاف ہو جائے کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح والدین کی خدمت کا حکم دیا ہے۔ شائد وہ اسے پورا نہیں کر پا رہا ہے۔

اپنے ارد گرد دیکھنے پر اس جیسی زندگی کا حامل کوئی بھی انسان نظر نہیں آ رہا تھا ۔بہکنے کے امکانات زیادہ تھے ۔یہی وجہ تھی کہ اس کی جوانی جدید دنیا سے الگ نہیں ہو پا رہی تھی۔ تین بیٹوں کا وہ باپ بن چکا تھا بڑا بیٹا اب سات برس کا ہو چکا تھا ۔اسے ایک بار ایسا کیلنڈر نظر آیا۔ جس پر سورۃ بنی اسرائیل کی وہی آیات تھیں جو والدین کی خدمت کے متعلق تھیں ۔اسے لا کر اس نے انہیں اباجی کے پلنگ کے اوپر لگا دیا ۔تاکہ وہ کہیں بہک نہ جائے۔ کیونکہ اب وہ اس بیماری کے متعلق جان چکا تھا ۔کہ شائد اسے ان حالات کا سامنا اگلے دس پندرہ سال تک بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور اللہ تعالی کی مدد کے بغیر یہ سب ناممکن تھا ۔
ابا جی جیسا انسان زندگی کی جنگ ایسے لڑے گا۔ کبھی اس نے سوچا نہ تھا ایک رخ ایسا بھی اس کے سامنے تھا۔ جو ابا جی کے بارے میں احترام کی ایسی بلند عمارت کھڑی کر گیا ۔کہ اسے سوچنے پر مجبور کر دیا جو لوگ زندگی میں نیکی کم کرتے ہیں۔ دنیا کی محبت میں مرتے ہیں۔ وہ شکوہ کیوں زیادہ کرتے ہیں ۔
ایک بار گھر کی بیل بجی تو ایک بوڑھا شخص پوچھنے لگا وکیل صاحب کا گھر یہی ہے۔
جی ہاں ! یہی ہے فرمائیے آنے والے سے اس نے پوچھا ۔
کیا وہ اب ہیں ؟
وہ چونک گیا کہ کیسا سوال ہے ! اس کے استفسار پر آنے والے نے کہا کہ میرا بیس سال پرانا کیس کی تاریخ نکلی ہے اور یہ میرے وکیل تھے اس وقت ان کی عمر ساٹھ سے اوپر تھی اس لئے مجھے خیال ہوا کہ شائد وہ اس دنیا میں نہ ہوں دیہاتی آدمی بہت سادہ ہوتے ہیں جو بات دل میں ہو کہہ دیتے ہیں۔ شائد اس لئے ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر زندہ رہنے کا مصنوعی ڈھنگ نہیں اپنا پاتے۔

آپ مجھے ایک دو روز دیں۔ آپ کی فائل ڈھونڈ دیتا ہوں ۔نیا وکیل کر لیں اور ان کے بارے صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ اس نے ہمدردی اظہار کیا اور چلا گیا ۔

اس نے اباجی کی تمام پرانی فائلوں میں تلاش کاکام شروع کیا۔ تو فائل مل گئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی اسے ایسے لیٹر ملے جو ایوب خاں کے مارشل لاء کے ابتدائی دور کے تھے ۔ عوامی لیگ پارٹی کے سربراہ کے دستخطوں سے جاری پارٹی کے لیٹر پیڈ پر بعض لوگوں کوپارٹی فنڈ سے رقم کے اجرا کا کہا گیا تھا ۔جو اس زمانے کے مطابق ایک بڑی رقم تھی۔

جوں جوں وہ ابا جی کے بارے میں سوچتا اس کے دل میں ان کے بارے میں عزت و احترام کا مجسمہ اور بڑا ہو جاتا ۔

اس کی نظروں کے سامنے وہ منظر گھوم جاتا ۔جس کا ذکر ماں جی اکثر کیا کرتی یہ وہی سال ہے ۔جس کے متعلق ماں جی کہتی کہ سیاست کی وجہ سے وکالت متاثر ہوئی تمھارے اباجی کے معاشی حالات بہت برے ہو گئے۔ گھر کا ایک حصہ کرایہ پر دیا گیا ۔تاکہ کچن چلایا جا سکے ۔مگر یہ پارٹی کے سربراہ کے دستخطوں سے جاری لیٹر کوئی اور کہانی بیان کر رہے تھے۔ کہ ایک ایسا انسان جو پارٹی کا فنانس سیکرٹری ہو سینکڑوں اور ہزاروں روپے اس کے دستخط سے جاری ہوتے ہوں اس کےگھر کا کچن چلانے کے لئے گھر کا ایک حصہ60 روپے ماہانہ کرایہ پر دیا گیا ہو۔ آج امانت میں خیانت نہ کرنے والے لوگ اب کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ لوٹ مار، اقربا پروری، رشوت ،سفارش نے پورا معاشرہ ہی کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اور غلط کو غلط کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ جب دنوں میں امیر ہونے والے معاشرے میں تقویت پاتے ہیں۔ تو پھر بھیڑیں ہی بھیڑیوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔

اس کےابا جی نے کبھی بھی سفارش کی سیڑھی کا سہارا نہیں لیا ۔یہی وجہ تھی کہ بعض بیٹے باپ سے نالاں تھے کہ 1973 کے آئین کے تحت حلف اٹھانے والے صدر( جو ان کا بہت گہرا دوست تھا ۔سیاست کےابتدائی دور میں دونوں ایک ساتھ پارٹی میں تھے۔جب وہ ملک کا صدر بنا ۔اس کے ابا جی سیاست چھوڑ چکے تھے ۔مگر دوستی کا تعلق ابھی تک جاری تھا)سے کوئی ذاتی فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ مگر انہوں نے مفاد پرستی کے لئے اصول کی زندگی قربان کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ۔وہ ہمیشہ یہی سمجھاتے کہ لوگ ترقی کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ۔مگر عزت و احترام کھو دیتے ہیں۔ اپنے فائدے کے لئے کسی جائز کا حق مت غصب کرو۔
اپنی ساری زندگی کی کمائی سے صرف ایک پونجی بنائی ۹۹ سالہ لیز کا مکان !فیصلہ تو یہ کرنا ہے ۔کہ کیا وہ انسان ہونے کے ناطے اپنا حق ادا کرتا رہا ہے۔ اگر وہ سچ پہ تھا تو کیا اسے اپنی نیکیوں کا صلہ مل گیا۔ بڑھاپے میں ملی وہ اولاد ۔جس نے انہیں ہاتھوں پہ لیا ۔کیا وہ اس کی صاف ستھری زندگی گزارنے کا انعام تھا ۔

اس بیٹے میں باپ کی محبت بڑھ کر عشق بن چکی تھی۔ چھ سال تک وہ ایک ایسے باپ کے ساتھ رہا۔ جو صرف دیکھنے میں ہڈیوں کا ڈھانچہ اورگوشت پوست کا لوتھڑا تھا ۔جو صرف سانس لینے تک محدود تھی اور چند نوالے کھانے اور چند گھونٹ پانی کے لینے تک۔

اس کے ابا جی ۱۴ سال کی بیماری سے بھرپور زندگی بھی جی گئے اور آخر کار ۹۴ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اور وہ بالوں میں مکمل پھیلی چمکتی سفیدی کے ساتھ چالیس سال کی حد عبور کر گیا ۔ اور تیرہ سالہ اس کا بڑا بیٹا پہلی بار اپنے سخت مزاج باپ کو ایک بچے کی طرح روتا دیکھ رہا تھا ۔
جس رات وہ ابا جی کو دفنا کر واپس آیا ۔اگلی صبح کئی سالوں کے بعد اجنبی تھی ۔آج سورج کے طلوع کا منظر وہ نہ دیکھ پایا ۔کیونکہ دیر تک وہ سویا رہا ۔اس کے ابا جی نے آخری سانس اس کے سامنے پورے کئے اور جب روح جسم کو چھوڑ کر گئی۔ تو جسم کسی بھی تکلیف کے اس احساس سے خالی تھا ۔کیونکہ جسم تو بہت پہلے مر چکا تھا ۔صرف روح کو اپنا کام کرنا تھا اور اتنی خاموشی سے جدا ہوئی جیسے ہوا کا ایک لطیف جھونکا آکر گزر جاتا ہے۔

وہ اپنے ابا جی کا اتنا عادی ہو چکا تھا ۔کہ جدائی سے آنسو بار بار آنکھوں سے ٹپک جاتے ۔

اس کےجیسے ہی ابا جی دنیا سے گزرے۔ چند روز میں غرض و مفاد کی ایک نئی دنیا جو اس سے پہلےغفلت فرائض میں آنکھیں موندھے سو رہی تھی۔ اب اس کے سامنے اپنے پر کھول کر کھڑی ہو گئی۔ اور اپنے مقابلے میں اڑان کی نوید سنائی۔ مگر وہ تو ایک ایسے پرندے کی زندگی گزارنے کا عادی تھا ۔جس کے پر کٹے ہوں۔ وہ انہیں اڑتا دیکھتا مگر خود پرواز کی خواہش نہیں رکھتا تھا ۔مگر اس نئے چیلنج نےاس کے آنسو خشک کر دئیے ۔اور وہ اپنے آپ کو یہ سوچ کر آمادہ کرنے لگا ۔کہ اسے دنیا کا یہ روپ بھی برداشت کرنا ہو گا ۔

ایک سوال ابھر کر اس کے سامنے آ گیا ۔کہ میں جو شروع کرنے اب جا رہا ہوں اگر زندگی یہ ہے۔ تو جو گزاری ہے وہ کیا تھی۔ ایک خیال کےآتے ہی وہ زیر لب مسکرایا !

ایک نئی ہمت کو اپنے اندر پا کروہ اٹھ کھڑا ہوا اور خود کلامی کے انداز میں بولا !
وہ تو ایک بوڑھے کی لاٹھی تھی ۔

تحریر ! محمودالحق

Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 62 Articles with 178271 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More