چین میں 1950 میں ’’ہوائی‘‘ندی
پر بینکیاؤ ڈیم بنایا گیا 1970 میں زبردست سیلاب آیا اور ڈیم ٹوٹ گیا۔پانی
کے ریلے نے جہاں بے بہا املاک کو نقصان پہنچایا وہاں تقریباایک لاکھ ستر
ہزار انسانی جانوں کی بھینٹ بھی لی۔لیکن چین نے قدرت کے اس اشارے کو نہ
سمجھا اس پر سوچ و بچار نہ کیا ڈیم کو دوبارہ تعمیر کردیا اور ساتھ ہی ساتھ
کچھ اور بھی بند بنائے گئے تاکہ ڈیم کو مضبوطی دی جاسکے لیکن سیلاب کو کسی
طور نہ روکا جاسکااس بات کو نہ سمجھ کر چین تقریبا 40 سال تک ان مسائل کا
شکار رہا اور آج بھی وہ سیلاب کا سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔چائنا کے دگرگوں
حالات کو دیکھتے ہوئے ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے مشورہ دیا کہ اب لوگوں کو اس
قدرتی آفت سے بچانے کا طریقہ یہی ہے کہ سیلاب کے ساتھ سیلاب کے ماحول میں
زندہ رنے کے طریق کار وضع کئے جائیں اس نے مشورہ دیا کہ عوام الناس اور
حکومت کو چاہئے چونکہ سیلابوں پر پوری طرح سے قابو پانا ناممکن ہے کو اور
عوام کو بھی سیلاب کے ممکنہ خدشات و نقصانات کو سمجھنا چاہئے مزید یہ کہ
سیلاب کے نقصانات کے ساتھ ساتھ فوائد بھی سامنے آتے ہیں جیسے کہ زمین کی
زرخیزی میں بہتری،پیداوار میں اضافہ،پانی کی سطح کا اوپر آجانا،ندی اور
نہروں کے کناروں میں سدھار اور ان سے ملنے والی غذاؤں اوردیگر اشیا بھی
شامل ہیں ۔
ماضی میں کیاہوتا تھا کہ سیلاب کے اتر جانے کے بعد بیچ چھڑک دیئے جاتے تھے
اور بغیر کوئی خاص محنت و مشقت کے فصلیں تیار ہو جاتی تھیں۔کیونکہ سیلاب کی
وجہ سے پانی کی سطح متوازن ہوکر سینچائی کی حامل زرعی اراضی کو وسیع سے
وسیع تر بنادیتی تھی۔ چنانچہ ایشین بنک نے ہدایت کی کہ ان فوائد پر توجہ
مرکوز کی جائے بجائے اس کے کہ ڈیم اور بیراج تعمیر کرکے قدرت سے ’’پنگا‘‘
لیا جائے بلکہ حسن فطرت کے ساتھ جینے کی کوشش کیجائے۔قدرتی تباہی سے عبرت
لے کر ہم اپنی مرضی سے قانون فطرت کے مطابق طرززندگی اپنا سکتے ہیں یا پھر
قدرت کی مار کھا کر دکھ اٹھاتے رہیں تاوقتیکہ عین فطرت کے ماحول میں جینا
سیکھ لیں جو کہ ایک نہایت مشکل کھٹن اور صبر آزما کام ہے۔ اس کی مثال
پاکستان میں بھی موجود ہے جو کہ ہمارے پہاڑی علاقوں ڈویلپمنٹ کے نام پر
تبدیلی کی جارہی ہے جس کے فطرت کے کام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش بھی کہا
جاسکتا ہے لیکن میں یہاں کیدارناتھ(انڈیا) کی مثال دینا چاہوں گا کہ کیدار
ناتھ میں ہونے والی تباہی میں انسان کا کسقدر عمل دخل اور ہاتھ ہے اس کو
سمجھنے کیلئے یہ دیکھنا ہوگا کہ کس طرح انسان نے فطرت کو غیر فطری انداز
میں استعمال کرنے کی کوشش اور خواہش کی ماحولیات کے بنیادی اصولوں کو
چھیڑنے کی کوشش کی ۔ سیاحوں نے ہیلی کاپٹرز کا بے دریغ استعمال کیا ۔ فائیو
سٹار ہوٹلنگ کی طرز پر ہوٹلنگ شروع کردی گی ۔ وہاں سڑکیں بنانے
کیلئے،ہائیڈرو الیکٹرک پاور ہاؤس کے منصوبے اور ڈویلپمنٹ کے کام میں بھاری
مقدار میں ڈائنامائیٹ کا استعمال کیا گیا۔درختوں کو نقصان پہنچایا گیا
اوروہی ہوا کہ بادل پھٹ گئے اور ان کے پھٹتے ہی بارشوں کا وہ لامتناہی
سلسلہ شروع ہوا کہ درخت سجدہ ریز ہوگئے۔مٹی بہنے لگی بہاؤ تیز ہوا اور پھر
راستے میں آنے والے تمام مکانات دکانات سڑکیں اور پل ملیامیٹ ہوگئے-
ماہر معاشیات کے مطابق تکنیکس اور صنعتی پیداوار کی وجہ سے قدیم وسائل کا
قتل ہو جاتاہے جیسے کہ موٹر کار کی وجہ سے گھوڑا گاڑی بنانے والے لوہاروں
کا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ موبائل فون اور ایس ایم ایس کی وجہ سے ٹیلی فون اور
خط و کتابت کے محکمے تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں لیکن ان کے مطابق بھی تخلیقی
تباہی نئی سمتوں میں ترقی کے نئے راستے کھولتی ہے ہمیں نئی جہت پر اپنی
توجہ مرکوز کرنا ہوگی ہمیں پہاڑی علاقوں میں ان عصری سہولیات پر پابندی
لگانا ہوگی ان علاقوں میں ہیلی کاپٹرز کا استعمال، فائیوسٹار ہوٹلنگ سے
ماحولیاتی دباو بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے وارمنگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور
پھر گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیزی پکڑتی ہے اس لئے اس پر کسی حد تک
پابندی لگانا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں ڈویلپمنٹ ماڈل ہائیڈرو الیکٹرک پاور اور مینو فیکچرنگ کو اس طرح
سے فطرتی اور قدرتی انداز استعمال کرنا ہوگا کہ ندی کی بندش سے بجلی پیدا
کی جاسکے اور اسے صنعتوں میں استعمال کیاجاسکے۔’’ نا نومن تیل ہوگا نہ
رادھا ناچے گی ‘‘کے مصداق بڑے بڑے ڈیم بنانے کی بجائے ندی نالوں پر اس طرح
سے کی جائے کہ بغیر کوئی اضافی خرچ اور طویل مدتی منصوبے کے جتنی ممکن
ہوسکے بجلی مقامی طور پر جنریٹ کی جائے اور اسے استعما ل میں لاکر ملک و
قوم کو ترقی و خوشحالی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچایا جاسکے۔کیونکہ قدرتی
آفات اور سیلاب و زلزلے آنے کا سلسلہ جاری رہنا ہے پس جو معاشرہ ان قدرتی
آفات اور افتادوں سے سبق لے کر اپنا راستہ تبدیل کریگایا کرلیتا ہے وہ اگلے
مرحلے میں اس عمل کے ذریعے عروج و ترقی کی منازل طے کرتا جاتا ہے اور جو
معاشرہ پاکستانی قوم اور گورنمنٹ کی طرح طرز کہن پر اڑا رہتا ہے وہ نیست و
نابود اور تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ہمارے اسلاف نے ابھی تک اسے کچھ نہیں
سیکھا کالا باغ اور پیلاباغ کے چکر میں پڑ کرقوم کواندھیروں میں دھکیل رہے
ہیں اور سیلابوں میں ڈبو رہے ہیں اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں کہ ہم نظام
بدلنے نکلنے ہیں-
مون سون کا ہونے والہ سلسلہ پھر سے پاکستانی قوم بالخصوص نشیبی علاقے کے
لوگوں کو ڈبونے کیلئے آنیوالا ہے توجناب براہ مہربانی لہذا اس طرف توجہ دیں
اور مستقبل کو بہتر اور محفوظ بنانے کا کارآمد راستہ تلاش کریں اسی میں سب
کی بھلائی ہے- |